ترکی سب سے بہتر مسلم ملک ہے

مصری شہریوں کے مطابق ترکی سب سے بہتر مسلم ملک ہے۔ جب کہ ایک فیصد مصری شہری پاکستان کو سب سے بہتر ملک سمجھتے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق، مصر کے شہریوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ مسلم ممالک میں ترکی سب سے آگے ہے۔ مصر کے صدر عبدالفتح السیسی کے جاری پروپیگنڈہ کے باوجود مصری شہریوں کی بڑی تعداد کا کہنا تھا کہ وہ ترکی کے حق میں جنگ کرنے کو بھی تیار ہیں۔ حال ہی میں تحقیقاتی فرم اریڈا کی جانب سے کیے گئے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 31.4 فیصد مصری شہری ترکی کو مصر کے ساتھ سب سے بہتر مسلم ملک سمجھتے ہیں۔ جب کہ 10.4 فیصد کا خیال ہے کہ سعودی عرب سب سے بہتر مسلم ملک ہے۔ 6.2 فیصد شہریوں کا خیال ہے متحدہ عرب امارات، 1.6 فیصد کے مطابق، قطر، 1 فیصد کے مطابق پاکستان اور 0.5 فیصد کے مطابق ایران ، 9.7 کے مطابق، دیگر ممالک اور 39.2 فیصد مصری شہریوں کے مطابق کوئی بھی مسلم ملک بہتر نہیں ہے۔ جب کہ 15.3 فیصد مصری شہریوں کا کہنا تھا کہ جنگی صورت حال میں وہ ترکی کے شانہ بشانہ ہوں گے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

چین ایغوروں کو بلا وجہ گرفتار کر رہا ہے، خفیہ دستاویز

منظر عام پر آنے والی ایک تازہ دستاویز سے اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ چین مسلم ایغور اقلیت کو محض ان کے مذہب اور ثقافت کی بناء پر نشانہ بنا رہا ہے۔ اس میں ایسے سینکڑوں ایغوروں کی تفصیلات موجود ہیں جنہیں حراست میں لیا گیا۔ چینی صوبہ سنکیانگ میں ایغور نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو حراستی مراکز میں رکھے جانے کی خبریں گزشتہ کئی برسوں سے عالمی میڈیا میں رپورٹ ہو رہی ہیں۔ مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ ایغور مسلمانوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان حراستی مراکز کا مقصد ان کی مذہبی بلکہ ثقافتی شناخت کو مٹانا ہے اور یہ کہ ان مراکز میں قید افراد کو ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انہیں زبردستی اپنے مذہب کے برخلاف کاموں پر مجبور کیا جاتا ہے۔ تاہم چینی حکام کا مؤقف ہے کہ یہ ووکیشنل ٹریننگ کے مراکز ہیں اور ان کا مقصد ایغور مسلمانوں میں شدت پسندی کے رجحان میں کمی لانا ہے۔

ڈی ڈبلیو اور کئی دیگر جرمن میڈیا اداروں این ڈی آر، ڈبلیو ڈی آر اور زوڈ ڈوئچے سائٹنگ کو ملنے والی ایک دستاویز میں چین کے سرکاری نکتہ نظر سے برخلاف یہ معلوم ہوا ہے کہ چین ایغور مسلمانوں کو شدت پسندانہ رویے کی بجائے انہیں ان کی مذہبی رسومات اور ثقافت کی بنیاد پر قید میں ڈال رہا ہے۔ لیک ہونے والی دستاویز 137 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں 311 ایسے ایغور باشندوں کے نام اور شناختی کارڈز کے نمبر درج ہیں، جنہیں 2017 اور 2018ء کے دوران حراست میں لیا گیا۔ اس فہرست میں گرفتار کیے جانے والے افراد کے خاندان کے ارکان، ہمسائیوں اور دوستوں کے بارے میں انتہائی زیادہ تفصیلات درج ہیں۔ اس فہرست میں 1800 سے زائد افراد کے نام، شناختی نمبرز اور ان کے سماجی رویوں کے بارے میں تفصیلات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر کون شخص گھر پر نماز پڑھتا ہے یا قران پڑھتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی سو دیگر افراد کے نام بھی موجود ہیں، جن کے بارے میں یہ تفصیلات اس فہرست میں موجود نہیں۔

اس فہرست میں شامل تمام ایغور کراکاکس کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ علاقہ چینی صوبہ سنکیانگ کا شمال مشرقی حصہ ہے، جو بھارت اور تبت کی سرحد کا قریبی علاقہ ہے۔ گو یہ دستاویز صوبہ سنکیانگ کے ایک چھوٹے سے علاقے کی نمائندگی کرتی ہے مگر اس میں ایغوروں کے بارے میں وہ اعداد وشمار حیران کُن اور انتہائی زیادہ ہیں، جو حکام نے جمع کر رکھے ہیں۔ لازمی اسمارٹ فونز ایپلیکیشنز، سکیورٹی کیمروں اور چہروں کی شناخت کرنے والے سافٹ ویئرز کے ذریعے صوبہ سنکیانگ میں اُن کی ہر ایک حرکت کو نظر میں رکھا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کو محض اس لیے ہدف بنایا گیا کیونکہ ان کے بچے طے شدہ حد سے زیادہ تھے، دیگر کو پاسپورٹ کے لیے درخواست دینے پر۔ 

بعض مردوں کو محض داڑھی رکھنے پر بھی حراست میں لیا گیا۔ ایک شخص کو تو اس لیے گرفتار کیا گیا کیونکہ چھ برس قبل اس نے اپنے فون پر ایک مذہبی نوعیت کی ویڈیو ڈاؤن لوڈ کی تھی۔ یہ ضخیم دستاویز جو ایک پی ڈی ایف فائل کی صورت میں ہے اور اس پر کوئی سرکاری مہر موجود نہیں، لیکن بہت سے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اپنے زبان اور مندرجات کی بنیاد پر یہ مستند لگتی ہے۔ ڈی ڈبلیو نے ایغور برادری سے تعلق رکھنے والے کئی ایسے افراد سے بھی بات کی جن کے رشتہ داروں کے نام اس فہرست پر موجود ہیں، ان لوگوں نے بھی اس کے اہم مندرجات کی تصدیق کی۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

ترک صدر اردوان نے ایک اور عالمی مسلم ایوارڈ اپنے نام کر لیا

مغربی افریقی ملک نائجیریا کے نشریاتی ادارے کے مطابق 2019 کی معتبر شخصیات کے ناموں کا اعلان کیا گیا جس میں ترکی کے صدر اردوان کو سال کی معتبر شخصیت قرار دیا گیا۔ ناموں کا اعلان ادارے کے چیف ایڈیٹر راشد ابو بکر نے کیا۔ ابو بکر نے سال 2018 میں بھی یہ ایوارڈ صدر اردوان کے حصے میں آنے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مسلم امہ اور عالمی سطح پر بلا بحث بااثر اور طاقتور ہونے کے جواز میں اس سال بھی ترک صدر اس ایوارڈ کے حقدار ٹہرے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر اردوان کے ہمیشہ مظلوموں کا ساتھ دیتے ہیں اور انہوں نے شام، میانمار، کشمیر اور فلسطین کے معاملات میں ہمیشہ اپنی صدا کھل کر بلند کی ہے۔ مذکورہ ایورڈز میں دوسرے نمبر پر ملیشیائی وزیر اعظم مہاتیر محمد، تیسرے نمبر پر صومالی نژاد امریکی پارلیمانی رکن الہان عمر، چوتھے نمبر پر گامبیا کے صدر اور پانچویں نمبر پر ترک نژاد جرمن فٹ بالر مسعود از ال رہے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جسارت

مغرب میں اسلام کا بڑھتا خوف، وجوہات کیا ہیں

مغرب میں اسلام کا خوف اور اس کے بارے میں غلط فہمیاں اور جارحانہ رویہ کوئی نئی بات نہیں۔ اسی خوف اور سوچ کی بنیادی وجہ تو صلیبی جنگیں بنیں لیکن تاریخ میں بعد میں رونما ہونے والے مختلف واقعات نے بھی اس رحجان کو تقویت دی۔ موجودہ دور میں نائن الیون کے واقعے کے بعد اس منفی سوچ میں زیادہ شدت نظر آئی ہے۔ اسلام دشمن فکر مغرب میں نہ صرف عام لوگوں کے رویوں میں ظاہر ہوتی ہے بلکہ مغربی ممالک کے ریاستی ادارے بھی اس ذہینیت کا برملا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ عوامی اور ریاستی طرز فکر مختلف مسلمان ممالک میں یا تو فوج کشی کی صورت میں دکھائی دیتا ہے یا ان میں سیاسی اور معاشی انتشار پھیلانے کی کاوشوں میں نظر آتا ہے۔

اس غیرمہذب اور جارحانہ رویے کو سمجھنے کے لیے مغربی ممالک، خصوصاً امریکہ میں اسلام کے خلاف پائے جانے والے تعصبات کے علاوہ مختلف عوامل کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم عنصر اسلام کے بارے میں تصورات خیالات کو بنا کسی دلیل کے حقیقت سمجھ لینا ہے۔ ان میں مثبت اور منفی دونوں قسم کے خیالات شامل ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر منفی خیالات کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے پھیلا کر لوگوں کے ذہنوں میں اسلام کا ایک جھوٹا اور خوفناک چہرہ بٹھا دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ثقافتی یلغار کی جا رہی ہے جس میں بالی وڈ کی فلموں، دائیں بازو کے ٹی وی چینلز، ریڈیو، سوشل میڈیا اور سماجی رابطے یعنی خاندانوں اور احباب کے حلقوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

ان ذرائع کے ذریعے مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں تعصب پر مبنی خیالات پختہ کیے جا رہے ہیں جن میں سب سے گھناؤنا تعصب اسلام اور دہشت گردی کا رشتہ جوڑنا ہے۔ اسی قسم کا تعصب سیاہ فام امریکیوں کے بارے میں بھی کامیابی سے پیدا کیا گیا کہ وہ خطرناک لوگ ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ اس طرح کا تعصب عموماً لوگوں کے مجموعی رویے کو ان کی مثبت اقدار کے باوجود زیادہ متاثر کرتا ہے۔ غیر ملکیوں کا خوف بھی اس مہم میں مؤثر طریقے سے استعمال کیا گیا ہے۔ اسلام کے بارے میں اس خوف کو ہوا دی گئی ہے کہ غیرملکی مسلمان مغرب کی اعلیٰ ثقافت اور ان کی عظیم اقدار کو سخت نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ لیکن اس خوف کا سامنا صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ دوسرے مذاہب کے حامل مختلف تارکین وطن کو بھی کرنا پڑ رہا ہے۔

امریکہ میں مختلف اوقات میں آئرش، چینی، اطالوی، میکسیکن اور جاپانیوں کو اس نسلی اور ثقافتی تعصب کا نشانہ بنایا گیا۔ موجودہ حالات میں مسلمان اور اسلام اس مہم کا خاص نشانہ ہیں۔ مغربی ممالک میں عام شہریوں کے ذہنوں میں یہ خوف پیدا کیا جا رہا ہے کہ اسلام کے پھیلنے سے ان کی ثقافت اور مذہبی اقدار کو سخت خطرہ ہے جو مسلمانوں کے خلاف نفرت اور اسلام سے خوف میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں معلومات کی کمی یا لاعلمی بھی اس خوف کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق امریکیوں کی بڑی اکثریت مسلمانوں یا اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ صرف 38 فیصد امریکی کسی مسلمان سے ملے ہیں یا انہیں ذاتی طور پر جانتے ہیں۔ کم از کم 62 فیصد امریکی کسی مسلمان سے نہ ملے ہیں اور نہ ہی انہیں کبھی ان سے بات کرنے کا موقع ملا۔ اسی طرح 57 فیصد شہری اسلام کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں اور 26 فیصد کچھ بھی نہیں جانتے۔ ان اعداد و شمار میں نائن الیون اور مسلمان ملکوں سے دو جنگوں کے باوجود کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

اس کم علمی کی وجہ اسلام اور دوسرے مذاہب کے بارے میں تعلیمی اداروں یا نصاب میں معلومات کا کم ہونا ہے۔ ابھی حال ہی میں جو معلومات نصاب کا حصہ بنیں وہ عموماً ناکافی، تعصب پر مبنی اور غیرمتوازن سمجھی جاتی ہیں۔ یہ دراصل اسلام کے بارے میں مزید غلط فہمیاں پیدا کرنے کا سبب بھی بنی ہیں۔ نصاب میں شامل معلومات عموماً یہ پیغام دیتی نظر آتی ہیں کہ اسلام اور جدیدیت ایک دوسرے کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس سے اسلام کے بارے میں خوف میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان عوامل کی وجہ سے اسلام کے بارے میں سکولوں کا نیا نصاب درحقیقت منفی کردار ادا کر رہا ہے۔ اسلام کے خوف اور اس کے خلاف نفرت پھیلانے کی مہم اب ایک طرح کی پوری صنعت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس منافع بخش صنعت کو مسلمانوں کے مخالف ادارے اور افراد فراخدلی سے مالی امداد دیتے ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق صرف 2013 میں اس سلسلے میں امریکہ میں 205 ملین ڈالرز کے عطیات اسلام مخالف تحقیقی اداروں کو دیے گئے۔ یہ ادارے اپنی ساکھ بڑھانے کے لیے عموماً تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور لکھاریوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ ان اداروں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ 2010 میں ایسے اداروں کی تعداد تقریباً پانچ تھی جو 2018 میں تیزی سے بڑھتے ہوئے 114 کے قریب پہنچ گئی ہے۔ اسلام کا خوف پھیلانے میں ذرائع ابلاغ کے علاوہ ہالی وڈ نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ معلومات کی تشہیر کے آلات میں اضافہ ہوا ہے جن میں تعصب کی بنیاد پر قائم ویب سائٹس، لٹریچر، سوشل میڈیا، ویڈیو گیمز، مسجدوں اور شریعہ کے خلاف مہم اور مسلمانوں کے خلاف سیاست اور پالیسیاں شامل ہو گئے ہیں۔

نائن الیون کے بعد میڈیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مواد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ کے بڑے اخباری اداروں اے بی سی اور سی بی ایس میں یہ اضافہ 80 فیصد کے قریب ہے جبکہ فاکس ٹی وی میں یہ اضافہ 60 فیصد کے قریب ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اسی طرح دہشت گردی کے جن واقعات میں مسلمان شامل تھے، انہیں ان واقعات سے جن میں غیر مسلمان شامل تھے، تقریباً 3.5 گنا زیادہ مشتہر کیا گیا۔ اسی طرح جب مسلمان تشدد کے واقعات میں شامل ہوں انہیں بلا تحقیق فوراً دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ جبکہ اس سے ملتے جلتے واقعات، جن میں غیرمسلموں کا ہاتھ ہو، ان کو صرف تشدد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اسلام کے خلاف انتہا پسند تجزیہ نگار اس مہم کو مہمیز دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان تجزیہ کاروں کو سننے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو اسلام کے بارے میں ان کی اطلاعات کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں۔

بالی وڈ کی فلموں میں مسلمان مردوں کو اکثر بدکردار اور دہشت گرد اور مسلمان عورتوں کو کسمپرسی کی غلامانہ زندگی گزارتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ ایک تجزیے کے مطابق تقریباً ایک ہزار فلموں اور ٹی وی شوز میں مسلمانوں کو منفی طریقے سے دکھایا گیا ہے۔ اسلام کے بارے میں معلومات میں قدرے اضافہ ہونے کے باوجود ہالی وڈ کی فلمیں ابھی بھی اس تعصب کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور بےتحاشہ ایسی فلمیں بنائی جا رہی ہیں جن میں مسلمانوں کو منفی کرداروں میں دکھایا جاتا ہے۔ ان اقدامات سے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور اسلام کے بارے میں خوف میں اضافہ بڑھتا جا رہا ہے۔ 2019 میں ایک سروے کے مطابق صرف 15 فیصد امریکی اسلام کے بارے میں پسندیدہ رویہ رکھتے ہیں جبکہ 37 فیصد اسلام کو انتہائی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ 57 فیصد امریکی سمجھتے ہیں کہ ان کی ثقافت اور اقدار کو اسلام سے شدید خطرہ ہے۔

اس تعصب کی وجہ سے ان ممالک میں مقیم مسلمانوں کے معیار زندگی پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔ وہ ایک طرح کے مسلسل خوف میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ تعصب مسلمان طالب علموں کے حصول علم اور ملازمت میں ان کے ترقی کے راستے بھی محدود کرتا ہے۔ اس تعصب کا مقابلہ کرنے کے لیے ان ممالک میں مسلمانوں کو ایک مؤثر مہم کے ذریعے ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے ایک پراثر اور حقائق پر مبنی بیانیہ تیار کرنا ہو گا جس کے ذریعے یہ پیغام دیا جا سکے کہ اسلام زندگی کے ہر میدان میں اعتدال پسندی کی تربیت دیتا ہے اور کسی حالت میں بھی دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا۔ مسلمانوں کو اندرونی گروہی اور فرقہ بندی کے اختلافات سے بالاتر اور متحد ہو کر اس کام پر جٹ جانا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے جدید ذرائع ابلاغ اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے نوجوان نسل اور تعلیمی اداروں پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔

عاقل ندیم سابق سفیر

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو