چین ایغوروں کو بلا وجہ گرفتار کر رہا ہے، خفیہ دستاویز

منظر عام پر آنے والی ایک تازہ دستاویز سے اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ چین مسلم ایغور اقلیت کو محض ان کے مذہب اور ثقافت کی بناء پر نشانہ بنا رہا ہے۔ اس میں ایسے سینکڑوں ایغوروں کی تفصیلات موجود ہیں جنہیں حراست میں لیا گیا۔ چینی صوبہ سنکیانگ میں ایغور نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو حراستی مراکز میں رکھے جانے کی خبریں گزشتہ کئی برسوں سے عالمی میڈیا میں رپورٹ ہو رہی ہیں۔ مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ ایغور مسلمانوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان حراستی مراکز کا مقصد ان کی مذہبی بلکہ ثقافتی شناخت کو مٹانا ہے اور یہ کہ ان مراکز میں قید افراد کو ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انہیں زبردستی اپنے مذہب کے برخلاف کاموں پر مجبور کیا جاتا ہے۔ تاہم چینی حکام کا مؤقف ہے کہ یہ ووکیشنل ٹریننگ کے مراکز ہیں اور ان کا مقصد ایغور مسلمانوں میں شدت پسندی کے رجحان میں کمی لانا ہے۔

ڈی ڈبلیو اور کئی دیگر جرمن میڈیا اداروں این ڈی آر، ڈبلیو ڈی آر اور زوڈ ڈوئچے سائٹنگ کو ملنے والی ایک دستاویز میں چین کے سرکاری نکتہ نظر سے برخلاف یہ معلوم ہوا ہے کہ چین ایغور مسلمانوں کو شدت پسندانہ رویے کی بجائے انہیں ان کی مذہبی رسومات اور ثقافت کی بنیاد پر قید میں ڈال رہا ہے۔ لیک ہونے والی دستاویز 137 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں 311 ایسے ایغور باشندوں کے نام اور شناختی کارڈز کے نمبر درج ہیں، جنہیں 2017 اور 2018ء کے دوران حراست میں لیا گیا۔ اس فہرست میں گرفتار کیے جانے والے افراد کے خاندان کے ارکان، ہمسائیوں اور دوستوں کے بارے میں انتہائی زیادہ تفصیلات درج ہیں۔ اس فہرست میں 1800 سے زائد افراد کے نام، شناختی نمبرز اور ان کے سماجی رویوں کے بارے میں تفصیلات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر کون شخص گھر پر نماز پڑھتا ہے یا قران پڑھتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی سو دیگر افراد کے نام بھی موجود ہیں، جن کے بارے میں یہ تفصیلات اس فہرست میں موجود نہیں۔

اس فہرست میں شامل تمام ایغور کراکاکس کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ علاقہ چینی صوبہ سنکیانگ کا شمال مشرقی حصہ ہے، جو بھارت اور تبت کی سرحد کا قریبی علاقہ ہے۔ گو یہ دستاویز صوبہ سنکیانگ کے ایک چھوٹے سے علاقے کی نمائندگی کرتی ہے مگر اس میں ایغوروں کے بارے میں وہ اعداد وشمار حیران کُن اور انتہائی زیادہ ہیں، جو حکام نے جمع کر رکھے ہیں۔ لازمی اسمارٹ فونز ایپلیکیشنز، سکیورٹی کیمروں اور چہروں کی شناخت کرنے والے سافٹ ویئرز کے ذریعے صوبہ سنکیانگ میں اُن کی ہر ایک حرکت کو نظر میں رکھا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کو محض اس لیے ہدف بنایا گیا کیونکہ ان کے بچے طے شدہ حد سے زیادہ تھے، دیگر کو پاسپورٹ کے لیے درخواست دینے پر۔ 

بعض مردوں کو محض داڑھی رکھنے پر بھی حراست میں لیا گیا۔ ایک شخص کو تو اس لیے گرفتار کیا گیا کیونکہ چھ برس قبل اس نے اپنے فون پر ایک مذہبی نوعیت کی ویڈیو ڈاؤن لوڈ کی تھی۔ یہ ضخیم دستاویز جو ایک پی ڈی ایف فائل کی صورت میں ہے اور اس پر کوئی سرکاری مہر موجود نہیں، لیکن بہت سے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اپنے زبان اور مندرجات کی بنیاد پر یہ مستند لگتی ہے۔ ڈی ڈبلیو نے ایغور برادری سے تعلق رکھنے والے کئی ایسے افراد سے بھی بات کی جن کے رشتہ داروں کے نام اس فہرست پر موجود ہیں، ان لوگوں نے بھی اس کے اہم مندرجات کی تصدیق کی۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

ایغور مسلمانوں سے سلوک پر مسلم دنیا کی خاموشی پر اوزل کی تنقید

جرمن قومی فٹ بال ٹیم کے سابق اسٹار میسوت اوزل نے چین میں اقلیتی ایغور مسلم کمیونٹی پر ہونے والے مبینہ ظلم وستم پر خاموشی اختیار کرنے پر مسلم ممالک کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ چینی صوبہ سنکیانگ میں دس لاکھ مسلمان باشندوں کو جبری طور پر ان کیمپوں میں منتقل رکھا گیا ہے۔ انگلش پریمیئر لیگ کی ٹیم آرسنل کی نمائندگی کرنے والے اکتیس سالہ اوزل کی طرف سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ وہ ایغور مسلمانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ”قرآن نذر آتش کیا گیا۔ مسجدوں کو بند کر دیا گیا۔ مسلم اسکولوں پر پابندی لگا دی گئی۔ مذہبی رہنماؤں کو قتل کیا گیا۔ مسلم بھائیوں کو زبردستی کیمپوں میں منتقل کیا گیا‘‘۔

اپنے ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر اوزل نے ترک زبان میں مزید لکھا، ”مسلمان خاموش ہیں۔ ان کی آواز سنائی نہیں دیتی۔‘‘ اس پیغام کے بیک گراؤنڈ میں ہلکے نیلے رنگ میں سفید ہلال نمایاں تھا۔ ایغور علیحدگی پسند اسے مستقبل کے آزاد ملک مشرقی ترکستان کا پرچم قرار دیتے ہیں۔ چین میں ایغور مسلمانوں کی مبینہ ذہن سازی کے لیے قائم کیے گئے متعدد کیمپوں پر عالمی برداری کی طرف سے تنقید کی گئی ہے۔ مبصرین کے مطابق ان کیمپوں میں ایغور مسلمانوں کو مقامی اکثریتی ہان ثقافت کی طرف مائل کرنا ہے۔ 

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
 

اویغوروں پر ’جبر‘ : امریکہ میں چین پر پابندیوں کا بِل منظور

امریکی کانگریس نے چین کے اویغور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر بل مظور کیا ہے جس کے تحت چینی اعلیٰ حکام پر معاشی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
چین نے اپنا سخت رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی بل کا مقصد چین کی شدت پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کی کوششوں کو بدنام کرنا ہے اور یہ چین کی حکومت کی سنکیانگ پالیسی پر حملہ ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اویغور ایکٹ 2019 کے حق میں ایوان نمائندگان کے 407 اراکین نے ووٹ دیا ہے جبکہ صرف ایک رکن نے بل کی مخالفت کی۔ اویغور بل ستمبر میں امریکی سنیٹ سے منظور ہونے کے بعد ایوان نمائندگان نے بھی منظور کر لیا ہے جس کے بعد یہ بل صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھیجا جائے گا۔ صدر کے دستخط کے بعد یہ قانون کی شکل اختیار کر لے گا۔

اویغور ایکٹ 2019 چین کے صوبہ سنکیانگ کے اویغور مسلمانوں کے خلاف کی گئی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر چین کی حکومت کی مذمت کرتا ہے۔ ایکٹ کے تحت امریکی محکمہ کامرس پر پابندی لگائی گئی ہے کہ وہ ایسے آلات سنکیانگ کو برآمد نہ کرے جو مسلمان شہریوں پر کڑی نگرانی یا ان کی حراست میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، بالخصوس چہرے شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی۔ اے ایف پی کے مطابق دس لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو چین کی حکوت نے کیمپوں میں قید کر رکھا ہے جہاں مبینہ طور پر ان کے نظریات تبدیل کیے جاتے ہیں۔

ایکٹ میں اویغور مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر حراست کی مذمت کرتے ہوئے کیمپوں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کے مطابق ان کیمپوں میں مسلمانوں کو نظر بند کر کے ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔ ایکٹ میں صدر ٹرمپ سے صوبہ سنکیانگ کی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ سمیت ان تمام اعلیٰ حکام پر معاشی پابندیاں لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو اویغور مسلمانوں پر مظالم کے ذمہ دار ہیں۔ ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی کا کہنا تھا کہ ’اویغور کمیونٹی کے انسانی حقوق اور ان کا وقار بیجنگ کے وحشیانہ اقدامات کے باعث خطرے میں ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ چین کی خوفناک انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف امریکی کانگریس سخت اقدامات اٹھا رہی ہے۔

اویغور ایکٹ 2019 کے تحت امریکی محکمہ خارجہ ہر سال سینکیانگ میں مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن پر رپورٹ تیار کرے گا جو امریکی کانگریس کو بھی پیش کی جائے گی۔ حکومتی جماعت ریپبلکن پارٹی کے رکن مارکو روبیو نے یہ بل ایوان نمائندگان میں پیش کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ چین کی حکومت اور کمیونسٹ پارٹی اویغور کمیونٹی کی نسلی اور ثقافتی شناخت کا منظم طریقے سے خاتمہ کر رہی ہے۔ امریکی کانگریس سے منظور شدہ ایکٹ صدر ٹرمپ کو بھیجا جائے گا جن کے دستخط کے بعد یہ قانون کی شکل اختیار کر لے گا۔

بشکریہ اردو نیوز

اویغور مسلمانوں کے نظریات زبردستی تبدیل کیے جاتے ہیں

 اقوام متحدہ کے مطابق چین کے سنکیانگ صوبے میں تقریباً 10 لاکھ اویغور مسلمان اور دیگر نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والوں کو جیلوں میں قید کر کے رکھا ہوا ہے۔ بین الاقوامی کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی جانب سے شائع کی گئی لیکڈ دستاویزات میں ان جیلوں کو چلانے کا طریقہ کار واضح کیا ہوا ہے جس میں جیلوں کی موجودگی خفیہ رکھنا، قیدیوں کے نظریات زبردستی تبدیل کرنا اور قیدیوں کو فرار ہونے سے روکنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ قیدیوں کو کن حالات میں رشتے داروں سے ملنے اور واش روم جانے کی اجازت ہونی چاہیے، بھی لیک ہونے والی دستاویزات میں واضح کیا ہوا ہے۔

دستاویزات میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ کس طرح سے سنکیانگ کے باسیوں کی بھاری نجی معلومات کے ڈیٹا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پولیس شہریوں کو حراست میں لیتی ہے۔ آئی سی آئی جے کے مطابق لندن میں موجود چینی سفارتخانے نے لیک ہونے والی دستاویزات کو من گھڑت اور جعلی قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔ دستاویزات ایسے موقع پر سامنے آئی ہیں جب چین کو صوبہ سنکیانگ میں انسانی حقوق کی پامالی کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تیس سے زائد ممالک نے چین پر ’جبر کی خوفناک مہم‘ چلانے کا الزام لگایا ہے۔ 

جبکہ چین نے اویغور اور دیگر مسلمانوں کے ساتھ بد سلوکی کو ہمیشہ مسترد کیا ہے اور مؤقف اپنایا ہے کہ چین ان مراکز میں ’اسلامی انتہا پسندی‘ اور ’علیحدگی پسندی‘ سے نمٹنے کے لیے رضاکارانہ تعلیم و تربیت دے رہا ہے۔ دستاویزات میں مذہبی اقلیتوں کو قید کرنے کی مدت کم سے کم ’ایک سال‘ بتائی گئی ہے، لیکن چند کیسز میں قید کا دورانیہ ایک سال سے کم بھی رہا ہے۔ آئی سی آئی جے کے مطابق دستاویزات میں غیر ملکی شہیریت رکھنے والے اویغور کو حراست میں لینے، اور بیرون ممالک میں رہنے والے سنکیانگ کے اویغور کا پتہ لگانے کی تفصیلی ہدایات شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ کو ملک بدر کر کہ چین واپس بھی بھیجا گیا ہے۔

بشکریہ اردو نیوز