وہ دن جب امریکا کے ہاتھوں انسانی تاریخ کی بدترین تباہی رقم ہوئی

پاکستان میں بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں نے ملک کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ لیکن ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی کے شاہدین کے نزدیک جوہری ہتھیاروں کا پھیلاؤ روکنے کی جتنی ضرورت آج ہے، شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔ پچھتر سال پہلے چھ اگست کو صبح سوا آٹھ بجے کا وقت تھا، جب انسانی تاریخ کی بدترین تباہی رقم ہوئی اور امریکا کے پہلے ایٹمی حملے نے جاپان کے شہر ہیروشیما میں 70 ہزار لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ اس 9700 پاؤنڈ وزنی یورینیم بم نے کوئی ایک میل کے دائرے میں سب کچھ نیست و نابود کر دیا۔ تین روز بعد نو اگست کو گیارہ بج کر دو منٹ پر امریکا نے جاپان کے ایک اور شہر ناگاساکی پر دوسرا جوہری بم گرایا۔

اس حملے میں اسی وقت کوئی 40 ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ جو تابکاری سے زخمی یا اپاہج ہوئے، اگلے پانچ برسوں میں ان میں سے بھی دسیوں ہزار لوگ چل بسے۔ یوں سن انیس سو پچاس تک ناگاساکی میں مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ 40 ہزار جبکہ ہیروشیما میں ہلاکتوں کی تعداد دو لاکھ تک جا پہنچی۔ ایٹمی ہتھیاروں سے اس قدر وسیع تباہی کی نہ اس سے پہلے اور نہ بعد میں کوئی مثال ملتی ہے۔ اس بربادی کے بعد چودہ اگست سن انیس سو پینتالیس کو جاپان نے اپنی شکست تسلیم کر کے ہتھیار ڈال دیے اور دوسری عالمی جنگ اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ لیکن پچھتر سال بعد بھی ایٹمی ہتھیاروں کا خطرہ ہمارے ساتھ ہے اور ان مہلک ہتھیاروں کا پھیلاؤ کم ہونے کی بجائے بڑھا ہے۔

پاک بھارت ایٹمی دوڑ
بھارت اور پاکستان میں کشمیر اور دیگر تنازعات پر فوجی کشیدگی برقرار ہے۔ دونوں ملک ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلوں کی دوڑ میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایٹمی جنگ کی صورت میں دونوں کے پاس ایسے دور تک مار کرنے والے میزائل ہیں، جو ایک دوسرے کے بیشتر بڑے شہروں کو نیست و نابود کر سکتے ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق بھارت کے پاس ایک سو تیس کے قریب جوہری ہتھیار ہیں جب کہ پاکستان ایسے تقریباً ایک سو پچاس تباہ کن ہتھیار رکھتا ہے۔ بھارت اپنے ہتھیاروں سے کراچی، لاہور، اسلام آباد اور ملتان سمیت کئی پاکستانی شہروں کو نشانہ بنا سکتا ہے جب کہ پاکستانی جوہری میزائل نئی دہلی، ممبئی، بنگلور اور حیدر آباد سمیت کئی شہروں تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلاؤ
مشرق وسطیٰ میں اسرائیل ایک غیراعلانیہ ایٹمی طاقت ہے۔ اسرائیل کی فوجی طاقت کے سامنے پڑوسی عرب ملک قدرے بے بس اور کمزور ہو چکے ہیں۔ ایرانی ایٹمی پروگرام محدود کرنے کے لیے اباما دور کے سن دو ہزار پندرہ کے معاہدے کو صدر ٹرمپ نے ناکام بنا دیا۔ انہوں نے شمالی کوریا کے ایٹمی عزائم کو قابو میں کرنے کے لیے وہاں کے رہنما کم جونگ اُن سے بات چیت میں دلچسپی دکھائی لیکن اس کا کوئی خاص نتیجہ نہ نکلا۔ امریکا اور روس کے درمیان چپقلش کے باعث دونوں ملک اپنے ایٹمی ہتھیار اور میزائل کم کرنے پر آمادہ نہیں۔ صدر ٹرمپ کا اصرار ہے کہ کسی بھی نئے معاہدے میں چین کا شامل ہونا بھی لازمی ہو گا۔

جوہری ہتھیاروں سے ممکنہ تباہی
ایسے میں ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی کے شاہدین اور جنگ مخالف حلقوں کے مطابق ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے خلاف آواز اٹھانے کی جتنی ضرورت آج ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ ماحولیاتی تحفظ کے لیے سرگرم عالمی تنظیم گرین پیس انٹرنیشنل کے مطابق جرمنی پر کسی بھی ممکنہ ایٹمی حملے کی صورت میں دسیوں ہزار شہری مارے جائیں گے۔ تنظیم کے ایک نئے سافٹ ویئر ‘نیوک میپ‘ کے مطابق دارالحکومت برلن پر 20 کلو ٹن وزنی ایٹم بم گرنے سے 145000 انسان فوری طور پر لقمہ اجل بن جائیں گے۔ اسی طرح شہر فرینکفرٹ پر 550 کلوٹن وزنی بم گرائے جانے سے پانچ لاکھ انسانوں کی موت کا خدشہ ہو گا۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

ترکی سب سے بہتر مسلم ملک ہے

مصری شہریوں کے مطابق ترکی سب سے بہتر مسلم ملک ہے۔ جب کہ ایک فیصد مصری شہری پاکستان کو سب سے بہتر ملک سمجھتے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق، مصر کے شہریوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ مسلم ممالک میں ترکی سب سے آگے ہے۔ مصر کے صدر عبدالفتح السیسی کے جاری پروپیگنڈہ کے باوجود مصری شہریوں کی بڑی تعداد کا کہنا تھا کہ وہ ترکی کے حق میں جنگ کرنے کو بھی تیار ہیں۔ حال ہی میں تحقیقاتی فرم اریڈا کی جانب سے کیے گئے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 31.4 فیصد مصری شہری ترکی کو مصر کے ساتھ سب سے بہتر مسلم ملک سمجھتے ہیں۔ جب کہ 10.4 فیصد کا خیال ہے کہ سعودی عرب سب سے بہتر مسلم ملک ہے۔ 6.2 فیصد شہریوں کا خیال ہے متحدہ عرب امارات، 1.6 فیصد کے مطابق، قطر، 1 فیصد کے مطابق پاکستان اور 0.5 فیصد کے مطابق ایران ، 9.7 کے مطابق، دیگر ممالک اور 39.2 فیصد مصری شہریوں کے مطابق کوئی بھی مسلم ملک بہتر نہیں ہے۔ جب کہ 15.3 فیصد مصری شہریوں کا کہنا تھا کہ جنگی صورت حال میں وہ ترکی کے شانہ بشانہ ہوں گے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ