بااثر اور عظیم ثالث : ایردوان

صدر ایردوان اس وقت واحد عالمی رہنما ہیں جن پر دنیا کی نگاہیں مرکوز ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ اور روس پر عالمی سطح پر لگائی جانے والی پابندیاں ہیں لیکن ایردوان ایک ایسے رہنما کے طور پر ابھر ے ہیں جن کے روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے بڑے گہرے اور دوستانہ مراسم ہیں۔ مغربی ممالک جو روس پر پابندیاں لگانے کے بعد خود انرجی اور اناج کے بحران سے دوچار ہیں اس بحران سے نکلنےکی اپنے تئیں کوششیں کر چکے ہیں لیکن تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں جبکہ صدر ایردوان نے مغربی ممالک ہی کی درخواست پر اپنے مضبوط مراسم استعمال کرتے ہوئے روس کو یوکرین کے اناج کو ترکی کے راستے بیرونی منڈیوں تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کی ہے، ترکیہ کے اس اقدام سے ایک طرف دنیا نے اور خاص طور پر افریقی ممالک نے سکھ کا سانس لیا تو دوسری طرف ترکیہ نے اس صورتِ حال کو اپنی اقتصادی بہتری کیلئے استعمال کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔

انہوں نے اس سے قبل روس سے قریبی تعلقات ہونے کے باوجود بڑی تعداد میں اپنے مسلح ڈرونز یوکرین کو فروخت کر کے نہ صرف یوکرین کےعوام کے دل جیت لئے بلکہ مغربی ممالک نے بھی ایردوان کے اس اقدام کی حمایت کی لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکیہ کے اس اقدام کے باوجود روس ترکیہ سے اپنے گہرے تعلقات کو جاری رکھے ہوئے ہے اور اپنے اناج اور گیس کو اب ترکیہ کے راستے عالمی منڈیوں تک پہنچانے کیلئے ایردوان کی ثالثی کا منتظر ہے کیونکہ اس کے خیال میں ایردوان سے بہتر کوئی بھی رہنما ثالثی کا کردار ادا نہیں کر سکتا۔ ایردوان کی کامیاب حکمتِ عملی نے نہ صر ف لیبیا، مصر، عرب ممالک بلکہ روس اور فرانس کو بھی اس قضیے سے اس طریقے سے نکال باہر کیا جیسے مکھن میں سے بال نکالا جاتا ہے اوریوں لیبیا کے عوام کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور اب طویل عرصے بعد شام نے ترکیہ سے اپنے تعلقات کو نئے سرے سے استوار کرنے کے لیے (روس کی کوششوں سے ) ترک حکام سے رابطہ قائم کئے ہیں، دونوں ممالک کی خفیہ سروس کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور جلد ہی ان مذاکرات کے مثبت نتائج کی توقع کی جا رہی ہے۔

ترکیہ نیٹو کا واحد ملک ہے جس نے روس سےبڑے قریبی تعلقات قائم کر رکھے ہیں ، نیٹو کے رکن ممالک اس وجہ سے ترکیہ کو اکثر و بیشتر ہدفِ تنقید بھی بناتے رہے ہیں بلکہ امریکہ نے تو روس کی جانب سے فراہم کئے جانے والے ایس – 400 میزائلوں کی فروخت کے بعد ترکیہ کو نہ صرف ایف-16 طیاروں کی فروخت کو روک دیا بلکہ مشترکہ طور پر تیار کئے جانے والے ایف-35 طیاروں کے پروجیکٹ سے بھی اسے یک طرفہ طور پر نکال باہر کیا لیکن روس- یوکرین جنگ کے بعد امریکہ نے مجبور ہو کر ترکیہ پر ایف 16 طیاروں کی فروخت سے متعلق مذاکرات شروع کرنے کی ہامی بھر لی جو ترکیہ کیلئے ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ اگرچہ یونان اور متعدد یورپی ممالک ترکیہ کو نیٹو سےخارج کروانے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن اس اتحاد کا بانی امریکہ اچھی طرح جانتا ہے نیٹو ترکیہ کے بغیر ایک ’’نمائشی اتحاد‘‘ ہے اسلئے امریکہ کبھی ترکیہ کو نیٹو سے خارج کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔

ترکیہ اگرچہ شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن نہیں لیکن ازبکستان نے چین اور روس کی خواہش پر ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان کو خصوصی طور پر اس سربراہی اجلاس میں مدعو کرتے ہوئے اس ملک کی اہمیت کو تسلیم کر لیا جبکہ اس کانفرنس میں نیٹو کے کسی دیگر ملک کو مدعو نہیں کیا گیا۔ ترکیہ نے اس کانفرنس میں شرکت کرنے کے بعد تنظیم کی رکنیت حاصل کرنےکیلئے بھی غور کرنا شروع کر دیا ہے۔ جدید جمہوری دنیا میں کئی ایک ممالک کے رہنما ایسے بھی ہیں جو اگرچہ طویل عرصے سے برسر اقتدار ہیں لیکن بد قسمتی سے ان تمام ممالک میں سے کسی ایک میں بھی مغربی معیار کے جمہوری نظام پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا، اس لئے ان ممالک کے رہنماؤں کا صدر ایردوان سے تقابلی جائزہ ممکن نہیں یعنی چین کا نظام اور روس کا نظام ترکیہ سے کافی حد تک مختلف ہے جبکہ مغرب میں ایسا کوئی رہنما موجود نہیں جسے صدر ایردوان کی طرح طویل عرصے سے عوام کی حمایت حاصل ہو۔

مغرب میں جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل اگرچہ طویل عرصے تک عوام کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہیں لیکن وہ بھی عوامی حمایت اور کامیابی کی شرح کے لحاظ سے صدر ایردوان کی مقبولیت اور کامیابیوں کے معیار سے بہت پیچھے رہیں۔ صدر ایردوان واحد عالمی رہنما ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ میں پانچ عالمی قوتوں، جنہوں نے ویٹو پاور حاصل کر رکھی ہے، کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر رکھا ہے اور وہ جنرل اسمبلی میں خطاب اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر واشگاف الفاظ میں ’’دنیا پانچ سے عظیم تر ہے‘‘ کا صرف نعرہ ہی نہیں لگا رہے بلکہ اس کیلئے انہوں نے باقاعدہ مہم بھی شروع کر رکھی ہے۔ صدر ایردوان طویل عرصے تک ترکیہ میں برسر اقتدار رہنے والے اور جمہوریہ کے بانی غازی مصطفیٰ کمال کو اپنے پیچھے چھوڑنے والے پہلے رہنما بن گئے ہیں۔ غازی مصطفیٰ کمال 5492 دن برسر اقتدار رہے تھے جبکہ ایردوان 9 مارچ 2003 سے مسلسل اقتدار میں ہیں۔ طویل عرصے اقتدار میں رہنے والی شخصیت کا عموماًیہ المیہ ہوتا ہے کہ عوام اس سے اُکتا جاتے ہیں لیکن صدر ایردوان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ وہ اب تک عوام میں مقبول ہیں اور یہ مقبولیت کب تک برقرار رہتی ہے ؟ یہ 2023ء کے صدارتی انتخابات ہی بتا سکیں گے۔

پاکستانیوں کے نقطہ نظر سے بھی ایردوان بڑے کامیاب لیڈر تصور کئے جاتے ہیں کہ انہوں نے جس جرات مندانہ طریقے سے عالمی پلیٹ فارمز پر مسئلہ کشمیر کی حمایت کی اور پاکستان میں ماضی میں اور موجود دور میں قدرتی آفات میں مدد کی ہے اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

ڈاکٹر فر قان حمید

بشکریہ روزنامہ جنگ

کون بنے گا ایردوان؟

کچھ عرصہ قبل تک پاکستان میں عمران خان کے ترک صدر ایردوان کے نقشِ قدم پر چلنے اور ان ہی کی طرح نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ صدر ایردوان کی طرح عالمی لیڈر بننے کی راہ پر گامزن ہونے کے چرچے ہونے لگے تھے۔ ایردوان آج جس مقام پر ہیں انہیں یہ مقام آسانی سے حاصل نہیں ہوا، اس کے لیے انہوں نے بڑی جدو جہد کی ہے۔ جب انہوں نے وزیراعظم کی حیثیت سے اقتدار حاصل کیا تو ان کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت ترکی میں آئینی عدلیہ کے سابق سربراہ نجدت سیزر، جنہیں ایردوان سے قبل کی بائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد نے ملک کا صدر منتخب کروایا تھا، نے ایردوان کے وزیر اعظم بننے کے بعد ایسی رکاوٹیں کھڑی کر دیں جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ وزیراعظم ایردوان کو سب سے پہلے اپنی کابینہ کے ناموں کی منظوری حاصل کرنے میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ان کی تیار کردہ کابینہ کی فہرست میں چند ایک ناموں پر اعتراض ہونے کی وزیراعظم کو بھنک پڑنے پر آخری وقت میں چند ایک ناموں میں تبدیلی کرنا پڑی۔

وزیراعظم ایردوان کو اپنے پہلے دور میں مختلف اداروں کے سربراہ تبدیل کرنا تو کجا ان اداروں کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کو بھی تبدیل کرنا ممکن نہ تھا کیونکہ صدر نجدت سیزر اس سلسلے میں ایردوان کی راہ میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ کھڑی کر دیتے تھے اور وزیراعظم کو متنبہ کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ اس دور میں فوج اور عدلیہ کی تلوار وزیراعظم ایردوان کے سر پر لٹکتی رہتی تھی لیکن وزیراعظم ایردوان نے بڑے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ ایردوان کو اس دور میں طالبات کے ہیڈ اسکارف کا مسئلہ بھی درپیش تھا اور اس مسئلے نے پورے ترکی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اور ایردوان اس مسئلے کو حل کرنے کا وعدہ کر کے ہی اقتدار میں آئے تھے لیکن صدر نجدت سیزر کی وجہ سے وزیراعظم ایردوان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور وہ یہ تمام مسائل حل کرنے سے قاصر تھے لیکن انہوں نے اس موقع پر بھی صبر و تحمل سے کام لیا اور سب سے پہلے ملک کی اقتصادی ترقی کی جانب توجہ مبذول کی کیونکہ اس وقت ترکی شدید ترین اقتصادی بحران سے دوچار تھا۔

انہوں نےوزارتِ عظمیٰ کے پہلے اور دوسرے دور میں ملک کی اقتصادیات کو نہ صرف بحران سے نکالا اور ٹرکش لیرا، جوغیر ملکی کرنسیوں کے کے مقابلے میں قدرو قیمت کھو چکا تھا اور ایک ڈالر میں ملین کے لگ بھگ ترک لیرے ملا کرتے تھے، کی قدرو قیمت کا نئے سرے سے جائزہ لیا اور ترک لیرے سے چھ صفر ختم کرنے کا منفرد کارنامہ سر انجام دیتے ہوئے ترک کرنسی کو مضبوط اور مستحکم بنایا۔ ترکی کی اقتصادی ترقی کو دیکھتے ہوئے اسے جی-20 ممالک کی صف میں شامل کر لیا گیا اور پھر ترکی کے دروازے دنیا کے لیے کھلتے چلے گئے۔ دنیا میں وزیراعظم کی حیثیت سے اپنا مقام منوانے کے بعد ایردوان نے ملک میں صدارتی نظام متعارف کروایا اور ان کے صدر منتخب ہونے کے بعد دنیا میں صدر ایردوان کو اپنی عظمت منوانے اور ایک عالمی رہنما کا اسٹیٹس حاصل کرنے کی راہیں خود بخود کھلتی چلی گئیں۔ انہوں نے یورپ، ایشیا، مشرق وسطیٰ، امریکہ اور روس کے رہنمائوں سے قریبی مراسم پیدا کیے۔ انہوں نے تمام تر حالات کے باوجود امریکہ (حالانکہ اسی امریکہ نے فتح اللہ گولن کے ذریعے ان کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی ) سے اپنی دوستی اور قربت قائم رکھی بلکہ نیٹو کے اتحادی ملک کی حیثیت میں بڑے موثر طریقے سے یورپی ممالک سے بڑھ کر کردار ادا کیا۔

اس کے ساتھ ہی ساتھ صدر ایردوان نے روس کے صدر پیوٹن کے ساتھ بھی بڑے گہرے اور قریبی مراسم قائم کر رکھے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صدر ایردوان نے نیٹو کا رکن ہونے اور امریکی دھمکیوں کے باوجود روس سے ایس -400 میزائل بھی خریدے۔ ( اسے کہتے ہیں ڈپلومیسی) اور پھر سب سے اہم یوکرین اور روس جنگ میں صدر ایردوان جو کردار ادا کر رہے ہیں وہ کردار کسی دیگر عالمی رہنما کو نصیب نہیں ہوا۔ عمران خان کے لیے موقع تھا کہ وہ صدر ایردوان کی طرح پالیسی اختیار کرتے اور اپنے اس دور میں صرف اور صرف اقتصادیات کی طرف توجہ دیتے تو ان کی ایردوان کی طرح ملکی اداروں پر بھی وقت کے ساتھ ساتھ گرفت قائم ہو جاتی لیکن بد قسمتی سے ان کی کچھ اپنی غلطیوں اور زیادہ تر ان کے وزراء کی غلطیوں کی وجہ سے ان کو یہ دن دیکھنا نصیب ہوئے۔ اب دیکھتے ہیں وزیراعظم شہباز شریف، عمران خان کے جانے کے بعد کتنا عرصہ حکومت کر پاتے ہیں؟ ان کے لیے مشکلات بہت زیادہ ہیں کیونکہ ان کے ساتھ نو جماعتیں ہیں اور ان سب کو لے کر چلنا بڑا مشکل کام ہے لیکن شہباز شریف کو پاکستان کے دیگر سیاسی رہنمائوں پر یہ برتری حاصل ہے کہ وہ جس کام کا بیڑہ اٹھا لیتے ہیں وہ کام ضرور پایہ تکمیل تک پہنچا تے ہیں۔

راقم وزیراعظم شہباز شریف کو اس وقت سے جانتا ہے جب وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے اور ترکی کے دورے پر تشریف لاتے تو راقم ان کے ساتھ مترجم کے طور پر خدمات سرانجام دیتا۔ ترکی میں پاکستان سے بڑی تعداد میں سیاستدان سرکاری دورے پر آتے رہے ہیں لیکن ترکی اور پاکستان کے درمیان تعاون کے بڑی تعداد میں جو سمجھوتے میاں شہباز شریف نے کیے شاید ہی کسی اور سیاستدان نے کیے ہوں۔ کئی ایک ترک فرموں نے پاکستان میں اور بالخصوص پنجاب میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جس سے پنجاب خاص طور پر لاہور کا چہرہ تبدیل ہوتے ہوئے سب نے دیکھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شہباز شریف اپنی راہ میں کھڑی رکاوٹوں کی پروا کیے بغیر پاکستان کو مالی مشکلات سے نکالنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور صدر ایردوان کی طرح مشکل حالات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے ہوئے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر پاتے ہیں اور پاکستان کی سیاست میں ایردوان بننے کی ان سے جو توقعات وابستہ ہیں اس پر پورا اُترے ہیں یا نہیں؟

ڈاکٹر فر قان حمید

بشکریہ روزنامہ جنگ

صدر ایردوان کا بہت بڑا رسک

ترکی میں 2002ء سے برسر اقتدار جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (آق پارٹی ) کی حکومت کو پہلی بار شدید معاشی بحران کا سامنا ہے۔ یہ معاشی بحران دراصل صدر ایردوان کی جانب سے ملک میں مالی پالیسی میں تبدیلی اور خاص طور پر شرح سود میں کمی کرنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ صدر ایردوان ابتدا ہی سے ملک میں شرح سود کم رکھنے کے حامی رہے ہیں لیکن ملک میں شرح سود ہمیشہ ہی سے بلند رہی اگرچہ اس سلسلے میں صدر ایردوان نے مرکزی بینک کے گورنرز اور وزرائے خزانہ کو بھی کئی بار تبدیل کیا لیکن وہ مطلوبہ نتیجہ حاصل کرنے سے قاصر رہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جمہوریہ ترکی اپنے قیام سے لے کر اب تک ہر بیس سال بعد اقتصادی بحران کا شکار رہا ہے اور اب ایک بار پھرمعاشی بحران کی جانب بڑھتا جا رہا ہے۔ دنیا اگرچہ اسے معاشی بحرا ن کی نظر سے دیکھتی ہے لیکن جب آپ حقائق پر نگاہ ڈالتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ترکی اس وقت دنیا میں بڑی سرعت سے اقتصادی ترقی کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہے۔ آئی ایم ایف، اسٹینڈرڈ اینڈ پورز، موڈیز، آئی ایم ایف اور اقوام متحدہ کے مطابق ترکی 2022-2021ء میں دنیا میں سب سے زیادہ سرعت سے ترقی کرنے والا ملک ہے۔

 ترکی کا اس وقت تجارتی حجم گزشتہ سال کے مقابلے میں 27.47 فیصد بڑھتے ہوئے 400 بلین ڈالر کے لگ بھگ ہے اور برآمدات میں نیا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے 250 بلین ڈالر کے لگ بھگ آمدنی حاصل کی جاچکی ہے جبکہ دفاعی صنعت میں ترکی نے پہلے گیارہ ماہ میں دو بلین 80 ملین ڈالر اور سیاحت کے شعبے سے کورونا کی وجہ سے مختلف پابندیاں ہونے کے باوجود بیس بلین ڈالر کی آمدنی حاصل کی جبکہ آئندہ سال 50 ملین سیاحوں کی آمد سے 40 بلین ڈالر کی آمدنی کی توقع ہے۔ کیا یہ ہوتا ہے معاشی بحران؟ تو پھر یکدم بیٹھے بٹھائے ٹرکش لیرا ایک سال کے اندر اندر کیسے اپنی قدر و قیمت پچاس فیصد سے زائد کھو بیٹھا؟ ترکی میں کرنسی کے فلوٹنگ سسٹم ہونے کے باوجود مصنوعی طریقے سے ٹرکش لیرے کی قدرو قیمت کو مستحکم رکھنے کی کوششیں کی گئیں (جیسا کے پاکستان میں نواز شریف کے دور میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کیے رکھا ) ٹرکش لیرے کی اصل ویلیو چودہ لیرے کے لگ بھگ تھی لیکن اسے زبردستی آٹھ لیرے تک مصنوعی طریقے سے رکھنے کی کوشش کی گئی تاہم جیسے ہی ترک لیرے پر مزید دبائو آیا تو وہ یہ بوجھ برداشت نہ کرسکا اور اپنی اصلی ویلیو پر آگیا۔

(ماہرین اقتصادیات کے مطابق چھ مہینوں میں اس میں مزید کمی کاامکان ہے) ایک دیگر وجہ ترک باشندوں کا روزمرہ کی زندگی میں اپنی کرنسی کی بجائے غیر ملکی کرنسی پر اعتماد ہے اور بینکوں سے اپنی رقوم نکلواتے ہوئے اسے ڈالر یا یورو میں کنورٹ کر رہے ہیں۔ ترک لیرے کی قدرو قیمت میں کمی کی سب سے اہم وجہ غیر ملکی سرمایہ کار وں کی جانب سے ترکی میں شرح سود کو بلند رکھنے پر اصرار کرنا اور نہ کرنے کی صورت میں اپنی کرنسی کو واپس اپنے ملک لے جانے کی دھمکی بھی دینا ہے جبکہ صدر ایردوان واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے دبائو میں آکر ہرگز شرحِ سود کو بلند نہیں کرینگے بلکہ اس میں کمی کرتے رہیں گے۔ سولہ دسمبر کو ایک بار پھر شرح سود میں مزید کمی کی توقع ہے۔ صدر ایردوان نےشرح سود کو کم کرتے ہوئے اپنی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا جوا کھیلا ہے۔ صدر ایردوان اور ان کی حکومت اس بات کو اچھی طرح سمجھ چکی ہے ( دیر ہی سے سہی ) کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے ترکی کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔

غیر ملکی سرمایہ کار اپنی غیر ملکی کرنسی کو ٹرکش لیرا میں کنورٹ کرتے ہوئے خاص مدت میں خاص شرح سود سے بڑی بڑی رقوم جمع کرواتے اور یہ رقم پڑے پڑے سال میں بیس سے تیس فیصد تک کا منافع حاصل کر لیتی تھی۔ اردو زبان کا محاورہ ہے ’’ بنیا کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے‘‘ بالکل اسی طرح غیر ملکی سرمایہ کار ترکی کی محبت میں نہیں بلکہ اپنی رقوم بغیر کسی رسک کے چند سال میں دگنی کرنے کے چکر میں جمع کرواتے رہے ہیں۔ اپنی رقوم دگنی کرنے کے بعد یہ غیر ملکی سرمایہ کار ترک بینکوں سے اپنی رقوم نکلوانے کے بعد اسے دوبارہ ڈالر میں کنورٹ کرتے اوریوں دہری رقم اپنے ملک منتقل کرنے کے بعد ترکی میں مصنوعی غیر ملکی کرنسی کی قلت پیدا کر دیتے جس سے ترکی میں غیر ملکی کرنسی کی طلب میں بے حد اضافہ ہو جاتا جو ترک لیرے کی قدرو قیمت میں مسلسل کمی کا باعث بنتا۔ صدر ایردوان کے پاس غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اس کھیل کو بھانپنے کے بعد اپنی مالی پالیسی میں تبدیلی کے سوا کوئی اور چارہ کار نہ تھا۔

صدر ایردوان اب ملک میں شرح سود کو کم کرتے ہوئے ایک ایسا معاشی ماڈل متعارف کروا رہے ہیں جس میں حقیقی سرمایہ کاری، پیداوار، زیادہ سے زیادہ روزگار، برآمدات کے زیادہ مواقع موجود ہیں۔ اس معاشی ماڈل کے نتائج حاصل کرنے کے لیے صدر ایردوان کو کم از کم چھ سے آٹھ ماہ کی ضرورت ہے۔ بیس سال کے طویل عرصے بعد اپوزیشن کو یہ پہلا موقع ملا ہے کہ عوام کو صدر ایردوان کے خلاف استعمال کیا جائے لیکن وہ ابھی تک ترک باشندوں کو سڑکوں پر لانے اور قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ منوانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ جیسا کہ اوپر عرض کر چکا ہوں صدر ایردوان کی مقبولیت میں کمی ضرور آئی ہے لیکن وہ اپنی مقبولیت بڑھانے کے فن سے بخوبی آگاہ ہیں اور اگر ان کو اپنے نئے معاشی ماڈل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا موقع مل گیا تو وہ جون 2023ء کے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں ایک بار پھر کامیابی حاصل کرتے ہوئے اگلی ٹرم کے لیے صدر منتخب ہو جائیں گے اور دنیا بھی ان کے اس معاشی ماڈل کی پیروی کرتی دکھائی دے گی۔

ڈاکٹر فر قان حمید

بشکریہ روزنامہ جنگ

ترکی چاند پر ڈالے گا کمند

بنی نوع انسان اپنے ابتدائی دور میں جب غاروں اور جنگلوں میں رہتا تھا تو اس کے لئے راتوں میں چاند کی روشنی سحر سا طاری کر دیتی تھی اور جیسے جیسے تہذیب و تمدن نے قدم جمائے اس کی چاند سے محبت اور عشق میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور پھر اس عشق میں مبتلا ہو گیا جس نے انسان کو چاند کی حقیقت جاننے کی جانب راغب کیا اور تحقیقاتی اداروں کو تشکیل دیتے ہوئے چاند کی جانب سفر کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی اور امریکہ نے اپالو گیارہ کے ذریعے چاند پر قدم رکھتے ہوئے نئی تاریخ رقم کر دی ۔ اپالو گیارہ کے خلا نورد نیل آرمسٹرونگ کے یہ الفاظ’’ انسان کا یہ چھوٹا سا قدم انسانیت کی ایک بڑی جست ہے‘‘ نے دنیا بھر میں خلائی دوڑ کا آغاز کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی ممالک نے چاند پر کمند ڈالنے کے لئے باقاعدہ خلائی ادارے قائم کر دیے لیکن بدقسمتی سے کسی بھی اسلامی ممالک میں یہ صلاحیت موجود نہ تھی کہ وہ بھی مغربی ممالک کی طرز پر خلائی ادارہ قائم کرے۔ 

اس وقت تک کم از کم 5 ممالک چاند پر جانے کے منصوبوں کا اعلان کر چکے ہیں اور اب ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے بھی چاند پر جانے کے پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے پہلے اسلامی ملک کا اعزاز حاصل کر لیا ہے۔ ترک صدر ایردوان نے جمہوریہ ترکی کے قیام 1923ء کی صد سالہ سالگرہ کے موقع پر یعنی سن 2023 ء میں اپنے خلائی مشن کو چاند پربھیجنے کے پروگرام کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے دس سالہ قومی خلائی پروگرام کا اعلان کیا ہے جس میں ترک خلابازوں کے لئے چاند پر ایک خلائی اسٹیشن کے قیام کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ انہوں نے خلائی پروگرام سے متعلق تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ 2023 ء کے اواخر تک پوری دنیا ، عالمی تعاون سے ترکی میں مقامی طور پر تیار کردہ ہائبرڈ راکٹ کی چاند پر لینڈنگ کا نظارہ اور ترک پرچم چاند پر لہراتے دیکھے گی۔ انہوں نے کہا کہ پہلا ہدف حاصل کرنے کے بعد اسی راکٹ کے ذریعے چاند سے متعلق تمام ضروری معلومات کو یکجا کیا جائے گا اور 2028 میں دوسرے ترک راکٹ کو چاند پر روانہ کیا جائے گا اور یہ راکٹ مقامی طور پر ترکی کا خلائی ادارہ ہی تیار کرے گا اور اسے خلا میں چھوڑے گا۔

اس سلسلے میں ترکی نے براعظم افریقہ کے مختلف اسلامی ممالک سے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا اور اب جگہ اور مقام کےلئے صومالیہ کو دیگر ممالک پر برتری حاصل ہے اور قرینِ قیاس یہی ہے کہ صومالیہ ہی سے 2023 میں ترک خلائی سیٹلائٹ کوچھوڑا جائے گا۔ ایردوان نے گزشتہ چند سالوں میں خلائی ٹیکنالوجی کی جانب خصوصی توجہ دیتے ہوئے نہ صرف خلائی ادارے کو مضبوط بنایا بلکہ اسے مغربی ممالک کے ہم پلہ بناتے ہوئے خلائی ٹیکنالوجی کی دوڑ میں ترکی کے شامل ہونے کا واضح اعلان کر دیا۔ انہوں نے انقرہ میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صدیوں سے اس کرہ ارض پر انصاف، اخلاق اور امن کی رہنمائی میں پیش پیش ہماری تہذیب اب خلائوں کا رخ کریگی۔ ہمارے پائوں زمین پر ہوں گے لیکن ہماری نگاہیں خلا میں ہونگی۔ ہماری جڑیں دھرتی میں پیوست ہوں گی لیکن ہماری شاخیں آسمانوں میں پھیلی ہوں گی۔ انہوں نے خلا میں ترکی کی صلاحیت اور قابلیت میں اضافہ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ فلکیاتی مشاہدات اور زمین سے خلائی عناصر کا پتہ چلانے کی جانب خصوصی توجہ دینے کے لئے ابھی سے ہی بنیادی ڈھانچے کو مضبوط اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے ترک نوجوانوں کو خوشخبری سناتے ہوئے چاند پر جانے والے خلا بازوں کے انتخاب کا سلسلہ شروع کرنے اور خاص طور پر ترک نوجوان خواتین خلابازوں کو چاند پر بھیجنے کے لئے تیاری شروع کرنے کا اعلان بھی کیا۔ انہوں نے اس موقع پر خلائی ٹیکنالوجی میں رہ جانے والی خامیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی ہمیں راکٹ لانچنگ کے شعبہ میں پوری طرح دستر س حاصل نہیں ہوئی۔ ہم اپنے مصنوعی سیارے کو اپنے ہی راکٹ کے ذریعے چھوڑے جانے کے پروگرام کی جانب خصوصی توجہ دیے ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال ہی ترکی کے ادارے راکت سان نے اپنے تیار کردہ راکٹ کے ذریعے سیٹلائٹ چھوڑا تھا اور اب ترکی مقامی طور پر تیار کردہ راکٹوں کے ذریعے اپنے مائیکرو اور منی سیٹلائٹ کو خلا میں بھیجنے کے کام کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ واضح رہے کہ ترکی میں 13 دسمبر 2018 میں صدارتی حکمنامے کے ذریعے ترک اسپیس ایجنسی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ وزارتِ صنعت و ٹیکنالوجی کے تحت کام کرنے والے اس ادارے نے جنوری 2019 میں ’’گبزے‘‘ میں ’’نیشنل اسپیس پروگرام ورکشاپ‘‘ کے تحت اجلاس اور بعد میں تسلسل کے ساتھ جاری رہنے والے اجلاسوں میں صدر ایردوان کو خلائی پروگرام کے بارے میں مسلسل معلومات فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تھا ۔ اسی دوران مقامی طور پرتیار کردہ ترک ساٹ 5 اے سیٹلائٹ کو ایلون مسک کی اسپیس ایکس فرم کی جانب سے خلا میں بھیجا گیا۔

ترکی خلائی پروگرام میں مقامی سطح پر تیار کردہ ٹیکنالوجی کو استعمال کر رہا ہے تاکہ اس کے بنیادی ڈھانچے کو مقامی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے حتمی شکل دی جاسکے اور ترکی کو مستقبل میں اس شعبے میں کسی کا محتاج نہ ہونا پڑے۔ ترکی جو 2018 میں اقتصادی بحران کی جانب بڑھ رہا تھا اور صدر ایردوان کو خلائی پروجیکٹ پر بھاری اخراجات کی وجہ سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا انہوں نے تنقید کی پروا کیے بغیر خلائی پروگرام کو جاری رکھنے کا اعلان کیا ۔ ان پر تنقید کرنے والے عناصر کو بعد میں اس بات کا احساس ہو گیا کہ اگر موجودہ حالات میں خلائی پروگرام کو حتمی شکل نہ دی جاسکی تو پھر مستقبل قریب میں ترکی خلائی دوڑ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باہر ہو جائے گا۔

ڈاکٹر فر قان حمید

بشکریہ روزنامہ جنگ