جان بیٹا خلافت پہ دے دو, مولانا محمد علی جوہر…ایک عظیم شخصیت

اگرچہ مولانا محمد علی جوہر نے تحریک پاکستان میں حصہ نہیں لیا کیونکہ قیام پاکستان سے کئی برس پہلے ان کا انتقال ہو چکا تھا لیکن اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ انہوں نے مسلمانان برصغیر کے لئے بہت کام کیا۔ وہ ہر صورت برصغیر کے مسلمانوں کی فلاح چاہتے تھے۔ وہ ایک شاعر‘ صحافی عالم اور سیاست دان تھے اور ان شعبوں میں انہوں نے اپنے آپ کو منوایا تھا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر وہ زندہ رہتے تو یقینا تحریک پاکستان میں حصہ لیتے جبکہ وہ اپنی زندگی میں انگریزی استعمار کے خلاف لڑتے رہے۔

محمد علی جوہر 1878ء کو رام پور (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ جب وہ صرف پانچ برس کے تھے تو ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کے بھائیوں کا نام شوکت علی اور ذوالفقار تھا۔ یہ دونوں بھائی تحریک خلافت کے رہنما تھے۔ ان کی والدہ جنہیں بی اماں کہا جاتا تھا نے اپنے بیٹوں کو اس بات کی ترغیب دی کہ وہ سامراج سے آزادی کیلئے جدوجہد کریں۔ اس کے باوجود کہ مولانا محمد علی جوہر کے والد انتقال کر چکے تھے، انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور پھر 1898ء میں لنکن کالج یونیورسٹی میں جدید تاریخ پڑھتے رہے۔ جب وہ واپس ہندوستان آئے تو انہوں نے ریاست رام پور کے ایجوکیشن ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینا شروع کر دیں۔ بعد میں انہوں نے برودہ سول سروس میں شمولیت اختیار کر لی۔ وہ ایک ادیب اور مقرر کی حیثیت سے ابھرے اور پھر ایک دیدہ ور سیاسی رہنما کی حیثیت سے سامنے آئے۔ انہوں نے برطانوی اور ہندوستانی اخبارات میں لکھنا شروع کیا جن میں ’’دی ٹائمز لندن‘ دی مانچسٹر گارڈین اور آبزرور‘‘ شامل ہیں۔

انہوں نے کلکتہ میں انگریزی ہفت روزہ ’’کامریڈ‘‘ نکالا۔ یہ 1911ء کی بات ہے۔ کامریڈ نے جلد ہی مقبولیت حاصل کر لی۔ 1913ء میں وہ دہلی آئے اور ایک اردو روزنامہ ’’ہمدرد‘‘ کا آغاز کیا۔ ان کی اہلیہ بھی ان کا بھرپور ساتھ دیتی رہیں۔ مولانا محمد علی جوہر نے علی گڑھ یونیورسٹی کی توسیع کیلئے بہت محنت کی جو اس وقت محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے نام سے جانا جاتا تھا۔ 1920ء میں انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے ابتدائی اجلاس میں شرکت کی جو دہلی میں منعقد ہوا۔ 1918ء میں وہ لیگ کے صدر بنے۔

وہ 1928ء تک مسلم لیگ میں سرگرم رہے۔ محمد علی جوہر نے انڈین نیشنل کانگرس‘ آل انڈیا مسلم لیگ اور تحریک خلافت کے معاملات کی نگرانی کی اور اس لحاظ سے انہیں یہ منفرد اعزاز حاصل ہے۔ 1919ء میں انہوں نے مسلمانوں کے اس وفد کی نمائندگی کی جس کا مقصد برطانوی حکومت کو اس بات پر قائل کرنا تھا کہ وہ ترک قوم پرست مصطفی کمال پر زور ڈالے کہ وہ ترکی کے سلطان جو اسلام کے خلیفہ تھے کو خلافت سے محروم نہ کرے۔ برطانوی حکومت نے جب ان کے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے خلافت کمیٹی بنائی جس نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ہدایت کی کہ وہ برطانوی حکومت کے خلاف احتجاج کریں اور اس کا بائیکاٹ کریں۔ 1921ء میں مولانا محمد علی جوہر نے ایک وسیع اتحاد بنایا جس میں مسلم قوم پرست مولانا شوکت علی‘ مولانا آزاد‘ حکیم اجمل خان‘ مختار احمد انصاری اور بھارتی قوم پرست رہنما مہاتما گاندھی شامل تھے جنہوں نے کانگرس کی حمایت حاصل کی اور اس کے علاوہ ہزاروں ہندو بھی مسلمانوں کے ساتھ اتحاد میں شامل ہو گئے۔

یہ اتحاد برطانوی حکومت کے خلاف تھا۔ مولانا جوہر نے دل و جان سے تحریک مزاحمت کی حمایت کی جو گاندھی کے کہنے پر شروع کی گئی تھی۔ مولانا جوہر کو برطانوی حکومت نے گرفتار کر لیا اور انہیں دو سال کیلئے جیل بھیج دیا۔ انہیں خلافت کانفرنس میں ایک ’’باغیانہ‘‘ تقریر کرنے کی پاداش میں یہ سزا دی گئی۔ مولانا محمد علی جوہر تحریک خلافت کی ناکامی سے دلبرداشتہ ہو گئے اور پھر مہاتما گاندھی کی تحریک عدم تعاون کی معطلی پر بھی انہیں بہت قلق ہوا۔ تحریک خلافت کے خاتمے کا اعلان گاندھی نے کیا۔ دراصل اس کی خاتمے کی وجہ چوری چورا میں ہونے والے واقعہ تھا جو 4 فروری 1922 کو پیش آیا۔

اس دن احتجاج کرنے والوں کے ایک بڑے گروپ کا پولیس کے ساتھ تصادم ہو گیا۔ یہ گروپ گاندھی کی تحریک عدم تعاون میں حصہ لے رہا تھا۔ پولیس نے فائر کھول دیا اور اس کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہو گئے۔ ردعمل کے طور پر مظاہرین نے پولیس سٹیشن کو آگ لگا دی اور 23 پولیس والوں کو ہلاک کر دیا۔ کانگرس نے اس واقعے کے بعد تحریک عدم تعاون کی معطلی کا اعلان کر دیا۔ مولانا محمد علی جوہر نے اپنا اخبار ’’ہمدرد‘‘ دوبارہ شروع کر دیا اور کانگرس چھوڑ دی۔ انہوں نے نہرو رپورٹ کی مخالفت کی۔ اس رپورٹ میں آئینی اصلاحات تجویزکی گئی تھیں اور ایک آزاد قوم کی نو آبادیاتی حیثیت کو تجویز کیا گیا جو برطانوی سلطنت کے زیر سایہ رہے۔

اس رپورٹ کو کانگرس کے ہندو اور مسلمان ارکان کی کمیٹی نے تحریر کیا تھا جس کی سربراہی موتی لال نہرو نے کی تھی۔ یہ سائمن کمیشن کے خلاف ایک بڑا احتجاج تھا جو ہندوستان میں اصلاحات تجویز کرنے آیا تھا۔ لیکن اس کمیشن میں کوئی مقامی ہندوستانی نہیں تھا اور نہ ہی کوئی ایسی کوشش کی گئی تھی جو ہندوستانیوں کی آواز اور خواہشات کو سن سکے۔ مولانا جوہر کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس لیے نہرورپورٹ پر آل پارٹیز کانفرنس کی نمائندگی شوکت علی، بیگم محمد علی جوہر اور مرکزی خلافت کمیٹی کے 30 دوسرے ارکان نے کی۔ مولانا محمد علی جوہر نے نہرو رپورٹ کے اس حصے کی مخالفت کی جس میں مسلمانوں کے علیحدہ ووٹ ڈالنے کے حق کو مسترد کیا گیا تھا۔ انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح ؒکے چودہ نکات کی حمایت کی اور پھر مسلم لیگ کی بھی ڈٹ کر حمایت کی۔

انہوں نے گاندھی کی مخالفت کی اور اپنے مسلمان ساتھیوں مولانا آزاد‘ حکیم اجمل خان اور مختار احمد انصاری سے اختلاف کیا جنہوں نے گاندھی کی حمایت جاری رکھی۔ اس کے علاوہ یہ حضرات کانگرس کی بھی حمایت کرتے رہے۔ 1921ء میں مولانا محمد علی جوہر کو ڈھائی سال قید کی سزا سنائی اور انہیں کراچی سنٹرل جیل بھیج دیا گیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے حکومت مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے اور بھی قیدوبند کی سزائیں بھگتیں۔ جیل میں مسلسل رہنے سے ان کی صحت جواب دینے لگی۔ وہ بہت کمزور ہو گئے۔ وہ اپنی خراب صحت کے باوجود 1930ء میں لندن میں ہونے والی پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کے آرزومند تھے۔

انہوں نے اس کانفرنس میں شرکت کی جس کے چیئرمین سر آغا خان تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مولانا جوہر نے برطانوی حکومت سے کہا تھا کہ وہ واپس ہندوستان نہیں جائیں گے جب تک ان کا ملک آزاد نہیں ہو جاتا۔ انہوں نے کہا کہ وہ غیر ملکی سرزمین پر مر جانا پسند کریں گے۔ اگر آپ ہمیں آزادی کی نعمت سے سرفراز نہیں کرتے تو پھر مجھے آپ کو یہاں ایک قبر دینا پڑے گی۔ مولانا محمد علی جوہر 4 جنوری 1931ء کو لندن میں انتقال کر گئے اور انہیں یروشلم میں دفن کر دیا گیا۔ ایسا ان کے رشتے داروں‘ دوستوں اور مداحین کے اصرار پر کیا گیا۔ ان کی وفات کے بعد ہندوستان میں کئی جگہوں کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا جن میں کئی ہال اورہوسٹل بھی شامل ہیں۔

جنوبی ممبئی میں ایک سڑک کا نام مولانا محمد علی روڈ ہے۔ مولانا محمد علی جوہر بڑے باکمال شاعر تھے۔ کربلا کے حوالے سے ان کا یہ شعر آج بھی زندہ ہے۔

قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

تحریک خلافت مولانا جوہر کی شناخت بن گئی تھی۔ اس حوالے سے ان کی والدہ کا کردار بھی یادگار تھا۔ جب بھی مولانا جوہر کا ذکر ہوتا ہے‘ تحریک خلافت کا تذکرہ لازمی طور پر ہوتا ہے اور اس حوالے سے یہ شعر لبوں سے ادا ہوتا ہے۔

بولیں اماں محمد علی کی

جان بیٹا خلافت پہ دے دو

 مولانا محمد علی جوہر جیسی شخصیات روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔ وہ ایک زبردست شخصیت کے مالک تھے اور تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

عبدالحفیظ ظفرؔ

حضرت شاہ ولی اللہؒ کے حالاتِ زندگی

حضرت شاہ ولی اللہؒ کی تحریک کی ابتدا غدر (1857ء کی بغاوت) سے کافی قبل ہوتی ہے۔ فروری 1707ء میں اور نگ زیب کے انتقال کے بعد سے ہی مغلیہ سلطنت کا زوال ہونے لگتا ہے۔ ملک کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے۔ نتیجہ کے طور پر تخریبی عناصر سر اٹھانے لگتے ہیں۔ یورپ کی سفید فام طاقتیں جن کو اورنگ زیب کے آباؤ اجداد نے مہربانیوں اور عنایتوں سے نوازا تھا، جن کو شاہ جہاں نے اپنے غیض و غضب کا شکار بھی بنایا تھا، اب ان کو تجارت کی آزادی مل چکی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ تجارت کے ساتھ اب ان کا عمل دخل ملک کے سیاسی معاملات میں بھی ہونے لگا۔ صوبوں کے گورنر خودمختار ہونے لگے۔ مرہٹوں کی طاقت روز بروز بڑھنے لگی۔ دہلی کے شمال میں روہیلوں کی حکومتیں قائم ہونے لگیں۔

مغرب میں جاٹوں نے اپنے اثرات پھیلائے سب کے سب آپس میں لڑتے مرتے رہتے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے۔ ایسے حالات میں 1739ء میں نادر شاہ کا حملہ ہوا جس نے دہلی میں قتل و خون کا بازار گرم کر دیا۔ اس کے بعد 1747ء میں احمد شاہ ابدالی کے حملے شروع ہوئے اور لوٹ مار ہوئی۔ احمد شاہ ابدالی کے حملے کے دس سال بعد 1757ء میں بنارس کی مشہور لڑائی ہوئی۔ اس کے بعد کئی حملے احمد شاہ ابدالی کے اور ہوئے جس نے دن بدن مرکز کی حکومت کو اور کمزور کر دیا اور خزانے لوٹے گئے۔ اورنگ زیب کے انتقال کے بعد سے پچاس سال کی میعاد میں متعدد بادشاہ تخت پر بٹھائے گئے اور اتارے گئے۔ ملک کے ان سیاسی حالات نے اقتصادی اور معاشی حالات پر بہت اثر ڈالا۔ ہندوستان ہچکولے کھانے لگا۔ چند ہی برسوں میں اس کی حالت ایک دم سے گر گئی۔ مذہب کی اہمیت گھٹتی چلی گئی۔

حضرت شاہ ولی اللہؒ (1762ئ۔ 1702ء ) ٹھیک اسی دور کے پیداوار تھے۔ انھوں نے یہ تمام زوال اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ وطن کو اجڑتے دیکھا، قوم کو بکھرتے دیکھا، مذہبی انتشار دیکھا اور مذہب کے دشمنوں کا بڑھتا ہوا اقتدار بھی دیکھا۔ خدا نے ایک درد مند دل اور سنجیدگی سے سوچنے والا دماغ دے رکھا تھا۔ بس اٹھ کھڑے ہوئے اور قوم کی مذہبی، اخلاقی، سیاسی اور اخلاقی اصلاح کا سنجیدگی سے منصوبہ بنایا۔ ان کا خیال تھا کہ ہندوستان کی قوموں میں مذہب سے متعلق سچا جذبہ اٹھتا چلا جا رہا ہے جب کہ مذہبی جذبہ ہی انسان کوانسان بناتا ہے۔ اور یہی جذبہ اپنے ملک اور قوم کو بہتر بنانے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔

اقتصادی اور معاشی توازن بخشنے میں بھی یہی جذبہ کام کرتا ہے۔ اور مذہبی جذبہ جبھی ختم ہوتا ہے جب اس کے ماننے والے معاشی و اقتصادی بحران کا شکار ہوں گے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے مسلمانوں کو مذہبی اور اقتصادی اعتبار سے پستے دیکھا، جس کے سو فیصدی ذمہ دار انگریز تھے۔ لہٰذا سات سمندر پار سے آئی ہوئی اس غیر ملکی حکومت کوحضرت شاہ ولی اللہؒ سخت ناپسند کرتے تھے۔ انگریزوں نے سب سے زیادہ اثر مسلم تجاّر پر ہی ڈالا۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ کو اس طبقہ کی تباہی کا سخت افسوس تھا کیونکہ معیشت کا انحصار اسی طبقہ پر ہوتا ہے۔ اسی درمیان آپؒ نے 1728ء میں حجاز کا سفر فرمایا۔ وہاں دو سال قیام کے بعد یورپ اور ایشیا میں رہ کر تفصیلی معلومات حاصل کیں وہاں کے حالات کو پڑھا۔ غور کیا۔

تمام عرب ممالک میں مسلمانوں کا پرچم لہرا رہا تھا۔ وہاں سے واپسی پر آپؒ ایک نیا ذہن، نئی بیداری اور نئے خیالات لے کر آئے۔ واپس آتے ہی انھوں نے اقتصادی اور سیاسی اصول مرتب کیے، جس کا اظہار عوامی طبقہ پر تھا۔ ان لوگوں کے حق میں تھا جو محنت کرتے ہیں۔ پسینہ بہاتے ہیں۔ اس حکومت اور اس سماج کی بے حد برائی کی جو مزدوروں اور کاشتکاروں پر بھاری ٹیکس لگائے، انھوں نے اسے قوم کا دشمن قرار دیا۔ علمی اصلاح کے لیے قرآن عظیم کی حکمت عملی کو اس کا معجزہ ثابت کرنے کا عنوان بنایا اور دولت کے تمام اخلاقی اور عملی مقاصد کا مرجع اور مدار اقتصادی عدم توازن کو قرار دیا۔

حضرت شاہ ولی اللہؒ کے یہ خیالات تیزی سے پھیلے اور رفتہ رفتہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے سماجی اصلاحات میں بڑی عرق ریزی سے کام لیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک صوفی تھے۔ ان کے تمام خیالات میں تصوف کار فرما نظر آئے گا۔ لیکن یہ تصوف ایک انفرادیت رکھتا ہے۔ بقول ظہیر احمد صدیقی : ’’شاہ ولی اللہ کا رجحان عام طور سے تصوف کی طرف تھا۔ ان کے نزدیک علم و عمل کے صحیح امتزاج کا نام تصوف ہے۔ وہ نفیِ خودی کے سخت مخالف تھے۔ ان کی تحریروں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جہاں انھوں نے صوفیہ کی قابلِ اعتراض باتوں کو دیکھا ان پر معترض ہوئے۔‘‘ انگریزوں کے خلاف جب یہ آوازیں تیزی سے اٹھیں تو انگریزوں نے اسے بدنام کرنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ تحریک ایک انقلاب آمیز جذبات لے کر بلند ہوئی۔

بادشاہ کی طاقت اگرچہ کمزور تھی لیکن دو سو سالہ دبدبے کے اثرات ابھی تک تھے۔ صوبوں کے گورنر خود مختار ہو گئے تھے۔ مرہٹے بغاوت کر رہے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی فتح کی منزل کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ایسے حالات میں حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اپنی آواز اٹھائی۔ نوابوں، تمام صاحبانِ اقتدار کی مذمت کی۔ اور تیز آندھی میں انقلاب کا ایک چراغ روشن کرنے کی کوشش کی۔ بقول مولانا محمد میاں ’’اٹھارہویں صدی عیسوی کے ہندوستان میں ملک کل نظام یعنی مکمل اور ہمہ گیر انقلاب کا نصب العین ایک چراغ تھا جو شہنشاہیت، شاہ پرستی اور اجارہ داری کی طوفان انگیز آندھیوں میں روشن کیا گیا تھا۔‘‘ 1762ء میں حضرت شاہ ولی اللہؒ کا انتقال ہو گیا۔

لیکن وہ اپنی ذات اور صفات سے ہندوستان میں ایک تحریک کی بنیاد ڈال گئے۔ مولانا عبیداللہ سندھی، جو حضرت شاہ ولی اللہؒ کے پیرو تھے، انھوں نے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حقیقتاً حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ایک مجاہدانہ زندگی گزاری۔ قوم کی اصلاح کے سلسلے میں ایک تحریک کی بنیاد ڈالی، جوان کے انتقال کے بعد ان کے جانشینوں نے آگے جاری رکھی۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ کے بعد یہ ذمہ داری ان کے بیٹے شاہ عبد العزیز نے سنبھالی۔

علی احمد فاطمی

مغل سلطنت کا زوال

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اس خطے میں آفتاب اسلام کی ضیا پاشیوں کا سلسلہ عہد نبویؐ میں شروع ہو گیا تھا۔ اسی لیے حضور ختم المرسلینؐ کو اس طرف سے ٹھنڈی ہوا محسوس ہوتی تھی۔ سلطان محمود غزنوی (پیدائش : 2۔ اکتوبر 971 وفات : 30۔ اپریل 1030) نے اپنے 33 سالہ دور حکومت (997-1030) میں اس خطے پر سترہ حملے کیے۔ وہ جب 18۔ اکتوبر 1025 کو سومناتھ  پر یلغار کے لیے روانہ ہوا تو اس کے پیش نظر پرانی اور فرسودہ تہذیب کی گرتی ہوئی عمارت کو منہدم کرنا تھا۔ اسلام نے اپنی آفاقی تعلیمات میں توہم پرستی، شرک، بت پرستی، بے عملی، بزدلی اور بے ضمیری کی مسموم فضا کے خاتمے کے لیے ایک قابل عمل اور واضح لائحۂ عمل پیش کیا ہے۔

تاریخ ہر دور میں اپنے ابراہیمؑ کی تلاش میں رہی ہے۔ یہ جہاں جسے ایک صنم کدے سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس میں مے رضا سے مست مرد حق پرست کے سامنے ایک ہی مطمح نظر ہوتا ہے کہ وہ ظلمت دہر کو توحید و رسالت کی تابانیوں سے منور کر دے۔ اس دنیا کے مال و دولت اور تمام رشتہ و پیوند کو بتان وہم و گماں سمجھا جاتا ہے۔ محمود غزنوی نے سومناتھ کو تہس نہس کر کے دیوتاؤں کی بے پناہ طاقت کے کھوکھلے دعوے کو طشت از بام کر دیا۔ (1) نظام کہنہ کے سائے میں عافیت سے بیٹھنے کے خواب دیکھنے والوں کو جلد ہی یہ احساس ہو گیا کہ قدیم اور فرسودہ تہذیب اور ثقافت کی گرتی ہوئی عمارت کے انہدام کا وقت آ پہنچا۔ اب اسلام کی ابد آشنا تعلیمات سے ہر طرف اجالا ہو گا۔

اس کے بعد خاندان غلاماں (1206-1290)، خاندان خلجی (1290-1320)، خاندان تغلق (1320-1412) اور سید و لودھی خاندان(1413-1526) نے ان ہی خطوط پر کام کیا۔ اس کے بعد خاندان مغلیہ نے عنان اقتدار سنبھال لی اور یہاں کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے۔ مغل بادشاہوں کا یہ دور اپنے عروج کو پہنچا جب    اورنگ زیب (پیدائش : 4۔ نومبر 1618، وفات : 3 مارچ 1707) تخت نشین ہوا تو اس نے مغل سلطنت کو وسعت دی۔ اس کے عہد حکومت (31-3-1658 تا 3-3-1707) میں پورے بر صغیر پر مسلم اقتدار کا پرچم لہرا رہا تھا۔ اورنگ زیب نے دکن میں بیجا پور اور گولکنڈہ کی اسلامی ریاستوں کے خلاف جو اقدامات کیے انھیں عوام نے پسند نہ کیا۔ اس کے نتیجے میں اسلامی حکومت کی قوت کو ضعف پہنچا۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد اس کے جانشین اس وسیع حکومت کو سنبھال نہ سکے۔ اس حکومت کا خاتمہ اسی دن ہو گیا تھا جس دن اور نگ زیب کی آنکھیں بند ہوئیں۔ اس کے بعد بہادر شاہ اول، جہاں دار شاہ، فرخ سیر، رفیع الدرجات، شاہ جہاں دوم، نکو سیر، محمد ابراہیم، محمد شاہ، احمد شاہ بہادر، عالم گیر دوم، شاہ جہاں سوم، شاہ عالم دوم، اکبر شاہ دوم اور بہادر شاہ مغلوں کی عظمت رفتہ کی تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی اور نوحہ خوانی کے لیے لال قلعے میں مسند شاہی پر براجمان ہوئے۔

تاریخ امم کے مطالعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ جو اقوام بہادری اور عزم صمیم کو ترک کر کے طاؤس و رباب سے اپنا دل بہلاتی ہیں وہ اپنی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتیں۔ سیل زماں کی مہیب موجیں انھیں خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتی ہیں۔ تاریخ کے مسلسل عمل اور تاریخی صداقتوں کو پس پشت ڈالنے والوں کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جغرافیائی تبدیلیاں دراصل تاریخی حقائق کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں۔ اور نگ زیب کے نا اہل جا نشینوں نے اپنی بے بصری، کوڑھ مغزی اور جہالت مآبی کے باعث نظام سلطنت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ تخت نشینی کی جنگوں نے مغل بادشاہوں اور مغلیہ سلطنت کا وقار ختم کر دیا۔ مرکزی حکومت کی گرفت کمزور ہوتے ہی ریاستوں کے حکمران باغی ہو گئے اور طوائف الملوکی کے باعث نظم و نسق ابتر ہوتا چلا گیا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مغلوں نے اپنے تین سو سالہ عہد اقتدار میں کوئی ایسا عظیم علمی ادارہ قائم نہ کیا جو قوم میں صحیح نظر و بصیرت کی تخلیق میں ممد و معاون ثابت ہوتا۔

پروفیسر غلام شبیر رانا

دو قومی نظریہ ہی درحقیقت نظریہ پاکستان ہے

تحریک پاکستان کا شمار دنیا کی عظیم ترین انقلابی تحریکا ت میں ہوتا ہے یہ تحریک برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کی آرزوؤں اور اُمنگوں کا مظہرتھی اس تحریک کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا اور یہ دو قومی نظریہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ قرآن وسنت کا نظریہ ہے اور اسلامی سیاست کا ایک اہم اُصول ہے۔ دوقومی نظریہ ہی درحقیقت نظریہ پاکستان ہے ۔ برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کو اپنی شناخت اور پھر دو قومی نظریہ کی بنیاد پر جداگانہ ریاست کی ضرورت یوں شدت سے محسوس ہوئی کہ ان کے ساتھ موجود ایک دوسرے نظریہ کے حامل افراد جو مسلمانوں کے توحید اور انسانی مساوات کے نظریہ حیات کے برعکس بت پرستی اور ذات پات کے قائل تھے، اس کے برعکس اس خطے میں بسنے والی ملت اسلامیہ اپنے قومی تشخص اور علیحدہ شناخت کو چھوڑنے کیلئے کسی صورت تیار نہ تھی ۔

سلطان شہاب الدین غوری نے بھی اسی دو قومی نظریہ کی بنیا د پر ہندو مسلم اختلافات کو ہمیشہ کے لئے طے کرنے کا طریقہ نکالا اور ہندو راجہ پرتھوی کو تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’برصغیر میں ہنددؤں اور مسلمانوں کی باہمی معرکہ آرائی کوہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کا واحد حل یہی ہے کہ برصغیر کے دریائے جمنا کوحد فاصل بنا کر تقسیم کر دیا جائے کہ مشرقی ہندوستان پر ہندوؤں اورمغربی ہندوستان پر مسلمانوں کا تصرف ہو جائے تا کہ دونوں قومیں امن وامان سے زندگی گزارسکیں ‘‘ یعنی ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اِسی نظرئیے کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے 22 مارچ 1940ء کو لاہورمیں ہونے والے مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس کے خطبہ صدارت میں برملا کہا کہ قوم کی خواہ کوئی بھی تعریف کی جائے مسلمان اس تعریف کے مطابق ایک قوم ہیں اور ان کا اپنا وطن ان کا اپنا علاقہ اوران کی اپنی مملکت ہونی چاہیے۔

ہم ایک آزاد و خود مختار کی حیثیت سے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن و اتفاق کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں ،ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم امن پسند اوراُمنگوں کے مطابق اور اپنے معیاراورنصب العین کومد نظر رکھتے ہوئے اپنی روحانی ،ثقافتی ، اقتصادی، سماجی اور سیاسی زندگی کو بہتر اور بھرپور طریقے سے ترقی دے سکے۔ دو قومی نظرئیے کا تعلق صرف برصغیر سے ہی نہیں بلکہ یہ نظریہ پورے کرۂ ارض سے عبارت ہے۔ اس نظریہ کے تحت ہم دنیا کو مسلم اور غیر مسلم میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ علامہ اقبال نے بھی دو قومی نظریہ کے حوالے سے دو ٹوک اندازمیں بات کرتے ہوئے کہا ’’مغربی ممالک کی طرح ہندوستان کی یہ حالت نہیں کہ اس میں صرف ایک ہی قوم آباد ہو، وہ ایک نسل سے تعلق رکھتی ہو اور اس کی زبان بھی ایک ہو، ہندوستان مختلف اقوام کا وطن ہے جن کی نسل، زبان ،مذہب سب ایک دوسرے سے الگ ہیں ۔

ڈاکٹرحاجی محمد حنیف طیب