حضرت شاہ ولی اللہؒ کے حالاتِ زندگی

حضرت شاہ ولی اللہؒ کی تحریک کی ابتدا غدر (1857ء کی بغاوت) سے کافی قبل ہوتی ہے۔ فروری 1707ء میں اور نگ زیب کے انتقال کے بعد سے ہی مغلیہ سلطنت کا زوال ہونے لگتا ہے۔ ملک کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے۔ نتیجہ کے طور پر تخریبی عناصر سر اٹھانے لگتے ہیں۔ یورپ کی سفید فام طاقتیں جن کو اورنگ زیب کے آباؤ اجداد نے مہربانیوں اور عنایتوں سے نوازا تھا، جن کو شاہ جہاں نے اپنے غیض و غضب کا شکار بھی بنایا تھا، اب ان کو تجارت کی آزادی مل چکی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ تجارت کے ساتھ اب ان کا عمل دخل ملک کے سیاسی معاملات میں بھی ہونے لگا۔ صوبوں کے گورنر خودمختار ہونے لگے۔ مرہٹوں کی طاقت روز بروز بڑھنے لگی۔ دہلی کے شمال میں روہیلوں کی حکومتیں قائم ہونے لگیں۔

مغرب میں جاٹوں نے اپنے اثرات پھیلائے سب کے سب آپس میں لڑتے مرتے رہتے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے۔ ایسے حالات میں 1739ء میں نادر شاہ کا حملہ ہوا جس نے دہلی میں قتل و خون کا بازار گرم کر دیا۔ اس کے بعد 1747ء میں احمد شاہ ابدالی کے حملے شروع ہوئے اور لوٹ مار ہوئی۔ احمد شاہ ابدالی کے حملے کے دس سال بعد 1757ء میں بنارس کی مشہور لڑائی ہوئی۔ اس کے بعد کئی حملے احمد شاہ ابدالی کے اور ہوئے جس نے دن بدن مرکز کی حکومت کو اور کمزور کر دیا اور خزانے لوٹے گئے۔ اورنگ زیب کے انتقال کے بعد سے پچاس سال کی میعاد میں متعدد بادشاہ تخت پر بٹھائے گئے اور اتارے گئے۔ ملک کے ان سیاسی حالات نے اقتصادی اور معاشی حالات پر بہت اثر ڈالا۔ ہندوستان ہچکولے کھانے لگا۔ چند ہی برسوں میں اس کی حالت ایک دم سے گر گئی۔ مذہب کی اہمیت گھٹتی چلی گئی۔

حضرت شاہ ولی اللہؒ (1762ئ۔ 1702ء ) ٹھیک اسی دور کے پیداوار تھے۔ انھوں نے یہ تمام زوال اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ وطن کو اجڑتے دیکھا، قوم کو بکھرتے دیکھا، مذہبی انتشار دیکھا اور مذہب کے دشمنوں کا بڑھتا ہوا اقتدار بھی دیکھا۔ خدا نے ایک درد مند دل اور سنجیدگی سے سوچنے والا دماغ دے رکھا تھا۔ بس اٹھ کھڑے ہوئے اور قوم کی مذہبی، اخلاقی، سیاسی اور اخلاقی اصلاح کا سنجیدگی سے منصوبہ بنایا۔ ان کا خیال تھا کہ ہندوستان کی قوموں میں مذہب سے متعلق سچا جذبہ اٹھتا چلا جا رہا ہے جب کہ مذہبی جذبہ ہی انسان کوانسان بناتا ہے۔ اور یہی جذبہ اپنے ملک اور قوم کو بہتر بنانے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔

اقتصادی اور معاشی توازن بخشنے میں بھی یہی جذبہ کام کرتا ہے۔ اور مذہبی جذبہ جبھی ختم ہوتا ہے جب اس کے ماننے والے معاشی و اقتصادی بحران کا شکار ہوں گے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے مسلمانوں کو مذہبی اور اقتصادی اعتبار سے پستے دیکھا، جس کے سو فیصدی ذمہ دار انگریز تھے۔ لہٰذا سات سمندر پار سے آئی ہوئی اس غیر ملکی حکومت کوحضرت شاہ ولی اللہؒ سخت ناپسند کرتے تھے۔ انگریزوں نے سب سے زیادہ اثر مسلم تجاّر پر ہی ڈالا۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ کو اس طبقہ کی تباہی کا سخت افسوس تھا کیونکہ معیشت کا انحصار اسی طبقہ پر ہوتا ہے۔ اسی درمیان آپؒ نے 1728ء میں حجاز کا سفر فرمایا۔ وہاں دو سال قیام کے بعد یورپ اور ایشیا میں رہ کر تفصیلی معلومات حاصل کیں وہاں کے حالات کو پڑھا۔ غور کیا۔

تمام عرب ممالک میں مسلمانوں کا پرچم لہرا رہا تھا۔ وہاں سے واپسی پر آپؒ ایک نیا ذہن، نئی بیداری اور نئے خیالات لے کر آئے۔ واپس آتے ہی انھوں نے اقتصادی اور سیاسی اصول مرتب کیے، جس کا اظہار عوامی طبقہ پر تھا۔ ان لوگوں کے حق میں تھا جو محنت کرتے ہیں۔ پسینہ بہاتے ہیں۔ اس حکومت اور اس سماج کی بے حد برائی کی جو مزدوروں اور کاشتکاروں پر بھاری ٹیکس لگائے، انھوں نے اسے قوم کا دشمن قرار دیا۔ علمی اصلاح کے لیے قرآن عظیم کی حکمت عملی کو اس کا معجزہ ثابت کرنے کا عنوان بنایا اور دولت کے تمام اخلاقی اور عملی مقاصد کا مرجع اور مدار اقتصادی عدم توازن کو قرار دیا۔

حضرت شاہ ولی اللہؒ کے یہ خیالات تیزی سے پھیلے اور رفتہ رفتہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے سماجی اصلاحات میں بڑی عرق ریزی سے کام لیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک صوفی تھے۔ ان کے تمام خیالات میں تصوف کار فرما نظر آئے گا۔ لیکن یہ تصوف ایک انفرادیت رکھتا ہے۔ بقول ظہیر احمد صدیقی : ’’شاہ ولی اللہ کا رجحان عام طور سے تصوف کی طرف تھا۔ ان کے نزدیک علم و عمل کے صحیح امتزاج کا نام تصوف ہے۔ وہ نفیِ خودی کے سخت مخالف تھے۔ ان کی تحریروں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جہاں انھوں نے صوفیہ کی قابلِ اعتراض باتوں کو دیکھا ان پر معترض ہوئے۔‘‘ انگریزوں کے خلاف جب یہ آوازیں تیزی سے اٹھیں تو انگریزوں نے اسے بدنام کرنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ تحریک ایک انقلاب آمیز جذبات لے کر بلند ہوئی۔

بادشاہ کی طاقت اگرچہ کمزور تھی لیکن دو سو سالہ دبدبے کے اثرات ابھی تک تھے۔ صوبوں کے گورنر خود مختار ہو گئے تھے۔ مرہٹے بغاوت کر رہے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی فتح کی منزل کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ایسے حالات میں حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اپنی آواز اٹھائی۔ نوابوں، تمام صاحبانِ اقتدار کی مذمت کی۔ اور تیز آندھی میں انقلاب کا ایک چراغ روشن کرنے کی کوشش کی۔ بقول مولانا محمد میاں ’’اٹھارہویں صدی عیسوی کے ہندوستان میں ملک کل نظام یعنی مکمل اور ہمہ گیر انقلاب کا نصب العین ایک چراغ تھا جو شہنشاہیت، شاہ پرستی اور اجارہ داری کی طوفان انگیز آندھیوں میں روشن کیا گیا تھا۔‘‘ 1762ء میں حضرت شاہ ولی اللہؒ کا انتقال ہو گیا۔

لیکن وہ اپنی ذات اور صفات سے ہندوستان میں ایک تحریک کی بنیاد ڈال گئے۔ مولانا عبیداللہ سندھی، جو حضرت شاہ ولی اللہؒ کے پیرو تھے، انھوں نے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حقیقتاً حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ایک مجاہدانہ زندگی گزاری۔ قوم کی اصلاح کے سلسلے میں ایک تحریک کی بنیاد ڈالی، جوان کے انتقال کے بعد ان کے جانشینوں نے آگے جاری رکھی۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ کے بعد یہ ذمہ داری ان کے بیٹے شاہ عبد العزیز نے سنبھالی۔

علی احمد فاطمی