ترکی کا ایس-400 میزائل سسٹم کا کامیاب تجربہ

امریکا نے خبردار کیا ہے کہ ترکی روسی ساختہ جدید ترین میزائل سسٹم ایس-400 کے مزید تجربات سے باز رہے ورنہ سیکیورٹی تعلقات خطرے میں پڑسکتے ہیں۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ترکی نے امریکی دباؤ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گزشتہ روز روس سے خریدے گئے دنیا کے جدید ترین میزائل سسٹم ایس-400 کا پہلا تجربہ کیا جو کامیاب رہا جس پر ردعمل دیتے ہوئے امریکی محکمہ دفاع “پینٹاگان” نے ترکی کو خبردار کیا ہے کہ ان تجربات سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔

بیان میں ترکی کو امریکا کا اتحادی گردانتے ہوئے مزید کہا گیا ہے کہ اگر ترکی ہماری تنبیہ پر کان نہیں دھرتا اور اتحادی کی حیثیت سے ذمہ داریوں کی تعمیل نہیں کرتا تو اس سے خطے میں سیکیورٹی تعلقات بھی خطرے میں پڑسکتے ہیں۔ ترکی کے مزید میزائل تجربات امریکا اور نیٹو اتحادی ہونے کی وجہ سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں سے متصادم ہوں گے۔ واضح رہے کہ ٹرمپ حکومت نے اس سے قبل روس سے ایس-400 میزائل سسٹم خریدنے کی پاداش میں ترکی کے ساتھ ایف -35 جنگی طیارے کی فراہمی، تکنیکی سہولت اور ترکی پائلٹس کی تربیت کے معاہدے معطل کر دیئے تھے تاہم اس کے باوجود ترکی نے امریکی دباؤ کو مسترد کر دیا۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

روسی میزائل رکھنے کے لیے نہیں استعمال کرنے کے لیے خریدے ہیں، ترکی

ترک حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ اس نے روسی ایس چار سو میزائل ذخیرہ کرنے کے لیے نہیں بلکہ استعمال کرنے کے لیے خریدے ہیں۔ ترک صدر ایردوآن کے ایک ترجمان کے مطابق اب ’واپس پچھلی طرف قدم اٹھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘۔ ترک دارالحکومت انقرہ سے ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق امریکا اور ترکی دونوں ہی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رکن اور ایک دوسرے کے اتحادی ممالک ہیں لیکن ترکی کی طرف سے جدید ترین روسی ساختہ S-400 میزائلوں کی خریداری پر امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ کے شدید ترین اعتراضات انقرہ اور واشنگٹن کے مابین غیر معمولی کھچاؤ کا باعث بن چکے ہیں۔

ترک صدر رجب طیب ایردوآن اور ان کے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین  اس بارے میں پھر ایک بار بات چیت بھی ہوئی تھی کہ دونوں ممالک کے مابین مسلسل شدید ہوتے جا رہے اختلافات کو کم کیسے کیا جائے۔ یہ اختلافات خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے متعلق ترک حکومتی پالیسی سے لے کر انقرہ کی طرف سے روسی ایس چار سو میزائلوں کی خریداری اور ترکی کے خلاف امریکا کی ممکنہ پابندیوں کی دھمکیوں تک کئی شعبوں کا احاطہ کرتے ہیں۔

میزائل صرف رکھنے کے لیے خریدنا ‘غیر منطقی‘
اس بارے میں ترکی کی دفاعی صنعت کے ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ اسماعیل دیمیر نے  نشریاتی ادارے سی این این ترک کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ انقرہ نے روس سے جو ایس چار سو میزائل خریدے ہیں، وہ صرف رکھے رہنے کے لیے نہیں خریدے گئے بلکہ انہیں استعمال بھی کیا جائے گا۔ اسماعیل دیمیر کے مطابق کسی بھی ملک کے لیے یہ بڑی غیر منطقی بات ہو گی کہ وہ ایسے جدید ترین دفاعی میزائل سسٹم خرید تو لے لیکن پھر انہیں اپنے پاس صرف رکھے ہی رہے۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ انقرہ اور واشنگٹن دونوں کو ہی اس بارے میں اپنے اختلافات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، اسماعیل دیمیر نے کہا، ”یہ کوئی درست سوچ نہیں ہو گی کہ ہم کہیں کہ ہم نے یہ میزائل صرف اپنے پاس رکھنے کے لیے خریدے ہیں۔ ہم نے یہ دفاعی خریداری اپنی ضرورت کے تحت کی ہے اور اس کے لیے بہت بڑی رقوم بھی ادا کی ہیں۔

امریکا اور روس ‘دونوں ہی ترکی کے اتحادی ساتھ ہی اس اعلیٰ ترک اہلکار نے مزید کہا، ”روس اور امریکا، ہمارے دونوں کے ساتھ ہی اتحادیوں والے تعلقات ہیں اور ہمیں اپنے ان معاہدوں کا احترام کرنا ہے، جو ہم نے کر رکھے ہیں۔‘‘ ترکی کے اس موقف کا پس منظر یہ بھی ہے کہ انہی روسی میزائلوں کی خریداری کی وجہ سے ٹرمپ انتظامیہ انقرہ کے لیے اپنے ایف پینتیس جنگی طیاروں سے متعلق پروگرام کو معطل بھی کر چکی ہے اور واشنگٹن انقرہ کو یہ دھمکی بھی دے چکا ہے کہ وہ اسی ترک روسی دفاعی معاہدے کی وجہ سے انقرہ کے خلاف پابندیاں بھی عائد کر سکتا ہے۔ امریکا کی طرف سے پابندیوں کی ان دھمکیوں کے باوجود ترکی کا کھلا جواب یہ ہے کہ وہ روس کے ساتھ ان میزائلوں کی خریداری کے معاہدے پر بالکل کاربند رہے گا، جن کی ماسکو کی طرف سے ترسیل اسی سال جولائی میں شروع بھی ہو گئی تھی۔

ترک ڈیفنس انڈسٹری ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ اسماعیل دیمیر کے الفاظ میں، ”ایسا تو ہو نہیں سکتا ہم کسی دوسرے (ملک) کی وجہ سے ان میزائلوں کو استعمال نہ کریں۔‘‘ انہوں نے کہا، ”ہم اپنا فرض پورا کرتے ہوئے ان میزائلوں کو استعمال بھی کریں گے، لیکن کب اور کن حالات میں، یہ فیصلہ بعد میں وقت آنے پر کیا جائے گا۔‘‘ قبل ازیں ترک صدر ایردوآن کے ترجمان ابراہیم کالین نے بھی کل جمعے کے روز کہہ دیا تھا، ”یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اب ہم پیچھے کی طرف کوئی قدم اٹھائیں۔ ترکی ایس چار سو میزائل خرید چکا ہے اور انہیں فعال بھی رکھے گا۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

روسی دفاعی نظام کی خریداری، ترکی کو دھمکیوں کے بعد ٹرمپ دھیمے پڑ گئے

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی محکمہ دفاع اور کانگریس کی جانب سے دباؤ کے باوجود ترکی کو روس سے دفاعی نظام لینے پر تنقید کرنے اور معاشی پابندیاں لگانے کی دھمکی دینے سے گریز کیا ہے۔ اس سے قبل امریکہ نے ترکی کو خبردار کیا تھا کہ کہ اگر اس نے روس سے اس کا تیار کردہ ‘ایس 400’ دفاعی نظام خریدا تو امریکہ انقرہ کے ساتھ ‘ایف 35’ جنگی طیاروں کی تیاری کا معاہدہ منسوخ کر دے گا۔ خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق ترکی نے روس سے ایس 400 دفاعی نظام کی ترسیل پر عمل درآمد شروع کر دیا تھا، جس کے بعد امریکی ریپبلکن اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے سینیٹرز نے صدر ٹرمپ پر زور دیا کہ وہ ترکی پر نئی معاشی پابندیاں لگائیں۔

صدر ٹرمپ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ترکی کو سابق صدر اوباما نے روس کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور کیا تھا اور وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ترکی نے کیوں دفاعی نظام خریدنے کے لیے روس کا انتخاب کیا۔‘ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان کے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ ٹرمپ نے روسی دفاعی نظام کے حوالے سے کہا کہ ترکی اور امریکہ اس وقت مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔ ’ہم اس سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔‘ صدر ٹرمپ نے روسی دفاعی نظام کے معاملے کو ’پیچیدہ صورتحال‘ قرار دیا۔ امریکہ کا مؤقف ہے کہ ‘روس کا ‘ایس 400’ دفاعی نظام نیٹو کے رکن ممالک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔

ترکی کے روسی دفاعی نظام خریدنے پر امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون ’ایف 35‘ جنگی طیارے والے پروگرام سے ترکی کی رکنیت معطل کر چکا ہے، اور ترکی کے لیے ان جہازوں کی خریداری پر پابندی لگا دی ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ چونکہ ترکی کے پاس ’روسی دفاعی نظام ہے، اس لیے اب وہ (امریکی ساختہ ایف 35) جہاز نہیں خرید سکتا۔‘ انہوں نے کہا کہ اس سے جہاز بنانے والی کمپنی ’لاک ہیڈ مارٹن‘ کو بھی نقصان ہو گا۔ صدر ٹرمپ نے ترکی کی جانب سے گذشتہ برس اکتوبر میں امریکی پادری کی رہائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ترکی، امریکہ کے ساتھ ’بہت اچھا‘ رویہ بھی اپنا چکا ہے۔

اس حوالے سے امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا کہ ترکی بہت پرانا اور قابل نیٹو اتحادی ہے، لیکن اس کا روسی دفاعی نظام ایس 400 لینے کا فیصلہ غلط اور مایوس کن ہے۔ انہوں نے کہا کہ روسی دفاعی نظام امریکی ساختہ ایف 35 جہاز کی صلاحیت اور امریکہ کی فضائی طاقت کو کمزور کرتا ہے۔  وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے ترک ہم منصب کو امریکی پالیسی سے آگاہ کر دیا تھا کہ ترکی، روسی دفاعی نظام اور امریکی ساختہ جہاز میں سے ایک حاصل کر سکتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ سیکرٹری خارجہ اور صدر ٹرمپ 2017 میں منظور کیے گئے قانون کا جائزہ لے رہے ہیں جس کے تحت روس سے ہتھیار خریدنے پر معاشی پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں۔

بشکریہ اردو نیوز

ترکی کا روس کے ساتھ مل کر میزائل نظام تیار کرنے کا عزم

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے روس سے میزائل نظام کی خریداری پر امریکا کی جانب سے دی گئیں پابندی کی دھمکیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب اگلا قدم میزائل نظام کو روس کے ساتھ مشترکہ طور پر تیار کرنا ہے۔ غیر ملکی خبر ایجنسی ‘اے پی’ کی رپورٹ کے مطابق طیب اردوان نے روس سے خریدے گئے ‘ایس-400’ میزائل نظام کی ایک اور کھیپ پہنچنے کے بعد انقرہ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی شدید مخالفت کے باوجود روس سے میزائل نظام خرید رہے ہیں۔ امریکا کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘وہ کہتے تھے کہ وہ نہیں خرید سکتے، وہ کہتے تھے کہ میزائل کو لا نہیں سکتے، وہ کہتے تھے کہ ان کے لیے یہ خریدنا ٹھیک نہیں اور آج آٹھواں جہاز پہنچ چکا ہے اور نظام کو اتارنا شروع کر دیا گیا ہے۔

ترک صدر نے کہا کہ میزائل نظام کو ایک سال سے کم عرصے میں مکمل طور پر منتقل کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اپریل 2020 تک ہم میزائل نظام کو مکمل طور پر پہنچا دیں گے اور اس کے ساتھ ہم دنیا میں فضائی دفاعی نظام کے حوالے سے چند ممالک میں شامل ہوں گے۔ طیب اردوان نے کہا کہ اب اگلا قدم میزائل نظام کو روس کے ساتھ مشترکہ طور پر تیار کرنا ہے۔ قبل ازیں ترکی کے وزیر دفاع نے کہا تھا کہ روس کے دو مزید کارگو جہاز ترک دارالحکومت انقرہ کے قریب ایئربیس پر لینڈ کر گئے ہیں جو روسی ساختہ ایس-400 نظام کے پرزے لے کر آئے ہیں اور یہ آٹھواں اور نواں جہاز ہے جو نظام کے مختلف حصے لے کر پہنچ گیا ہے۔

خیال رہے کہ امریکا نے ترکی کو روس سے اس نظام کی خریداری سے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کرنے کی صورت میں نیٹو رکن کی حیثیت سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور ترکی کو ‘ایف-35’ فائٹر جیٹ طیاروں کے پروگرام سے باہر کر دیا جائے گا۔ واشنگٹن کا کہنا تھا کہ روسی ایس-400 کا نیٹو کے ہتھیاروں سے کوئی مقابلہ نہیں ہے اور اس نظام کی خریداری سے روس کو ایف-35 جیٹ کے حوالے سے حساس دستاویزات تک رسائی کا بھی خدشہ ہے۔ ترکی نے امریکا کے دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ دفاعی حوالے سے خریداری اس کا قومی سلامتی کا معاملہ ہے اور روس سے معاہدہ تجارتی ہے جس کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔

بشکریہ ڈان نیوز