جب ڈاکٹرز قصائی بن جاتے ہیں

جس طرف دیکھیں حالات بہت خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ لالچ ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ پیسہ کمانے کے لیے انسانی جان کے ساتھ کھیلنا یہاں معمول بن گیا ہے۔ ایک طرف اگر دہشتگرد، ٹارگٹ کلر، قاتل انسانوں کو خودکش دھماکوں، بارود گولی اور دوسرے اسلحہ سے مارتے ہیں تو دوسری طرف پیسہ کی لالچ میں ملاوٹ شدہ اشیاء خوردونوش، جعلی ادویات، کیمیکل سے تیار کیا گیا دودھ اور نجانے کیا کچھ کھلے عام بیچا جاتا ہے جس سے کھانے والوں میں طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور ہر سال ہزاروں لاکھوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

دہشتگرد، ٹارگٹ کلر اور قاتل تو اپنا جرم سامنے کرتا ہے اور اس جرم کی پاداشت میں اس کے خلاف کارروائی بھی ہوتی ہے اور سزا بھی ملنے کی توقع ہوتی ہے لیکن لاکھوں افراد کے قاتل سے نہ کوئی پوچھ گچھ ہوتی ہے اور نہ ہی اُن کی طرف کسی کا خیال جاتا ہے کہ یہ بھی قاتل ہو سکتے ہیں۔ سب سے افسوس کی بات یہ ہے کہ جو بیمار ہوتا ہے جب وہ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے یا سرکاری و پرائیویٹ اسپتال جاتا ہے تا کہ صحت یاب ہو سکے، اُسے وہاں شکار کے طور پر ہی دیکھا جاتا ہے۔ ایک طرف دوائیں جعلی ہیں تو دوسری طرف ڈاکٹرز کی نظر مریض کے مرض کی بجائے اُس کی جیب پر ہوتی ہے۔

سرکاری اسپتالوں میں صفائی کا انتظام نہیں، ٹیسٹ لیبارٹریاں قابل اعتماد نہیں جس کی وجہ سے بہت سے لوگ مہنگے اور ماڈرن پرائیویٹ اسپتالوں کی طرف جاتے ہیں لیکن وہاں جو ہوتا ہے اُسے دیکھ کر مسیحا کے روپ میں ڈاکٹرز کا اصل چہرہ دیکھ کر گھن آتی ہے۔ ڈاکٹرز جو مریضوں کے ساتھ کرتے ہیں اس بارے میں ہر شخص کا اپنا اپنا تجربہ ہے اور اگر لوگوں سے کسی سروے کے ذریعے پوچھا جائے تو ہزاروں کہانیاں سامنے آئیں گی کہ کس طرح پیسہ کی لالچ میں انسانی جانوں کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ میں یہاں گزشتہ چند دن کی وہ معلومات قارئین سے شئیر کروں گا جو میرے سامنے آئیں تاکہ پڑھنے والوں کو اس بات کی آگاہی ہو کہ اُنہیں بڑے سے بڑے ڈاکٹر اور اچھے سے اچھے پرائیویٹ یا سرکاری اسپتال پر بھی آنکھیں بند کر کے اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔

اگر ایسا کیا تو آپ کے ساتھ وہ کچھ ہو سکتا ہے جس کے بارے میں آپ نے کبھی سوچا بھی نہ ہو گا۔ میری ایک قریبی عزیزہ کو ٹانگ کی ہڈی میں مسئلہ تھا جس کا کوئی دو تین سال قبل راولپنڈی اسلام آباد کے ایک بڑے پرائیویٹ اسپتال میں ایک بڑے ڈاکٹر نے آپریشن کیا۔ کوئی تین لاکھ روپے فیس لی گئی۔ حال ہی میں خاتون جو ملک سے باہر تھیں معمول کے مطابق ایکسرے اور ایم آر آئی کرایا جسے ملک سے باہر ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ یہاں بھی اُسی بڑے پرائیویٹ اسپتال کے بڑے ڈاکٹر کو دیکھایا گیا۔ باہر کے ڈاکٹر نے کہا کوئی مسئلہ نہیں۔ بڑے پرائیویٹ اسپتال کے بڑے ڈاکٹر نے کہا مجھے کچھ مسئلہ نظر آ رہا ہے۔ خاتون کی بہن جو خود بھی ایک ڈاکٹر ہیں نے ایک اور مقامی اسپیشلسٹ سرجن کو ایکسرے اور دوسری رپورٹس دیکھائیں تو وہ بھی کہنے لگا کوئی مسئلہ نہیں۔

اس پر دوبارہ بڑے پرائیویٹ اسپتال کے بڑے ڈاکٹر سے رجوع کیا گیا اور اُسے بتایا گیا کہ دوسرے ڈاکٹرز کیا کہتے ہیں۔ اس پر بڑے ڈاکٹر برہم ہو گئے اور کہنے لگے میں نے خاتون کا پہلے آپریشن کیا اور میں جانتا ہوں کہ مسئلہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی خاتون مریضہ جو اُس وقت ملک سے باہر تھیں کی ڈاکٹر بہن کو بڑے ڈاکٹر نے دھمکی کے انداز میں کہا کہ آپریشن فوری کروانا ہے تو ٹھیک ورنہ بعد میں مرض بڑھ گیا تو میرے پاس مریض کو لے کر نہ آنا۔ بتا بھی دیا کہ پیسے تین چار لاکھ کے درمیان لگیں گے۔ بڑے ڈاکٹر کے بڑے نام کی وجہ سے فوری چند ہی دنوں میں مریضہ کو بیرون ملک سے بلوایا گیا اور دوسرے ہی دن بڑے اسپتال میں داخل کروا دیا گیا۔ دوسرے دن سرجری کے لیے مریضہ کو آپریشن تھیٹر پہنچایا گیا۔ بے ہوشی کی دوا دینے سے قبل مریضہ نے سن لیا کہ اُس کی بائیں ٹانگ کا آپریشن کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے جبکہ مسئلہ دائیں ٹانگ میں تھا ۔

خاتون مریضہ چیخ اُٹھی کہ آپ لوگ کیا کر رہے ہیں جس پر اُس سے کہا گیا کہ نہیں آپریشن کے لیے تو بائیں ٹانگ کا لکھا ہوا ہے۔ مریضہ نے کہا کہ مرض مجھے ہے، میرا پہلے بھی آپریشن ہو چکا اس لیے بہتر ہے اپنا ریکارڈ درست کریں۔ اپنی متاثرہ ٹانگ کی بجائے مکمل صحت یاب ٹانگ کے آپریشن سے بچتے ہی، مریضہ کے کانوں میں ایک نرس کی طرف سے ڈاکٹر کوبتائی جانے والی یہ خبر پہنچی کہ خاتون کا ہیپاٹائٹس بی کا رزلٹ مثبت آیا ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس نئی خطرناک بیماری کے شاک کو ہضم کرتی اُس پر بے ہوشی کی دوا کا اثر ہو چکا تھا۔ اس نئی بیماری اور ٹیسٹ کے بارے میں آپریشن تھیٹر کے باہر موجود مریضہ کی ڈاکٹر بہن کو پتا چلا تو اُسے یقین نہیں آیا کیوں کہ حال ہی میں کرائے گئے تمام بلڈ ٹیسٹ کلئیر تھے۔

اُس نے بڑے اسپتال کی لیبارٹری سے بلڈ سیمپل لیے اور ایک دوسرے اسپتال کی طرف دوڑی۔ ابھی رستہ میں تھی تو بڑے اسپتال سے فون آیا کہ بی بی واپس آ جائیں غلطی ہو گئی۔ بتایا گیا کہ کسی دوسرے مریض کا ٹیسٹ اُس مریضہ کے ساتھ میکس ہو گیا تھا جس کی وجہ سے غلط رپورٹ جاری ہو گئی۔ آپریشن ہو گیا جس کے بعد بڑے ڈاکٹر نے بتایا کہ ٹانگ میں کوئی خرابی نہیں تھی لیکن جہاں مجھے شبہ تھا وہاں میں نے ہڈی کی گرافٹنگ کر دی۔ جب خون کی غلط ٹیسٹ رپورٹ کے بارے میں احتجاج کیا گیا تو ڈاکٹر نے جواب دیا ’’I have taken them to task.‘‘ معلوم نہیں کتنے مریضوں کے ساتھ یہ کھیل روزانہ کھیلا جاتا ہے۔

لاکھوں دے کر بھی اگر علاج کے نام پر یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے تو پھر مریض بچارے کہاں جائیں۔ گزشتہ روز میں مریضہ کی تیمارداری کےلیے گیا تو اُس نے اپنی کہانی تو بتائی ہی ساتھ ہی کہنے لگی کہ چند روز قبل ہی اُس کے جیٹھ اسلام آباد کے ایک اور بڑے پرائیویٹ اسپتال خون کے ٹیسٹ کروانے گئے۔ جب ٹیسٹ رپورٹس ملیں تو شوگر تین سو سے زیادہ ۔ خون کی کچھ دوسری رپورٹس بھی خراب تھیں۔ یہ رپورٹس دیکھ کر وہ پریشان ہو گیا اور اُسی اسپتال کے ایک بڑے ڈاکٹر کے پاس چلا گیا جس نے دوائیوں کے ڈھیر لکھ دئیے۔ اپنی جان کو خطرے میں دیکھتے ہوئے تقریباً دس ہزار کی دوائیں خرید کر مایوسی کی حالت میں گھر پہنچا اور ساری روداد گھر والوں کو سنا دی۔

ماں نے ویسے ہی کہا میری شوگر ٹیسٹنگ مشین سے ٹیسٹ کر لو۔ بیٹے نے گھر ہی میں ٹیسٹ کیا تو شوگر نارمل نکلی۔ دوڑا دوڑا اسلام آباد کے ایک اوراسپتال پہنچا اور ٹیسٹ کروائے جو بلکل نارمل تھے۔ ابھی حال ہی میں ہماری ایک اور جاننے والی خاتون کو بلڈ کلاٹنگ کی وجہ سے دل کا عارضہ ہوا۔ ایک بڑے پرائیویٹ اسپتال میں داخل ہوئیں، علاج ہوا گھر چلی گئیں۔ ایک ٹانگ میں سوجن ہو گئی، اسٹروک بھی ہو گیا۔ دوبارہ اُسی اسپتال پہنچیں اور داخل کر لی گئیں۔ ایک ڈاکٹر صاحب آئے اور اسٹروک کی مریضہ جس کو پہلے panic attack بھی ہو چکا تھا کو کہنے لگے کہ او ہو تمھاری تو ٹانگ کاٹنی پڑے گی۔ یہ سنتے ہی خاتون نے رونا شروع کر دیا۔ بعد میں دوسرے ڈاکٹرز آئے اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ ٹانگ کاٹنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

دو تین روز قبل ٹی وی ایکٹر ساجد حسن نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی دکھ بھری کہانی سنائی کہ کس طرح بال لگوانے کے چکر میں اُس کے سر کی بری حالت کر دی گئی ہے۔ ساجد حسن نے اپنے سر کی وڈیو بھی شئیر کی جسے دیکھ کر ڈر لگتا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں اگرچہ لالچ نہیں لیکن وہاں ایک طرف انفکشن کا ڈر اور دوسری طرف ٹیسٹ رپورٹس پر کوئی بھروسہ نہیں۔ ایک جاننے والے نے پیسہ کی کمی کی وجہ سے فیصلہ کیا کہ اسلام آباد کے بڑے سرکاری اسپتال سے ٹیسٹ کروا لیے جائیں۔ جب ٹیسٹ کی رپورٹس آئیں تو سب کی سب غلط۔ جب رپورٹس ہی قابل اعتبار نہ ہوں تو مریضوں کا علاج کیا ہو گا۔ نجانے علاج کے نام پر روزانہ کتنے لوگوں کی یہاں جانوں کے ساتھ کھیلا جاتا ہے لیکن کوئی روکنے والا نہیں۔

انصار عباسی

اب عورت کی ترقی موٹرسائیکل کے ذریعے

پنجاب حکومت نے حال ہی میں خواتین کو empower کرنے کے نام پر عورتوں کو رعائتی قیمت پر موٹر سائیکل دینے کی اسکیم کا اعلان کیا۔ گزشتہ ہفتہ ایک ٹی وی اینکر نے اپنے شو کے دوران (ن) لیگ کی ایک خاتون رہنما سے اس اسکیم کے حوالہ سے پوچھا کہ کیا خواتین کا موٹر سائیکل چلانا ہماری ثقافت سے ہم آہنگ ہے ؟ اینکر نے ن لیگی خاتون رہنما سے یہ بھی سوال کیا کہ اگر معاشرتی اور ثقافتی لحاظ سے اس میں کوئی مضائقہ نہیں تو کیا وہ خاتون رہنما مریم نواز صاحبہ کے ساتھ موٹر سائیکل چلائیں گی۔ اس سوال پر ن لیگی خاتون رہنما جذباتی ہو گئیں اور طیش میں بہت کچھ بول گئیں۔ کہنے لگیں ہاں ہم ضرور موٹر سائیکل چلائیں گی۔ چڑ کر کہنے لگیں کہ عورتوں کو آپ لوگ ڈبے میں بند کر کے رکھنا چاہتے ہیں اور پھر چھوٹی عمر میں شادیوں کے معاملہ کو بھی اُٹھا لیا۔

ن لیگی خاتون رہنما اپنے خیالات سے روشن خیال ظاہر ہو رہی تھیں لیکن اس کے باوجود دیکھتے ہیں کہ کب وہ موٹر سائیکل چلانا شروع کرتی ہیں اور کب مریم نواز صاحبہ کو اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار کر کے لاہور یا پاکستان کے دوسرے شہروں میں گھومتی ہیں۔ میرا اس اسکیم کے بارے میں کیا خیال ہے، اُس کے بارے میں بات کیے بغیر میں سمجھتا ہوں کہ اگر women empowerment کے نام پر اس اسکیم کو پنجاب یا پاکستان میں کامیاب بنانا ہے تو پھر اصولاً ن لیگی قیادت کو اپنے گھر کی خواتین کو موٹر سائیکل خرید کر دینے چاہیے اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ باہر خود موٹر سائیکل چلا کر جائیں گھومیں پھریں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اپنی تصویر کے ساتھ اس اسکیم کے اشتہارات اخباروں میں شائع کروائے اور اس پر بڑے فخر کا اظہار بھی کیا۔

امید ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی گھر کی خواتین کو بھی وہ آزادی اور empowerment کا حق ملے گا جس کا اطلاق صوبے کی خواتین اور بیٹیوں کے لیے کیا جا رہا ہے۔ بلکہ ن لیگ کو تو چاہیے کہ اس اسکیم کی کامیابی کے لیے اپنی خواتین ممبران اسمبلی کو بھی ایک ایک موٹر سائیکل لے کر دیں۔ جب رہنمائوں کی بیویاں، بیٹیاں، بہنیں اور بہوئیں موٹر سائیکل لے کر باہر نکلیں گی تو اُن کی تقلید میں دوسری عورتوں کو بھی حوصلہ ملے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہو گا۔ ہمارے سیاسی رہنمائوں اور حکمرانوں کے عمومی طور پر اپنے لیے اصول اور دوسروں کے لیے کچھ اور ہیں۔ وہ آزادی جو وہ دوسروں کی عورتوں کو دینا چاہتے ہیں اُسے اپنی خواتین کے لیے پسند نہیں کرتے۔

عورت کی ترقی کے نام پر عموماً ہمارے ہاں جو ہوتا ہے وہ محض سیاست ہوتی ہے جس کا مقصد اپنے آپ کو لبرل اور روشن خیال ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ ورنہ اگر عورتوں اور اُن کے حقوق کا اتنا ہی خیال ہے تو پھر خواتین کو وراثت میں حصہ کیوں نہیں دیتے۔ اگر عورت کے احترام اور اُس کی عزت کا اتنا ہی خیال ہے تو پھر سرکاری اور نجی اداروں میں کام کرنے والی لاکھوں خواتین کو وہ ماحول کیوں فراہم نہیں کیا جا رہا جہاں اُن کا کوئی مرد کسی قسم کا استحصال نہ کر سکے۔ اگر عورت کے لیے کچھ کرنا ہی ہے تو معاشرہ کی تربیت ایسی کیوں نہیں کی جا رہی کہ گھر سے نکلنے والی عورت اپنے آپ کو غیروں کی بُری نظر اور اُن کے شر سے اپنے آپ کو محفوظ تصور کرے۔

خواتین سے اتنی ہمدردی ہے تو جہیز کو قانوناً جرم تصور کیا جائے اور ایسا کرنے والوں کو قید یا جرمانہ کی سزائیں دی جائیں۔ اگر عورت سے اتنی ہمدردی ہے تو یہ یقینی بنایا جائے کہ ہر عورت کو شادی پر اُس کا مہر ادا کیا جائے نہ کہ اس کو محض ایک رواج کے طور پر خانہ پوری کے لیے رکھا جائے۔ اگر خواتین سے ہمدردی ہے اور اس معاشرہ کو واقعی سنوارنا چاہتے ہیں تو شرم و حیا کی تعلیم اور تربیت دی جائے تاکہ کوئی فرد یا ادارہ عورت کو اپنا پیسہ کمانے اور کاروبار بڑھانے کے لیے شو پیس کے طور پر استعمال نہ کرے۔ ایسا کرنے والے سزا کے مستحق ہیں اور حکومت کو چاہیے کہ جو کوئی اپنے مال اور کاروبار کے لیے عورت کا استحصال کرے اُس کا کاروبار ہی بند کر دینا چاہیے۔

میں کتنے والدین کو جانتا ہوں جو مخلوط تعلیمی نظام کی وجہ سے کافی پریشان ہیں اور اپنی بچیوں کو ایک حد سے آگے ایسے اداروں میں پڑھنے نہیں دیتے۔ اگر عورتوں کو واقعی empower کرنا ہے تو پھر اُن کے لیے الگ کالج اور یونیورسٹیاں قائم کی جائیں۔ عورت کے حقوق کا اتنا ہی خیال ہے تو پھر گھر کے اندر عورت کو بدسلوکی سے بچانے کے لیے معاشرہ کی تربیت کے لیے حکومت نے کون سا پروگرام دیا۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ کہیں ہماری حکومتیں مغرب کی تقلید میں عورت کی empowerment کے نام پر اُن کی مزید استحصالی کا سبب تو نہیں بن رہے؟

انصار عباسی

چیف جسٹس غیر اسلامی قانون کو کالعدم قرار دیں

سانحہ قصور کی مقتولہ زینب کے والد کا مطالبہ ہے کہ اس جرم میں ملوث قاتل کو سرعام پھانسی دی جائے۔ اس سے پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب بھی اسی خواہش کا اظہار کر چکے اور اُنہوں نے عندیہ بھی دیا کہ اگر اس کے لیے قانون کو بدلنا پڑا تو وہ بھی کریں گے تاکہ سفاک مجرم کو نشان عبرت بنایا جا سکے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وزارت داخلہ نے عبدالرحمٰن ملک کی صدارت میں موجودہ قانون میں تبدیلی کی تجویز دی تاکہ 14 سال سے کم عمر بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے اور انہیں قتل کرنے والے سفاک مجرموں کو سر عام پھانسی دی جا سکے۔ لیکن حیرت ہے کہ جب یہ معاملہ چند روز قبل زینب کے والد حاجی امین صاحب نے سپریم کورٹ کے سامنے اُٹھایا تو چیف جسٹس ثاقب نثار نے انہیں دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ بھی چاہتے ہیں کہ مجرم کو سرعام پھانسی دی جائے مگر قانون   اسکی اجازت نہیں دیتا۔

اخبار میں یہ پڑھ کر مجھے تعجب ہوا کہ چیف جسٹس آف پاکستان یہ بات کیسے کر سکتے ہیں۔ جب قرآن و سنت ایسے مجرموں کو سرعام سزا دینے کی تعلیم دیتے ہیں، جب ہمارا آئین کہتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف نہیں بن سکتا اس کے باوجود کوئی قانون کیسے حدود اللہ کے نفاذ کے راستے میں رکاوٹ بن سکتا ہے؟؟ ماضی میں کئی بار اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے مختلف قوانین کو اس لیے منسوخ کیا گیا کیوں کہ وہ قوانین آئین کی مختلف دفعات سے متصادم تھے اور اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے تو عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کے لیے آئین میں موجود چند شقوں کو یا تو بے اثر کر دیا یا انہیں پارلیمنٹ سے اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کروا دیا۔ یہاں تو معاملہ ایسے قانون کا ہے جو قرآن و سنت سے ٹکراتا ہے۔ ایسے قانون کو تو سپریم کورٹ کو بغیر کسی تاخیر کے ویسے ہی منسوخ کر دینا چاہیے.

نہیں معلوم شہباز شریف قصور واقعہ میں شریک سفاک مجرم کو سرعام پھانسی دینے کے لیے کب قانون میں تبدیلی کے لیے کوئی عملی قدم اٹھائیں گے لیکن بہتر ہو گا کہ اس معاملے کو چیف جسٹس خود نبٹائیں۔ جنگ اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق زینب کے والد سے بات کرتے ہوئے چیف جسٹس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے کہا کہ زینب اُن کی بھی بیٹی تھی۔ یقیناً چیف جسٹس کی طرح اس سانحہ نے پورے پاکستان کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور جب سفاک مجرم پکڑا گیا تو معلوم ہوا کہ اُس نے ایک نہیں بلکہ آٹھ دس بچیوں کے ساتھ زیادتی کی اور اُنہیں بے دردی کے ساتھ قتل بھی کر ڈالا۔ جب سے قصور واقعہ سامنے آیا اُس کے بعد تو میڈیا میں ہر روز ہی زیادتی کی نئی نئی خبریں سامنے آرہی ہیں۔

کبھی پنجاب تو کبھی بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا میں معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں تو یہ بہت ہی ضروری ہے کہ ایسے سفاک مجرموں کو سرعام پھانسیاں دی جائیں۔ کسی عام شہری کے برعکس چیف جسٹس اس ملک کے انتہائی با اختیار فرد ہیں۔ جناب ثاقب نثار بھی خواہش رکھتے ہیں کہ ایسے سفاک مجرموں کو سرعام سولی پر لٹکایا جائے۔ اُن کے عہدہ اور ذمہ داری کو سامنے رکھا جائے تو چیف جسٹس صاحب کو زینب کے قاتل کو سرعام پھانسی دلوانےکے لیے کسی قانونی رکاوٹ کی بات نہیں کرنی چاہیے بلکہ جو رکاوٹ ہے اُسے یا تو خود دور کریں یا حکومت کو حکم دیں کہ فوری طورپر اُس غیر اسلامی اور غیر آئینی قانون کو ختم کیا جائے جو قرآن سنت کی تعلیمات کے مطابق سفاک مجرموں کو نشان عبرت بنانے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ زینب کے والد حاجی امین صاحب سے تو میری درخواست ہو گی کہ سفاک مجرموں کو سر عام پھانسی دینے کے لیے وہ اپنی آواز بلند کرتے رہیں کیوں کہ اُن کا مطالبہ جائز، اسلامی اور آئینی ہے اور اس مطالبہ کے پورا ہونے کے ثمرات پورے معاشرے کے لیے ہوںگے۔

(بدھ 31 جنوری) کے جنگ اخبار میں یاسر پیرزادہ صاحب نے اپنے کالم میں ایک معروف صحافی کے زینب سے متعلق ٹوئٹس پر تبصرہ کیا ہے جس سے میں بھی اتفاق کرتا ہوں۔ حرف آخر: اپنے تازہ کالم میں یاسر پیرزادہ نے میرے گزشتہ کالم ’’بے لگام میڈیا کا علاج‘‘ سے اتفاق کرتے ہوئے لکھا ’’میرے اور انصار عباسی کے خیالات اتنے مل جائیں گے میں نے سوچا بھی نہ تھا، خدا خیر کرے!‘‘ جو پیرزادہ صاحب نے آج اپنے کالم ’’# بائیکاٹ ایل ایل ایف‘‘ میں لکھا اور خصوصاً الٹرا لبرلز کے بارے میں لکھا اُس سے مجھے بھی مکمل اتفاق ہے۔ اللہ خیر ہی کرے!!

انصار عباسی

بے لگام میڈیا کا علاج

معذرت کے ساتھ چیف جسٹس صاحب سے عرض ہے کہ چاہے کتنے ہی سو موٹو نوٹس لے لیں میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی فتنہ انگیزی کا علاج اس طرح ممکن نہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی کی جو حالت ہے اسے اگر روکنا ہے تو متعلقہ اداروں کو مضبوط بنانا ہو گا اور سخت قوانین اور ان کے اطلاق سے ہی میڈیا کو اب تمیز کے دائرے میں لایا جا سکتا ہے۔ ٹی وی چینلز کی بگاڑ کا تو تعلق ہی عدالتوں سے ہے جو پیمرا کے ہر نوٹس پر خلاف ورزی کرنے والے چینلز کو اسٹے آرڈر دے دیتے ہیں اور یوں ہر گزرتے دن کے ساتھ میڈیا کی فتنہ انگیزی رکنے کے بجائے مزید زور پکڑتی جا رہی ہے۔

چند روز قبل ایک ٹی وی اینکر کی طرف سے قصور سانحہ میں ملوث سفاک ملزم عمران علی کے متعلق جو ’’انکشافات‘‘ کیے گئے اور جن کے بارے میں اکثر ٹی وی چینلز اور اینکرز کا خیال ہے کہ یہ fake news ہے، اس پر جو رد عمل آیا اُس سے ایسا محسوس ہوا جیسے یہ کوئی نئی بات ہو۔ حقیقت میں تو ٹی وی چینلز کی یہ روز کی کہانی ہے۔ جھوٹ تو یہاں روز بولا جاتا ہے۔ یہاں تو ایسی ایسی ’’خبریں‘‘ نشر کی جاتی ہیں جن کا سر پائوں نہیں ہوتا، جس کی زبان میں جو آتا ہے وہ بول پڑتا ہے، کسی پر کروڑوں اربوں کی کرپشن کا الزام لگا دو کوئی مسئلہ ہی نہیں، جس کو جی چاہے ملک دشمن بنا دو، بھارتی ایجنٹ قرار دے دو کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔

انتشار پھیلانا ہے تو ٹی وی چینلز حاضر، کسی کی پگڑی اچھالنی ہے تو اینکرز اور ٹی وی اسکرین موجود، کسی کو نفرت انگیز تقریر کرنی ہے یا فتنہ انگیز مواد پھیلانا ہے تو اُس کے لیے بھی میڈٖیا کے دروازے کھلے ہیں۔ کہیں سے کوئی کاغذ مل جائے، بے شک جعلی ہو بغیر تصدیق کیے اُسے دستاویزات کا درجہ دے کر ٹی اسکرین پر چلا کر جس کا دل چاہے مٹی پلید کر دیں۔ کوئی خیال نہیں کیا جاتا کہ ایسی صحافت سے ملک و قوم کا کتنا نقصان ہو سکتا ہے، کسی کی جان جا سکتی ہے، تشدد ہو سکتا ہے۔ حالات تو اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ اسلامی شعائر کے خلاف تک بات کی جاتی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ فکر ہے تو بس ریٹنگ کی۔ جہاں خلاف ورزی بڑی ہو اور عوامی ردعمل آ جائے تو پیمرا متعلقہ چینلز کو نوٹس بھیجتا ہے لیکن تقریباً ہر نوٹس کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے،عدالتی اسٹے آرڈر۔

کتنا ہی بڑا جرم کوئی چینل کر دے، خلاف ورزی کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہو، پیمرا کے ہر ایکشن کا توڑ عدالتی اسٹے آرڈر اور یہی اسٹے آرڈر اب مادر پدر آزاد اور فتنہ انگیز میڈیا کا سب سے بڑا سہارا بن چکا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی اس بات کا ذکر کر چکا ہوں، اسٹے آرڈرز نے اگر ایک طرف پیمرا کی رٹ کو برباد کر دیا ہے تو وہیں یہ بیماری اس حد تک سنگین صورت حال اختیار کر چکی ہے کہ میرے ایک کالم پر چیف جسٹس کی طرف سے بے حیائی پھیلانے پر ایک چینل کے خلاف سوموٹو ایکشن لیا جس کے خلاف متعلقہ چینل نے ایک ہائی کورٹ سے اسٹے لے لیا اور یوں چیف جسٹس کے سوموٹو کے باوجود پیمرا کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں رہا۔ اس وقت بھی پیمرا کو پانچ سو سے زیادہ عدالتی کیسوں کا سامنا ہے۔ اس حالت میں پیمرا کیسے بے لگام میڈیا کو ریگولیٹ کر سکتا ہے۔ میری چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ اگر اس بے لگام مادر پدر آزاد میڈیا کو کنٹرول کرنا ہے تو اس کے لیے سب سے پہلے عدالتی اسٹے آرڈرز کی بیماری کا علاج کیا جائے تاکہ پیمرا کی رٹ قائم ہو سکے۔

ایک دو چینلز اور چند ایک اینکرز پر اگر پیمرا خلاف ورزی کرنے پر پابندی لگا دے تو پھر دیکھیے کہ یہ چینلز کیسے سدھرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہاں ہتک عزت کے قانون کو موثر بنانا ہو گا۔ جھوٹی خبروں اور غلط الزامات پر اخبارات اور چینلز کو بھاری جرمانے ہونے چاہیے۔ ہمارے ہاں تو اس قانون کی حیثیت ہی کچھ نہیں۔ نہ قانون میں کوئی جان ہے اور نہ ہی عدالتیں ان کیسوں کا سالہہ سال تو کیا دہایوں میں بھی فیصلہ نہیں کرتی۔ اس بارے میں بھی چیف جسٹس کا کردار بہت اہم ہو گا۔ کسی ایک صحافی یا اینکر کی بجائے سسٹم کو ٹھیک کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت یا عدلیہ کا یہ خیال ہے کہ میڈیا خود اپنے آپ کو درست کرنے کے لیے کچھ کرے گا تو میری ذاتی رائے میں ایسا ممکن نہیں۔ میڈیا کو ریگولیٹ کیے جانے کی اشد ضرورت ہے ورنہ کل کوئی بہت بڑا نقصان اور تباہی بھی ہو سکتی ہے۔

انصار عباسی