مسلمانو! تم کہاں ہو

لورین اور اسٹریس برگ فرانس کے دو صوبے ہوا کرتے تھے جن پر اٹھارویں صدی کے آخر میں جرمنی نے قبضہ کر لیا اور وہاں کے باشندوں کو گرجا گھروں میں عبادت کرنے سے روک دیا۔ کچھ عرصہ بعد ایک فرانسیسی مصنف ارنسٹ لیوس وہاں گیا اور وہاں کے سب سے بڑے گرجا گھر میں حاضری دی۔ واپسی پر اس نے اپنے تجربات ،مشاہدات اور احساسات پر مشتمل ایک کتاب لکھی جس کا نام ہے ’’The temps‘‘ اس کتاب میں اس نے مسیحی برادری کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ میں نے جب وہاں کے سب سے بڑے گرجا گھر میں حاضری دی تو مجھے یوں لگا جیسے اس گرجا گھر کے مینار فضا میں بلند ہوتے اور کہتے،فرانسیسیو! تم کہاں ہو ! ہم تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ کتاب اس قدر اثر انگیز ثابت ہوئی کہ فرانس نے اپنے وہ علاقے جرمنی کے تسلط سے چھڑا لئے اور وہ گرجا گھر پھر سے آباد ہو گئے۔

فرانس کے ان صوبوں سے متصل اسپین کی ریاست ہے جسے ماضی میں ہسپانیہ بھی کہا جاتا تھا مگر ہم اسے اندلس کے نام سے جانتے ہیں۔ یورپ کے نقشے پر جنوب و مغرب کی جانب براعظم افریقہ اور یورپ کے سنگم پر ایک جزیرہ نما ہے جس کا رقبہ دو لاکھ مربع میل ہے۔ اس کے ایک طرف بحر متوسط ہے جسے بحیرہ روم بھی کہتے ہیں اور دوسری جانب بحر اوقیانوس ہے جسے ہم بحر ظلمات کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ یہ وہ سمندر ہے جس میں ہمارے جری و بہادر سپاہیوں نے گھوڑے دوڑا دیئے۔ جب اندلس کا ذکر آتا ہے تو فوراً طارق بن زیاد کا خیال آتا ہے جس نے اندلس کے ساحل پر واپسی کی کشتیاں جلا دیں اور آج دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں جس میں ’’Burn The Boat ‘‘ جیسا کوئی محاورہ نہ ہو۔ طارق بن زیاد کی اس تاریخی فتح کے بعد مسلمانوں نے یہاں ساڑھے سات سو سال تک حکومت کی لیکن جب داخلی انتشار اور ضعف و ناتوانی کا شکار ہوئے تو منگولوں کی افواج نے انہیں اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند ڈالا۔ فرڈیننڈ کی آمد پر غرناطہ کا حکمران عبداللہ محل سے کوچ کرتے وقت رونے لگا تو اس کی ماں نے ٹہوکا لگایا،ارے او بدبخت! جب تم مردوں کی طرح اپنے شہر کا دفاع نہ کر سکے تو اب عورتوں کی طرح روتے کیوں ہو؟

یوں تو اندلس میں مسلمانوں کے فن تعمیر کے بے شمار نمونے ہیں مگر سب سے بڑا عجوبہ قرطبہ کی شہرہ آفاق مسجد ہے جسے دیکھ کر ماہرین تعمیرات انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ اس مسجد کی بنیاد وادی الکبیر کے کنارے پہلے امیر عبدالرحمٰن الداخل نے رکھی اور پھر توسیع و تکمیل کا کام امیر ہشام کے دور میں مکمل ہوا۔ اس دور میں امیر عبدالرحمٰن نے 80ہزار دینار جبکہ ہشام نے ایک لاکھ ساٹھ ہزار دینار مسجد قرطبہ کی تعمیر کے لئے خرچ کئے۔ یہ رقم سرکاری خزانے کے بجائے ان حکمرانوں نے ذاتی طور پر خرچ کی۔ یہ دونوں حکمران خود نہایت سادہ زندگی گزارتے تھے۔ مسجد قرطبہ کی تعمیر کے لئے مقامی باشندوں سے باقاعدہ جگہ خریدی گئی اور مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا پھر ہر دور میں اس کی توسیع اور تزئین و آرائش کا کام ہوتا رہا۔ 1417ستونوں پر ایستادہ اس خوبصورت مسجد کے 21دروازے ہیں۔اس کی چھت 182میٹر لمبی اور 133 میٹر چوڑی ہے۔ اس کا منبر ہاتھی دانت، آبنوس، صندل اور جواہر کے 36ہزار ٹکڑوں سے متشکل ہوا اور سونے کی کیلوں سے مربوط کیا گیا۔اس کا ہفت پہلو محراب بھی اپنی صناعی کے اعتبار سے بے مثل ہے۔اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اب بھی دودھ سے زیادہ اجلا اور برف سے زیادہ چمکدار ہے۔

ہر سال 14لاکھ مسلمان مسجد قرطبہ کی زیارت کو جاتے ہیں۔جب یہاں مسیحیت کو عروج حاصل ہوا تو سولہویں صدی میں مسجد قرطبہ کے ایک حصہ کو گرجا گھر میں تبدیل کر دیا گیا۔1931ء میں علامہ اقبال یورپ کے دورے پر گئے تو مسجد قرطبہ میں حاضری دی۔انہوں نے وہاں نماز ادا کرنا چاہی تو پادری نے منع کر دیا۔ علامہ اقبال نے اس پادری کو تاریخی واقعہ سنایا کہ عیسائیوں کا ایک وفد ملنے آیا تو اسے مسجد نبوی میں ٹھہرایا گیا، سب مہمان اس شش و پنج میں تھے کہ انہیں قیام کی اجازت تو دے دی گئی ہے کیا اپنے طریقے سے عبادت کرنے کی اجازت بھی مل پائے گی؟ ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے انہیں اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت دے دی۔ یہ واقعہ سننے کے بعد پادری قائل ہو گیا اور اس نے نماز ادا کرنے کی اجازت دے دی۔ یوں 8صدیوں بعد مسجد قرطبہ میں اللہ اکبر کی صدا گونجی اور کسی مسلمان کو سر بسجود ہونے کی اجازت ملی۔ مسجد قرطبہ کے اس دورے سے متاثر ہو کر اقبال نے اپنی شہرہ آفاق نظم لکھی جس کے چند اشعار کچھ یوں ہیں:

اے حرم قرطبہ! عشق سے تیرا وجود

عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت بود

رنگ ہو یا خشت و سنگ،چنگ ہو یا حرف و صوت

معجزئہ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود

اسپین میں اب بھی 8لاکھ مسلمان آباد ہیں مگر انہیں مسجد قرطبہ میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں۔ 2006ء میں اسپین کے اسلامک بورڈ نے رومن کیتھولک بشپ کو ایک عرضی پیش کی۔ اس درخواست میں کہا گیا کہ ہم مسجد قرطبہ کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کرتے،نہ ہی یہاں سے گرجا گھر کا خاتمہ چاہتے ہیں۔بس اتنی سی التجا ہے کہ مسجد قرطبہ کو ایک ایسی عبادت گاہ بنا دیا جائے جہاں ہر مذہب کے لوگ اپنے طریقے کے مطابق عبادت کر سکیں مگر یہ درخواست مسترد کر دی گئی۔ اس کے بعد پوپ بینڈیکٹ سے اپیل کی گئی مگر وہاں سے بھی یہی جواب ملا کہ یہ ممکن نہیں۔ اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ مسجد قرطبہ کو کیتھڈرل میں تبدیل کر کے مکمل طور پر گرجا گھر کی انتظامیہ کے حوالے کر دیا جائے۔

مجھے تعجب ہے کہ بامیان میں بدھا کے مجسمے گرائے جانے پر اُدھم مچانے اور بریکنگ نیوز سنانے والے میڈیا کو 12صدیوں کی تاریخ منہدم کئے جانے کی خبر میں کوئی دلچسپی نہیں۔ کہیں کوئی چھوٹا سا مندر ،کوئی کلیسا ،کوئی گرجا ،کوئی گردوارہ گرا دیا جائے تو دنیا بھر میں بھونچال آجاتا ہے مگر اس تاریخی مسجد کو چرچ میں تبدیل کئے جانے پر کسی کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی۔ مجھے اندلس جا کر مسجد قرطبہ میں نماز پڑھنے کا شرف تو حاصل نہیں ہوا مگر میرا خیال ہے مسجد قرطبہ کے مینار فضا میں ابھرتے ہوں گے اور کہتے ہوں گے، مسلمانو! تم کہاں ہو؟اندلس کی مسجد قرطبہ تمہاری منتظر ہے۔آج ہم لخت لخت ہیں،کمزور و ناتواں ہیں،فرانسیسیوں کی طرح اسپین پر چڑھائی نہیں کر سکتے لیکن کیا ہماری زبانیں بھی گنگ ہو گئی ہیں؟ کیا ہمارے ہاتھ شل ہو گئے ہیں؟ کیا ہمارے دماغ بھی مائوف ہو گئے ہیں؟ کیا ہمارے اذہان و قلوب پر مہریں لگ گئی ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو آپ اس ناانصافی کے خلاف آواز بلند کیوں نہیں کرتے؟ کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کراچی، اسلام آباد یا لاہور کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔ آپ اور کچھ نہیں کر سکتے تو انٹرنیٹ سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ،پاپائے روم ،ہسپانوی صدر اور وزیراعظم کا ایڈریس اور ای میل آئی ڈی معلوم کریں اور خط لکھ کر یا ای میل کر کے اس فیصلے پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں۔

محمد بلال غوری
بشکریہ روزنامہ “جنگ

Enhanced by Zemanta

مرحبا سعودیہ!


ڈالر نیچے آ گیا ہے اور ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی شہرت بام عروج کو چھو رہی ہے۔ مگر اصل کمال تو ہمارے برادر اسلامی ملک سعودی عرب کا ہے جس نے کسی شرط کے بغیر پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر دینے کااعلان کر دیا اور اطلاعات کے مطابق آدھی رقم سٹیٹ بنک میں جمع کرائی جا چکی ہے، ابھی اور پیسے آنے ہیں اور ڈالروں کا نیا ڈھیر تین ارب کی حد کو چھونے والا ہے۔

میں رپورٹر ہوتا تو سب سے پہلے یہ خبر دینے کا اعزاز حاصل کرتا مگر ایک کالم نویس کی حیثیت سے گزشتہ بدھ کو شائع ہونے والا میرا کالم بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا۔ اصل میں گزشتہ ہفتے میری ملاقات اپنے راوین دوست اور سٹیٹ بنک کے ڈپٹی گورنر سعید احمد کے ساتھ ایم ایم عالم روڈ کے ایک پوش ہوٹل فریڈیز میں ہوئی۔ وہاں چھ دوست اور بھی موجود تھے اور سب کے سب ایک دوسرے سے چوالیس برس بعد مل رہے تھے ، گورنمنٹ کالج سے نکلنے کے بعد کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا ،والی صورت حال تھی، اب زندگی آخری موڑ پر ہے اور ہر ایک کو پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ہوش آئی ہے۔

دوستوں کی اس محفل میں کچھ کو تو چائے پیتے ہوئے پتہ چلا کہ سعید احمد کس اعلی منصب پر فائز ہیں۔ چائے پی کر باہر نکلے تو پھر یہ عقدہ کھلا کہ یہ ہوٹل بھی ہمارے ایک کلاس فیلو زاہد کبیر کی ملکیت ہے، سو اس کا شکریہ کہ اس نے دوستوں کی یہ محفل سجائی۔خواجہ عرفان انور بھی اس منڈلی میں موجود تھے، وہ خواجہ خورشید انور کے صاحبزادے ہیں، امریکہ میں رہتے ہیں،ان سے تفصیلی ملاقات کا احوال پھر سہی! چار عشروں کی باتیں پھیلتی چل گئیں، پتہ ہی نہ چل سکا کہ کس وقت سہہ پہر ،شام میں ڈھل گئی اور باہر نکلے تو گھنے بادل شہر پر برس چکے تھے اور رات نکھری ہوئی تھی۔ سونے کی تیاری کرنے لگا تو سعید صاحب کا فون آ گیا کہ ڈالر نیچے آ گیا ہے، ان سے کافی معلومات ملیں اور انہی کی بنیاد پر اگلے روز میں نے ڈالر کا بھونچال کے عنوان سے کالم لکھا۔ ڈالر بعد میں مزید گرا اور گرتا چلا گیا۔ تو یار لوگوں نے اس کی وجوہات کی ٹوہ میں جانے کی کوشش کی۔ یہ راز جلد کھل گیا کہ امریکی ڈالر کی صحت کی خرابی کی وجہ سعودی ڈالر ہیں۔ میرے کالم میں ڈیڑھ ارب سعودی گرانٹ کی خبر موجود تھی مگر میں نے اسے جان بوجھ کر نہیں اچھالا کہ نیکی کرنے والا خود ڈھنڈورا نہیں پیٹنا چاہتا تھا۔

اب ہر طرف سے سوالات کی بوچھاڑ ہے، سوال وہی ہیں جو پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے سعودی دورے کے پس منظر میں پوچھے گئے، پھر سعودی مہمانوں کی لگاتار آمد کی وجہ سے ان سوالوں میں شدت پیدا ہو گئی۔ درمیان میں منور حسن اور مولانا سمیع الحق اچانک عمرے پر گئے تو عمر عیار کی زنبیل کی طرح مباحث نے تیزی پکڑ لی۔

بڑا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان نے سعودی عرب کے ڈالروں کی وجہ سے اپنی شام پالیسی میں تبدیلی کر لی ہے۔ اس سوال کا جواب دینے کے لئے ایک اور سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے دورے، ترکی کے زیادہ ہیں یا سعودی عرب کے، کبھی وزیر اعظم نوازشریف، کبھی خادم اعلی شہباز شریف اور کبھی ہمارے دوست کالم نگار اجمل نیازی استنبول میں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ شام کے مسئلے پر ترکی کا رویہ کیا ہے۔ ترکی نیٹو کا رکن ہے اور اس کے جیٹ طیارے، ٹینک اور توپیں جب چاہے ، شام کی سرکاری فوجوں کو نشانے پر رکھتی ہیں۔اسی ترکی کی میٹرو بس اور نجانے کتنے منصوبوں کا پھل ہم لاہور میں بیٹھے کھا رہے ہیں مگر ہم میں سے کسی نے ترکی پر اعتراض نہیں کیا کہ وہ شام کے حکمران بشارالاسد کا مخالف کیوں ہے۔ مگر اب سعودی عرب نے ہمیں یکا یک ڈیڑھ ارب ڈالر کی خطیر رقم عطیہ کر دی ہے تو ہمیں ایک دم بشارالاسد کی ہمدردی کا عارضہ لاحق ہو گیا ہے اور ہر کوئی شام کی خود مختاری کا فلسفہ بھگار رہا ہے۔ ہماری حکومت کو بھی نجانے کیوں احساس گناہ لاحق ہے اور اس کے ذرائع وضاحتیں کر تے پھر رہے ہیں کہ پاکستان نے سعودی امداد کے بدلے اپنی شام پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ ترکی صدیوں میں اتنی بڑی مدد نہیں کر سکتا جو سعودی عرب نے آن واحد میں پاکستانیوں کی ہتھیلی پر رکھ دی ہے۔

سعودی عرب ہماری امداد نہ بھی کرتا تو ہمیں اس کے اشارہ ابرو پر اپنی ہر پالیسی تبدیل کر لینی چاہئے، سعودی عرب سے دوستی اور محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم چوںچراں نہ کریں۔ کیا کبھی سعودی عرب نے ماضی میں ہماری پالیسیوں کو دیکھ کر ہماری مدد کا فیصلہ کیا تھا، کیا سوشلزم کا علم بردار بھٹو، شاہ فیصل کے لئے اس قدر عزیز نہ تھا کہ اس کی دعوت پر لاہور میں اسلامی کانفرنس کا اجلاس طلب کیا گیا ا ور شاہ فیصل نے بنفس نفیس ا س میں شرکت کی۔ کیا بھٹو کی مائو کیپ سے بدک کر سعودی عرب نے ہمارے ایٹمی پروگرام میں دامے درمے سخنے مدد دینے سے کبھی گریز کیا۔ سعودی عرب ہمیشہ پاکستان کے عوام کا دوست رہا، اس نے حکمرانوں کی شکلیں دیکھ کر اپنی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں کی، زرداری صاحب کا معاملہ الگ ہے کہ وہ خود سعودی عرب کو دور بھگانے کے چکر میں پڑے رہے۔ اب شریف برادران کی حکومت میں تو پاکستان کو سعودیہ کے تمام نخرے اٹھانے چاہئیں، مگر ہم نے الٹا سرد مہری دکھائی اور سعودی ولی عہد کو دفاعی ضروریات کے لئے نئی دہلی جانا پڑا۔اس سعودی عرب نے صرف شریف بردران کی ہی میزبانی نہیں کی، ذرا حساب لگا لیجئے کہ کتنے لاکھ پاکستانی خاندان سعودی عرب میں محنت مزدوری کرنے والے پاکستانیوں کی وجہ سے پل رہے ہیں، پل کیا رہے ہیں ، خوش حالی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اور پھر حرمین شریفین کو ہم کیسے فراموش کر سکتے ہیں، سعودی عرب پر آج اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ کرم ہے مگر یہ سرزمین چودہ سو برسوں سے ہمیں ڈالروں کے لئے تو عزیز نہیں تھی۔ ہم تو خدا کے گھر اور پیارے نبی ﷺ کے عشق سے سرشار قوم ہیں۔ ہماری مسجدوں میں دردو سلام کی محفلیں سجتی ہیں اور ہم ہر لمحہ حرمین کی زیارت کے لئے تڑپتے ہیں۔ تو حرمین شریفین کے خادمین بھی اسی طرح ہمارے لئے محترم اور لائق عزت ہیں۔ وہ ہمارے دکھ درد میں برابر کے شریک رہے ہیں، پہلی افغان جنگ کا بڑا خرچہ سعودیہ نے اٹھایا اور لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کے اخراجات کا بڑا حصہ سعودیہ نے برداشت کیا۔اب ہماری معیشت کو سدھارنے کا چیلنج درپیش ہے تو سعودیہ ایک بار پھر ہمارا ہاتھ تھامنے کے لئے پیش پیش ہے۔

میرا خیال ہے کہ ابھی تو شروعات ہیں، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا، سعودی عرب کا ادھار تیل آنے لگا تو ہمارے سب دلدر دور ہو جائیں گے۔ انشا اللہ! فی الحال وزیرخزانہ اسحا ق ڈار اور معزز سعودی سفیرڈاکٹرعبدا لعزیز ابراہیم صالح الغدیر کو پاکستان کے سب سے بڑے سول اعزاز سے نوازا جانا چاہئے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو تو ان کے کالج نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دے کر نواز دیا اور حمزہ میاں کو جلسے جلوسوں کا فن آتا ہے ، وہ ریس کورس میں ایک میلہ اور سجائیں اور پاک سعودی تعاون پر مرحبا سعودیہ! مرحبا سعودیہ! کے نعرے بلند کرنے کا ایک ریکارڈ بنائیں۔

اسد اللہ غالب
بشکریہ روزنامہ “نوائے وقت

Enhanced by Zemanta

والدین توجہ فرمائیں …!

کرسمس کے دنوں میں امریکہ بھر میں مشہور و مقبول نظم Jingle bells, jingle bells, Jingle all the way

(جِنگل بیلز جِنگل بیلز،جِنگل آل دا وے) کی گونج سنائی دیتی ہے۔ سکولوں میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو یہ نظم زبانی یاد کرائی جاتی ہے بلکہ بچہ جب ہوش سنبھالتا ہے تو کرسمس کے سیزن میں اس نظم کی دھن کے ساتھ جھومنے لگتا ہے اور وہ جب بولنا سیکھتا ہے تو اسے یہ دھن از بر ہو چکی ہوتی ہے۔ یہ مشہورو معصوم نظم جیمز لارڈ نامی رائٹر نے 1857ء میں لکھی تھی اور اس نے یہ نظم کرسمس کے موقع پر ایک چرچ میں گائی تو اسے بے حد پذیرائی ملی کہ اس نظم کو کرسمس کی علامت بنا دیا گیا۔ امریکہ میں مذہبی و ثقافتی تہواروں کے موقع پر مختلف نظمیں اور گیت لکھے گئے جو ان تہواروں کی پہچان بن چکے ہیں ۔انسانی نفسیات ہے کہ جب وہ کوئی گیت سنتاہے تو لا شعوری طور پر گنگنانے لگتا ہے۔بچے بھی موسیقی کے ساتھ جھومنے لگتے ہیں۔ انسان مو سیقی کا مثبت استعمال کرسکتا ہے۔بچے دھن میں بنی نظمیں جلدی یاد کر لیتے ہیں ۔ہم نے ان باتوں کی طرف اس وقت دھیان دینا شروع کیا جب ہماری بیٹی مومنہ تین سال کی تھی اور اس نے سکول جانا شروع کیا تھا۔ اولاد کی دینی و اخلاقی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ماں پر عائد ہوتی ہے ۔ایک غیر مسلم معاشرے میں ایک مسلمان کے لئے اپنے بچے کو عقائد اقدار کی تعلیم و تربیت دینا ایک کٹھن آزمائش ہے بلکہ اس منزل سے کامیاب گزرنا ایک پل صراط ہے۔ بچے کی نفسیات چار سال کی عمر میں مکمل ہو جاتی ہے اور ان چار سالوں میں وہ جو کچھ اپنے ماحول میں دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اسے اپنے دل و دماغ کے کمپیوٹر میں محفوظ کر لیتا ہے۔ تیس سال پہلے امریکہ آئے تو بچوں کے لئے پڑھائی کی جدید سہولیات اور مواد میسر نہ تھا۔کتابیں اور آڈیو کیسٹس کا زمانہ تھا جبکہ آج انٹر نیٹ نے تعلیم کو سہل بنا دیا ہے بلکہ انٹر نیٹ کو ہی بچوں کی اصل ماں سمجھا جاتا ہے۔ مغرب میں انگریزی میں تعلیم وزبان یہاں کے ماحول میں مل جاتی ہے جبکہ مشکل مرحلہ بچوں کو اسلامی تعلیم اور اردو زبان سکھانا ہے اور دینی و اخلاقی تعلیم و تربیت ماں کی ذمہ داری ہے۔ نادان ہیں وہ ماں باپ جو مغرب میں رہتے ہوئے اپنے بچوں کے ساتھ انگریزی زبان میں بات کرتے ہیں ، شاید بچوں کے بہانے خود انگریزی سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ انگریزوں میں رہ کران کی زبان سکھانے کی ضرورت نہیں بلکہ مادری ، عربی اردو جیسی اہم زبانیں سکھانے کے لئے محنت کرنی چاہئے۔ اسلامی کلمات اور دعائیں صرف ماں اور دینی ماحول سکھا سکتا ہے۔ بیٹی نے جب سکول جانا شروع کیا تو کرسمس کے دنوں میں ’’جنگل بیلز جنگل بیلز‘‘ نظم گنگناتی رہتی۔ اس معصوم نظم سے ہمیں کوئی مخالفت نہیں بلکہ اس سے ہمیں یہ سوچنے میں مدد ملی کہ کیوں نہ ننھی مومنہ کو اسلامی نظمیں یاد کرادی جائیں تا کہ دین و دنیا کی تعلیم میں توازن رہے لہذاہم نے برطانوی نژاد نومسلم یوسف اسلام المعروف مشہور پاپ سنگر کیٹ سٹیون کی کیسٹس خریدیں۔ یوسف اسلام نے بچوں کے لئے بہت خوبصورت نظمیں لکھی ہیں جن کی دھنوں کے ساتھ بچے جھومنے لگتے تھے اور یوں اٹھتے بیٹھتے انہیں اسلامی نظمیں یاد ہو جاتی ہیں۔ نبی کریمؐ کی مدینہ منورہ میں ہجرت کے موقع پر مدینہ کے لوگوں نے دف کے ساتھ حضور ؐ کے لئے ایک استقبالیہ نظم گائی۔ ’’ طلع البدر علینا، من ثنیات الوداع‘‘ عربی کی یہ وہ مشہور و مقبول نظم ہے جو پندرہ صدیاں گزر جانے کے باوجود اپنی مقبولیت میں ایک بلند مقام رکھتی ہے۔ہم یہ عربی نظمیں کیسٹس پر لگا دیتے، ہمارے بچے انگریزی نظموں کی طرح عربی نظمیں بھی یاد کرنے لگے اور اٹھتے بیٹھتے گنگنانے لگے۔ ’’طلع البدر علینا‘‘ مدینہ طیبہ کی اس استقبالیہ نظم کا پس منظر بچوں کوبتایا تو ان میںحضورؐ کی حیات طیبہ کی کہانیاں سننے کا شوق پیدا ہو گیا۔ برطانوی سنگر اور نو مسلم کیٹ سٹیون یوسف اسلام کی لکھی ایک مشہور اسلامی نظم

Alif is for Allah, nothing but Allah;

Ba is the beginning of Bismillah;

Ta is for Taqwa, bewaring of Allah;

and Tha is for Thawab, a reward;

(الف سے اللہ، با سے بسم اللہ، تا سے تقویٰ اور ث سے ثواب) نظم کو عربی کے مکمل حروف تہجی کے ساتھ انتہائی خوبصورت انداز میں لکھا اور گایا کہ بچوں کو ازبر ہو گیا اور اردو قاعدہ (الف انار، ب بکری، ت تختی) یاد کرنے میں بھی مشکل پیش نہیں آئی۔ دین و دنیا کی تعلیم ایک ساتھ جاری رہی، ذہانت و قابلیت میں مددگار ثابت ہوئی اور ہماری بیٹی اردو،پنجابی،عربی،فارسی،جرمن زبانیں پڑھنے لگی حتیٰ کہ فلسفہ اقبال پڑھنے کے لئے جرمنی گئی۔ پنجابی صوفیانہ کلام کا انگریزی میں ترجمہ کر کے اپنے امریکی دوستوں کو شیئر کرتی۔ امریکی یونیورسٹی میںفلسفہ اقبال ؒ پر ایک پیپر لکھا جس کو اس قدر پذیرائی ملی کہ بیس سال کی عمر میں ہماری بیٹی کو ڈیوک یونیورسٹی کی ایک اسلامی کانفرنس میں بحیثیت گیسٹ سپیکر مدعو کیا گیا ۔ مغربی تعلیم و ثقافت اور تہوار مسئلہ نہیں بلکہ تشویش دینی تعلیم و تربیت سے دوری ہے۔ تعلیم کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا بلکہ مسلمان بچوں کے ساتھ ان کے اپنے والدین انصاف نہیں کر رہے۔ انسان خواہ کسی ملک میں رہتا ہو ، انہیں اپنا کھویا ہوا وقار، اعتماد، نظریات، اخلاقیات اور عقائد اسی صورت میں واپس مل سکتے ہیں کہ وہ دین اور دنیا کی تعلیم میں توازن رکھیں ورنہ فرنگی کی اترن کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

   طیبہ ضیاءچیمہ ….(نیویارک)

Enhanced by Zemanta

سر زمین حرمین شریفین پر جان و دل قربان………Pakistan and Saudi Arabia Relations

یہ ایک جانفزا منظر نامہ ہے۔ ایک معزز سعودی مہمان جاتا ہے اور دوسرا تشریف لے آتا ہے، میں اسے رحمتوں کی پھوار سمجھتا ہوں۔ سعودی حکمران صرف پاکستان کے قلبی دوست ہی نہیں، حرمین شریفین کے خادم ہونے کی سعادت بھی اللہ نے انہیں عطا کر رکھی ہے، یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔
ولی عہد شہزادہ سلیمان کی آمد تو حد درجہ اہمیت کی حامل تھی۔ پاکستان نے انہیں خوش آمدید کہا، وزیر اعظم نے ہر قسم کے پروٹوکول کو بالائے طاق رکھا اور بنفس نفیس ان کا ایئر پورٹ پر استقبال کیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانیوں کی نظر میں سعودی مہمان گرامی کی قدرو منزلت کیا تھی لیکن سعودیہ کے اصل احسانات پاکستان پر ہیں، اس نے ہر آڑے وقت میں ہماری مدد کی۔ شاہ فیصل شہید نے تو بادشاہی مسجد کو اپنے آنسووں سے تر کر دیا تھا اور امت مسلمہ خاص طور پر کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لئے انہوں نے گڑ گڑا کر دعائیں مانگیں۔ پینسٹھ اور اکہتر میں پاکستان کو بھارتی جارحیت کا نشانہ بننا پڑا مگر سعودیہ نے ہمارے لئے دامن دل وا کر دیا۔ ملک کے دفاع کو مستحکم اور فول پروف بنانے کے لئے ہم نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی تو یہ سعودی عرب تھا جس نے دامے درمے سخنے ہماری مدد کا حق ادا کر دیا۔
عالمی میڈیا کہتا ہے کہ سعودیہ کو پاک فوج کی ضرورت ہے، مجھے اس دعوے کی حقیقت کا اندازہ نہین لیکن اگر ہمیں اپنی ساری فوج بھی سعودیہ میں ایئر ڈراپ کرنی پڑے تو اس میں ذرا بھی حیل و حجت سے کام نہیں لینا چاہئے، خدا نخواستہ ہم نہ بھی ہوں اور حرمین شریفین محفوظ و مامون ہوں تو اس کے لئے یہ کوئی بھاری قیمت نہیں، یہ سعودی سرزمین تھی جہاں سے نور کی کرنیں پھوٹی تھیں اور ان سے ساری دنیا بقعہ نور بن کر جگمگا اٹھی تھی، لہلہا اٹھی تھی۔
کہتے ہیں ہماری پچھلی حکومت سعودی فرمانروا کے ساتھ قربت برقرار نہ رکھ سکی، ہو سکتا ہے اس میں کوئی تساہل ہو گیا ہو، مگر ملکوں کے تعلقات حکومتوں کے مابین نہیں،عوام اور عوام کے مابین ہوتے ہیں اور ان میں سرد مہری کی کیفیت پیدا ہو بھی جائے تو محبت کی گدگدی دلوں میں یکبارگی بجلیاں دوڑا دیتی ہے، ویسے بھی جب تک اسلام آباد میں سعودی سفیر محترم موجود ہیں، فکر کرنے کی ضرورت نہیں، وہ ایک شفیق دوست اور بڑے بھائی کے طور پر سارے فاصلوں کو سمیٹ لیتے ہیں۔ بعض اوقات تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ سعودیہ کے نہیں، پاکستان کے سفیر ہیں کیونکہ انہیں ہمارے مفادات اور مسائل کی ہم سے زیادہ فکر ہوتی ہے، دو ہزار پانچ میں زلزلے نے تباہی مچائی، سعودی سفیر نے کہا کہ وہ نیا بالا کوٹ بساکر دیں گے۔ بعد میں دو مرتبہ ہولناک سیلاب نے قیامت برپا کی، سعودی سفیر بذات خود مصیبت زدگان تک پہنچے اور انکی دستگیری میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑا۔
میں سعودی مہمانوں کی آمدو رفت کو جنرل مشرف کے مقدمے کے ساتھ جوڑنے کے لئے تیار نہیں۔ ہمارے میڈیا نے بے پر کی اڑائی کہ مشرف اڑنچھو ہو جائیں گے مگر سب نے دیکھا کہ مشرف یہیں ہیں اور عدالتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ اور اگر بالفرض اس کیس میں سعودی عرب کوئی ثالثی کرتا بھی ہے تو ہمیں اس مداخلت کو اپنے گھر کی اصلاح اور بہتری کے لئے خوش آمدید کہنا چاہئے۔میں نہیں سجھتا کہ سعودیہ کوئی ایسا قدم اٹھائے گا جو پاکستان اور اس کے عوام کے لئے ناگوار ہو۔
اسلامی کانفرنس کا پلیٹ فارم ہو یا اقوم امتحدہ کا ادارہ ہو، پاکستان اور سعودی عرب نے ہمیشہ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی کوشش کی ہے، اس وقت امریکہ کی کوشش ہے کہ سعودیہ کے اثرو رسوخ کو کم کردیا جائے،اس پر ایران کو مقدم سمجھا جا رہا ہے، اصولی طور پر امریکہ کو ایران سے اچھے تعلقات استوا رکرنے کا حق حاصل ہے لیکن سعودی عرب کی قیمت پر ہر گز ایسا نہیں ہونا چاہئے اور ایران کا بھی فرض ہے کہ وہ امریکہ کی چالوں کو سمجھنے کی کوشش کرے اور اسلامی دنیا کے مرکز و منبع سعودی عرب کے مفاد کے خلاف امریکی دوستی کو جوتی کی نوک پہ رکھے۔ ایک اسلامی ملک ہونے کی حیثیت سے ہمارا مفاد مشترک ہے، بالا تر ہے۔
ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اسرائیل عالم عرب کے قلب میں ایک ناسور کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ گریٹر اسرائیل کے نقشے میں سعودی عرب کے مقامات مقدسہ کو شامل کیا گیا ہے، یہ ایک جارحانہ اور استعماری سوچ ہے، مدینہ منورہ پر تو صہیونی استعمار اپنا حق جتاتا ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں کون و مکان کی سب سے محترم ہستی محو استراحت ہیں، ان کے روضہ مبارک کے خلاف صہیونیوں نے ہمیشہ سازشیں جاری رکھیں، جن کو بر وقت ناکام بنا دیا گیا، ہمیں شہر نبی کی حفاظت کے لئے ہمہ وقت سینہ سپر رہنا چاہئے، اور اس کے لئے سعودی حکومت کو ہماری جس مدد کی ضرورت ہو، ہمیں کامل مستعدی اور خوشدلی سے فراہم کرنی چاہئے۔
ہمارا قبلہ اول اسرائیل کے قبضے میں ہے، فلسطینیوں کو یہاں سے بے دخل کر دیا گیا ہے، وہ پون صدی سے کیمپوں میں بھٹک رہے ہیں، مسلمانوں پر قبلہ اول کے دروازے بند ہیں، اپنی طرف سے تو امریکہ نے نئی صلیبی جنگ چھیڑ رکھی ہے، نائن الیون کے بعد جارج بش نے یہی کہا تھا ، اب ہمیں بھی جواب میں اپنی صف بندی کرنی چاہئے اور سعودی قیادت میں قبلہ اول کی آزادی اور فلسطینی ریاست کے قیام کی کامیاب کوشش کرنی چاہئے۔
پاکستان اور سعودیہ یک قالب و یک جان ہیں، ان کے مابین کوئی دوئی اور کوئی تفریق نہیں، ہمارے دکھ کو برادر سعودی عوام اپنا دکھ تصور کرتے ہیں تو ہمیں ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنا چاہئے۔ علاقائی معاملات ہوں، یا بین الاسلامی مسائل یا عالمی سیاست کا دھارا، ہماری سوچ مشترک، ہمارا عمل مشترک، ہمارے فیصلے مشترک اور ہماری راہ عمل مشترک۔ خبردار! کوئی اس میں دراڑ نہ ڈالنے پائے۔ ہمارے جان و دل سرزمین حرمین شریفین پر نثار، ہزار بار!!
بشکریہ روزنامہ ‘ نوائے وقت ‘
Pakistan and Saudi Arabia Relations

Enhanced by Zemanta