نیویارک کی معروف سڑک کو بانی پاکستان کے نام سے منسوب کر دیا گیا

نیویارک کی معروف سڑک کونی آئی لینڈ ایونیو کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔ خبر ایجنسی کے مطابق کونی آئی لینڈ ایونیو کو محمدعلی جناح وے کا نام دیا گیا ہے۔ نیویارک سٹی کونسل میں قائد اعظم محمد علی جناح کے نام سے اس سڑک کو منسوب کرنے کی قرار داد اکثریتی ووٹ سے منظور کر لی گئی۔ نیویارک سٹی کونسل میں قرار داد رکن جومین ولیمز نے پیش کی تھی، پاکستانیوں کی اس علاقے میں اکثریت ہونے کی وجہ سے نیویارک کے کونی آئی لینڈ کو لٹل پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ محمدعلی جناح وے کی افتتاحی تقریب جنوری میں متوقع ہے۔

بیٹی کی محبت اور قائداعظمؒ کا اسلامی اقدار سے لگاؤ

بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی اکلوتی صاحبزادی دینا واڈیا 98 برس کی عمر میں نیو یارک میں انتقال کر چکی ہیں۔ ان کی وفات کی خبر سن کر ذہن ایک بار پھر ماضی کے جھروکوں میں چلا گیا ہے۔ یہ 1918ء کا زمانہ ہے اور مسلمانان برصغیر غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہندوستان میں اسلامی نشاۃ ثانیہ کے دور کا آغاز ہو چکا ہے ۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ ، علامہ محمد اقبالؒ و دیگر مسلم رہنما مسلمانان ہند کو حصول آزادی کیلئے تیار کر رہے ہیں۔ مختلف سیاسی تحریکیں بھی زوروں پر ہیں اور قائداعظم ؒ اہم تقریبات میں شریک ہو کر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات سے ملاقات کر رہے ہیں ۔

انہی تقریبات کے دوران پارسی خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی رتن بائی قائداعظم محمد علی جناحؒ کی محبت میں گرفتار ہو گئی۔ رتن بائی نے قائداعظمؒ کو شادی کا پیغام بھجوایا لیکن قائداعظمؒ نے ایک غیر مسلم لڑکی کے ساتھ شادی کرنے سے صاف انکار کر دیا ۔ رتن بائی قائداعظمؒ کی طلسماتی شخصیت میں پوری طرح گرفتار ہو چکی تھی لہٰذا انہوں نے شادی سے قبل اسلام قبول کر لیا اور ان کا اسلامی نام مریم رکھا گیا ۔ 1918ء میں قائد اعظمؒ اور مریم جناح شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ شادی کے ایک سال بعد 1919ء میں ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام دینا جناح رکھا گیا۔ قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ اپنی مصروفیات کے باعث بیوی اور بیٹی کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے تھے۔

مریم جناح 1929 ء میں صرف 29 سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ اس وقت قائد اعظمؒ کی بیٹی دینا جناح کی عمر صرف دس سال تھی۔ قائد اعظمؒ اپنی اکلوتی بیٹی سے بہت پیار کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناحؒ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ دینا کی اسلامی تعلیم و تربیت کا بندوبست کریں۔ دینا کو قرآن پاک پڑھانے کا اہتمام بھی کیا گیا۔ یہ تحریک پاکستان کے عروج کا دور تھا اور قائد اعظمؒ آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے تحریک پاکستان کو آگے بڑھانے میں مصروف تھے۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ بھی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہنے لگی تھیں لہٰذا دینا جناح اپنے پارسی ننھیال کے زیادہ قریب ہو گئیں۔

پھر ایک دن قائد اعظمؒ کو پتا چلا کہ ان کی بیٹی ایک پارسی نوجوان نیول واڈیا کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہیں۔ قائد اعظمؒ نے اپنی بیٹی کو ایک غیر مسلم کے ساتھ شادی کرنے سے روکا۔ اس موضوع پر باپ بیٹی کے درمیان ہونیوالی گفتگو تاریخ کی کئی کتابوں میں محفوظ ہے۔ قائداعظمؒ نے اپنی بیٹی کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں لاکھوں پڑھے لکھے مسلمان لڑکے ہیں تم ان میں سے کسی بھی مسلمان لڑکے کے ساتھ شادی کر لو۔ جواب میں بیٹی نے باپ سے کہا کہ ہندوستان میں لاکھوں خوبصورت مسلمان لڑکیاں تھیں لیکن آپ نے ایک پارسی لڑکی سے شادی کیوں کی؟ قائد اعظمؒ نے جواب میں کہا کہ تمہاری ماں نے شادی سے قبل اسلام قبول کر لیا تھا لیکن بیٹی پر کوئی اثر نہ ہوا۔

وہ قائداعظمؒ جن کی آنکھ کے ایک اشارے پر کروڑوں مسلمان اپنی گردنیں کٹوانے کے لئے تیار تھے وہ اپنی بیٹی کی ضد کے سامنے بے بس ہو گئے اوربیٹی نے باپ کی مرضی کے خلاف شادی کر لی ۔ دینا واڈیا شادی کے بعد ممبئی منتقل ہو گئی تھیں ۔ پارسی نوجوان سے پسند کی شادی کرنے کے بعد دینا واڈیا کے اپنے والد سے تعلقات ہمیشہ رسمی رہے۔ قائداعظمؒ جس وقت شادی کے بندھن میں بندھے تھے ان کی عمر 42 سال جبکہ ان کی اہلیہ مریم جناح کی عمر 18 سال تھی۔ یہ محبت کی شادی تھی اور آپ کی اہلیہ کا نوجوانی میں ہی انتقال ہو چکا تھا اب قائداعظمؒ کے پاس اس محبت کی ایک ہی نشانی دینا واڈیا کی صورت میں موجود تھی ۔

قائداعظمؒ با اصول اور اسلامی اقدار پر کاربند رہنے والی شخصیت تھے لہٰذا انہی اسلامی اقدار کی پیروی کرتے ہوئے انہوں نے ایک غیر مسلم کے ساتھ شادی کرنے پر اپنی بیٹی سے منہ موڑ لیا اور اسلامیان ہند کی آزادی کیلئے اپنی زندگی وقف کر دی۔ تحریک پاکستان کے دوران قائداعظمؒ کے کچھ مخالفین نے کوشش کی کہ یہ سوال اٹھایا جائے کہ جس شخص کی بیٹی نے ایک غیر مسلم سے شادی کر لی وہ مسلمانوں کا لیڈر کیسے ہو سکتا ہے؟ لیکن برصغیر کے مسلمانوں کی اکثریت قائداعظمؒ کے ساتھ کھڑی رہی۔ قیام پاکستان کے بعد دینا واڈیا محض دو بار ہی پاکستان آئیں۔ پہلی دفعہ ستمبر 1948ء کو اپنے والد کے انتقال کے موقع پر وہ کراچی پہنچی تھیں اور کچھ وقت اپنی پھوپھو محترمہ فاطمہ جناحؒ کے ساتھ گزارنے کے بعد واپس ممبئی لوٹ گئی تھیں اور پھر نیویارک میں مقیم ہو گئیں۔

قیام پاکستان کے بعد دوسری بار وہ 2004ء میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے دورۂ پاکستان کے موقع پر یہاں آئیں۔ اس موقع پر دینا واڈیا نے کہا کہ میں محمد علی جناح کی بیٹی ہوں اور اپنے باپ سے آج بھی محبت کرتی ہوں اسی لئے اپنے بیٹے نسلی واڈیا اور پوتوں کے ساتھ اپنے باپ کے خواب پاکستان کو دیکھنے آئی ہوں لیکن میں اپنے باپ کے نام سے شہرت نہیں کمانا چاہتی۔ دینا واڈیا جب مزار قائد کے اندر گئیں تو اس دوران کسی فوٹوگرافر یا میڈیا کو اندر نہیں جانے دیا گیا، وہ تنہا باپ کی قبر پر کچھ لمحات گزارنا چاہتی تھیں۔

مزار قائد پر موجود مہمانوں کی کتاب میں انہوں نے اپنے جذبات ظاہر کئے، انہوں نے وزیٹر بک پر ایک جملہ یوں لکھا’’ یہ میرے لئے ایک دکھ بھرا شاندار دن تھا۔ ان کے خواب کو پورا کیجئے‘‘۔ پاکستان سے جاتے ہوئے ان کے آخری الفاظ تھے ’’ بابا کا دیس پیارا لگا‘‘۔ دینا واڈیا کے انتقال پر ممبئی میں واڈیا گروپ کے ترجمان کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ انہوں نے اپنے سوگواروں میں بیٹے نسلی این واڈیا جو واڈیا گروپ کے چیئرمین بھی ہیں اور بیٹی ڈیانا این واڈیا کو چھوڑا ہے۔ ان کے شوہر نویل واڈیا تھے۔

دینا نویل واڈیا سے شادی کے بعد ممبئی اور بعد ازاں اپنے خاندان سمیت امریکہ منتقل ہو گئی تھیں اور ایک عرصے سے وہیں مقیم تھیں۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو ہر والد کی طرح اپنی صاحبزادی سے بہت پیار تھا اور جب دینا جناح نے والد کی نافرمانی کرتے ہوئے پسند کی شادی کی تو انہیں بہت دکھ ہوا لیکن قائداعظمؒ نے اپنے اصولوں اور اسلامی اقدار کی پاسداری پر کوئی حرف نہیں آنے دیا ۔ انہوں نے اپنا مشن جاری رکھا اور 14اگست 1947ء کو اسلامیان ہند کو آزادی کی نعمت میسر آ گئی۔

شاہد رشید

زیارت ریذیڈنسی، اعلیٰ فن تعمیر کا شاہکار

زیارت ریذیڈنسی کو اس لئے اہمیت حاصل ہے کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے آخری دن یہاں گزارے ۔ لکڑی سے تعمیر کی گئی یہ رہائش گاہ اعلیٰ فن کی عکاس ہے ، عمارت کے اندر بھی لکڑی کا استعمال بہت خوبصورتی سے کیا گیا ۔ 8 کمروں پر مشتمل ریذیڈنسی میں 28 دروازے بنائے گئے ، قیام پاکستان کے بعد 1948 میں اس رہائش گاہ کی تاریخی اہمیت میں اس وقت اضافہ ہوا جب یکم جولائی کو قائد اعظم ناسازی طبیعت کے باعث یہاں تشریف لائے ۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے آخری دو ماہ دس دن اس رہائش گاہ میں قیام کیا۔ جس کے بعد اس رہائش گاہ کو قائد اعظم ریذیڈنسی کا نام دے کر قومی ورثہ قرار دیا گیا ۔

عمارت کے بیرونی چاروں اطراف میں لکڑی کے ستون ہیں ، پاکستان کے سو روپے کے نوٹ کے عقبی رخ پر اس کی تصویر موجود ہے ، ریذیڈنسی میں قائم کمروں میں ایک کمرہ محترمہ فاطمہ جناح اور ایک کمرہ قائد اعظم محمد علی جناح کے ذاتی معالج کا اور ایک کمرہ ان کے ذاتی معتمد کے لیے مختص تھا۔ ریذیڈنسی میں قائد اعظم کے زیر استعمال کمروں میں کئی تصاویر آویزاں ہیں جن میں قائداعظم محمد علی جناح کی بیٹی ، بہنیں اور بلوچستان کے قبائلی عمائدین اور دیگر سرکردہ شخصیات ان کیساتھ ہیں ۔

دو قومی نظریہ ہی درحقیقت نظریہ پاکستان ہے

تحریک پاکستان کا شمار دنیا کی عظیم ترین انقلابی تحریکا ت میں ہوتا ہے یہ تحریک برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کی آرزوؤں اور اُمنگوں کا مظہرتھی اس تحریک کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا اور یہ دو قومی نظریہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ قرآن وسنت کا نظریہ ہے اور اسلامی سیاست کا ایک اہم اُصول ہے۔ دوقومی نظریہ ہی درحقیقت نظریہ پاکستان ہے ۔ برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کو اپنی شناخت اور پھر دو قومی نظریہ کی بنیاد پر جداگانہ ریاست کی ضرورت یوں شدت سے محسوس ہوئی کہ ان کے ساتھ موجود ایک دوسرے نظریہ کے حامل افراد جو مسلمانوں کے توحید اور انسانی مساوات کے نظریہ حیات کے برعکس بت پرستی اور ذات پات کے قائل تھے، اس کے برعکس اس خطے میں بسنے والی ملت اسلامیہ اپنے قومی تشخص اور علیحدہ شناخت کو چھوڑنے کیلئے کسی صورت تیار نہ تھی ۔

سلطان شہاب الدین غوری نے بھی اسی دو قومی نظریہ کی بنیا د پر ہندو مسلم اختلافات کو ہمیشہ کے لئے طے کرنے کا طریقہ نکالا اور ہندو راجہ پرتھوی کو تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’برصغیر میں ہنددؤں اور مسلمانوں کی باہمی معرکہ آرائی کوہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کا واحد حل یہی ہے کہ برصغیر کے دریائے جمنا کوحد فاصل بنا کر تقسیم کر دیا جائے کہ مشرقی ہندوستان پر ہندوؤں اورمغربی ہندوستان پر مسلمانوں کا تصرف ہو جائے تا کہ دونوں قومیں امن وامان سے زندگی گزارسکیں ‘‘ یعنی ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اِسی نظرئیے کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے 22 مارچ 1940ء کو لاہورمیں ہونے والے مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس کے خطبہ صدارت میں برملا کہا کہ قوم کی خواہ کوئی بھی تعریف کی جائے مسلمان اس تعریف کے مطابق ایک قوم ہیں اور ان کا اپنا وطن ان کا اپنا علاقہ اوران کی اپنی مملکت ہونی چاہیے۔

ہم ایک آزاد و خود مختار کی حیثیت سے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن و اتفاق کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں ،ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم امن پسند اوراُمنگوں کے مطابق اور اپنے معیاراورنصب العین کومد نظر رکھتے ہوئے اپنی روحانی ،ثقافتی ، اقتصادی، سماجی اور سیاسی زندگی کو بہتر اور بھرپور طریقے سے ترقی دے سکے۔ دو قومی نظرئیے کا تعلق صرف برصغیر سے ہی نہیں بلکہ یہ نظریہ پورے کرۂ ارض سے عبارت ہے۔ اس نظریہ کے تحت ہم دنیا کو مسلم اور غیر مسلم میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ علامہ اقبال نے بھی دو قومی نظریہ کے حوالے سے دو ٹوک اندازمیں بات کرتے ہوئے کہا ’’مغربی ممالک کی طرح ہندوستان کی یہ حالت نہیں کہ اس میں صرف ایک ہی قوم آباد ہو، وہ ایک نسل سے تعلق رکھتی ہو اور اس کی زبان بھی ایک ہو، ہندوستان مختلف اقوام کا وطن ہے جن کی نسل، زبان ،مذہب سب ایک دوسرے سے الگ ہیں ۔

ڈاکٹرحاجی محمد حنیف طیب