Last Letter of Mullah Abdul Qadir From Jail to His Wife Before …

بسم اللہ الرحمان الرحیم 

میری بہت ہی پیاری رفیق حیات! السلام علیکم و رحمتہ اللہ! 

جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ عدالت کا مکمل فیصلہ لکھا جا چکا ہے یہ کل رات یا اس کے بعد کسی وقت بھی جیل کے گیٹ تک پہنچ جائے گا اس کے بعد جیل مینول کے مطابق یقیناً مجھے کال کوٹھری میں پہنچا دیا جائے گا۔ قرین امکان ہے کہ یہ حکومت کا آخری عمل ہے اس لیے وہ اس غیر منصفانہ عمل کو بہت تیزی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچائے گی۔ میرا خیال ہے کہ وہ رویو پیٹیشن کو قبول نہیں کریں گے، اگر وہ قبول بھی کر لیں تو اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ وہ اپنی دی گئی سزا کو بدل دیں البتہ یہ دوسرا معاملہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سازش میں اپنی چال چلے لیکن اس کا ابدی و دائمی قانون بتاتا ہے کہ ہر معاملہ میں دخل اندازی پسند نہیں کرتا۔

 ان جیسے لادینوں نے کئی پیغمبروں کو بغیر کسی جرم کے قتل کیا، نبی اکرم ﷺ کے کئی ساتھیوں جن میں خواتین ساتھی بھی شامل تھیں انہیں نہایت بے دردی کے ساتھ مارا گیا ان شہادتوں کے بدل میں اللہ تعالیٰ نے سچائی کے راستے میں آسانی پیدا کی اور اسلام کو فتح سے ہمکنار کیا۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے معاملے میں بھی ایسا ہی کرے گا۔انشاءاللہ کل بھارتی وزیر خارجہ نے نہ صرف عوامی لیگ کو داد دی بلکہ حسین محمد ارشاد پر دباؤ بھی بڑھایا ۔ اس نے جماعت ، شبر کے برسر اقتدار آنے سے بھی انہیں ڈرایا اس سے واضع ہوتا ہے کہ جماعت ، شبر سے اختلاف اور نفرت بھارت کے رگ و پے میں داخل ہو چکا ہے۔ یہ بات میں روز اول سے کہہ رہا ہوں۔

 ہمارے خلاف جو بھی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں وہ بھارت کی میز پر تیار کیے جاتے ہیں۔ عوامی لیگ اگر واپس ہٹنا بھی چاہے تو اب ان اقدامات سے پیچھے بھی نہیں مڑ سکتی کیونکہ اس بار وہ صرف بھارت کی آشیر باد سے ہی اقتدار میں آئی ہیں۔ یہاں بہت سے لوگ ہیں جو اصولوں اور اخلاق کی بات کر رہے ہیں۔ جس طریقے سے مجھ سمیت جماعت کو ایک مخصوص بنائے گئے سانچے میں ڈالا گیا ہے اور جس طریقے سے ملکی میڈیا حکومت کے ان غیر منصفانہ اقدامات کی حمایت و مدد کر رہا ہے ان حالات میں حکومت کی طرف سے اصول اور اخلاق کی بات کس منہ سے کی جا رہی ہےجبکہ عدالتی نظام اور ٹرائل خود جلاد بن چکا ہےاور معصوم لوگوں کی جان لینے کے شوق میں مخمور ہو چکا ہے۔ کسی بھی آزاد فطری ٹرائل اور انصاف کی توقع ایسے لوگوں سے نہیں رکھی جا سکتی۔مجھے بس ایک پچھتاوا ہے کہ میں اس قوم کو واضح انداز میں بتانے سے قاصر ہوں کہ کیسے بالکل غیر منصفانہ طریقے سے ہم اور بالخصوص میں نشانہ بنایا جا رہا ہوں۔ یہ کسی صورت ممکن نہیں ہے کیونکہ سارا میڈیا ہمارا مخالف ہے لیکن قوم اور دنیا بھر کے لوگ جانتے ہیں کہ سچ کیا ہے ۔ میری موت اس جبر کی اس حکومت کے خاتمے کا باعث بنے گی اور تحریک اسلامی کی ترقی کا موجب بنے گی کیونکہ یہی انصاف کی بات ہے ان شاء اللہ کل میں نے سورہ التوبہ کی آیت 17 سے 24 دوبارہ پڑھیں۔ آیت 19 میں واضح انداز میں لکھا ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال کے ساتھ جہاد کرنا، خانہ کعبہ کی خدمت اور حاجیوں کو پانی پلانے سے زیادہ افضل ہے۔ 

اس کا مطلب ہے کہ اللہ کے نزدیک اس کی راہ میں اس لیے لڑنا کہ اسلام کا نظام قائم ہو اور بے انصافی کے خلاف لڑنا، طبعی موت مرنےسےحد درجہ افضل و اعلیٰ ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی ذات مجھے جنت میں یہ افضل درجہ دینا چاہتی ہے تو میں بخوشی اس موت کو گلے لگانے کے لیے تیار بیٹھا ہوں۔ کیونکہ جلادوں کے ہاتھوں غیر منصفانہ موت تو جنت کا پروانہ ہے۔ 1966ء میں مصر کے ظالم حکمران ، کرنل ناصر نے سید قطبؒ، سید عبد القادرعدوہؒ اور دوسروں کو پھانسی گھاٹ پر چڑھا کر شہید کر دیا ۔ میں نے بہت سے لیکچرز میں یہ بات سنی جیسا کہ “تحریک اسلامی کے راستے میں ٹرائلزاورایذا رسانیاں”۔ ان لیکچرز سے بڑھ کر یہ بات کہ پروفیسر غلام اعظم میرے کاندھے پر اپنا بائیں ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کرتے ہیں کہ پھانسی کی رسی ان کاندھوں پر بھی پڑ سکتی ہے۔ میں آج بھی اپنا ہاتھ اپنےہی کاندھے پر پھیر کر وہی بات سوچتا ہوں اور خوشی محسوس کرتا ہوں ۔ اگر اللہ کی ذات آج تحریک اسلامی کی ترقی کا فیصلہ کر چکی ہے جو میری کامیابی ہے، اس جبر کی حکومت کے خاتمے کا فیصلہ کر چکی ہے تو جان لو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ جب نبی اکرم ﷺ شہادت کے اعلیٰ مرتبے کی بات کرتے تھے تو اپنی خواہش کا اظہار کرتے تھے کہ کاش انہیں بار بار یہ زندگی ملے اور بار بار اللہ کی راہ میں شہید ہوتے رہیں۔ وہ لوگ جو شہید ہو چکے ہیں وہ جنت کے اعلیٰ درجوں میں بیٹھ کر اللہ کےحضور اس خواہش کا اظہار کریں گے کہ یا خالق و مالک ہمیں ایک بار پھر اس دنیا میں بھیج تاکہ ہم ایک بار پھر تیری راہ میں شہید ہوں۔ اس سچی ذات کے الفاظ سچے ہیں اور اس کی طرف بھیجے گئے صادق ﷺ کے الفاظ بھی سچے ہیں اگر ان پر کوئی شک ہے تو ہمیں اپنے ایمان اور عقیدےپر شک کرنا چاہیے۔ 

اگر حکومت اپنے اس غیر منصفانہ قدم پر آگے بڑھ کر مجھے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیتی ہے تو ہو سکتا ہے میری نماز جنازہ ڈھاکہ میں کروانے کی اجازت نہ دی جائے۔ ممکن ہے کہ وہ میری آخری رسومات میرے گاؤں کی مسجد اور گھر میں کرنے کا انتظام کرے اگر پادمہ دریا کے پار رہنے والے مسلمان میری نماز جنازہ پڑھنا چاہتے ہیں تو انہیں اطلاع کر دو کہ وہ پہلے سے میرے گھر کے قریب آ جائیں۔ میں اس سے پہلے بھی آپ کو اپنی قبر کے بارے بتا چکا ہوں کہ اسے میری ماں کے قدموں میں بنایا جائےاور میری قبر پر کوئی فضول خرچی نہ کی جائے جیسے قبروں کے گرد فصیل بنا کر مقبرے بنائے جاتے ہیں اس کے بجائے یتیم لوگوں پر جتنا خرچ کر سکو کرو، ان خاندانوں کا خیال رکھو جنھوں نے اپنے آپ کو تحریک اسلامی کے لیے وقف کر دیا ہے، خاص طور پر جو خاندان اس ظالم حکومت کے خلاف اپنے بیٹے اس تحریک کو دے چکے ہیں، جن کے باپ گرفتار ہو چکے ہیں، جن کے بوڑھے سزاؤں کے حقدار ٹھہرے ہیں۔ جب بھی برُا وقت آئے تو سب سے پہلے ان خاندانوں کی خیر خیریت دیافت کرو۔ حسن مودود کی تعلیم کے فوراً بعد شادی کروا دینا اور اسی طرح نازنین کو بھی اس کے اصلی گھر بھیج دینا اے پیاری ، او پیاری! میں آپ کے اور اپنے بچوں کے بہت سے حقوق پورے نہیں کر سکا، مجھے معاف کر دینا صرف یہ سوچ کر معاف کر دینا کہ اللہ کے ہاں آپ کو اس کا اجر ضرور ملے گا ۔ 

میں اللہ کے ہاں دعا کرتا ہوں کہ جب آپ اپنے بچوں اور اس کے دین کی ذمہ داریاں پوری کر لیں تو ہمارے دوبارہ ملنے کی راہ پیدا فرما دے۔ اب دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کی ذرہ بھر بھی محبت میرے دل میں ہو تو مجھے اس سے دور کر دے اور میرے دل کو اپنے اور اپنے رسولﷺ کی محبت سے لبا لب بھر دے۔آمین ان شاء اللہ ہم جنت کی پگڈیوں پر دوبارہ ملیں گے۔ بچوں کو ہمیشہ حلال کمائی کی نصحیت کرتی رہنا، تمام فرض اور واجب کا خیال رکھنا خصوصاً نمازوں کا۔ اور تمام رشتہ داروں کو بھی یہی ترغیب دیتی رہنا۔ میرے باپ کو ہر ممکن آرام اور ہمدردی دیتی رہنا جب تک وہ زندہ رہے۔

آپ کا اپنا عبد القادر مولا  

Last Letter of Mullah Abdul Qadir From Jail to His Wife Before …

Enhanced by Zemanta

پاکستان سے وفاداری کا اقراری مجرم…

پاکستان کا ساتھ دینا شیخ مجیب الرحمن کی سپتری حسینہ واجد کے بنگلہ دیش میں لائق تعزیر ہے مگر کیا قائداعظم اور اس کے پیروکار میاں نوازشریف کے پاکستان میں بھی جرم قرار پا چکا ہے؟ ورنہ پاکستان سے وفاداری کے اقراری مجرم اکیانوے سالہ بزرگ مولانا غلام اعظم کو نوے سال قید کی سزا ملنے پر کوئی تو بولتا۔ وزیراعظم نوازشریف، مشیر خارجہ سرتاج عزیز، طارق کاظمی، وزارت خارجہ کا ترجمان اور حکمران مسلم لیگ کا کوئی عہدیدار؟ راجہ ظفر الحق، اقبال ظفر جھگڑا اور مشاہد اللہ خان میں سے کوئی ایک۔

لاڑکانہ میں کامیاب جلسے کے بعد جدید اور خودکار اسلحہ برداروں کے گھیرے میں پہلا انٹرویو دیتے ہوئے ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین نے میرے اس سوال کے جواب میں کہ ”جئے سندھ سے آپ کے اتحاد کا سبب کیا ہے؟“ کہا تھا ”ہم نے بہاریوں کے انجام سے سبق سیکھا ہے جو 1971ء میں بنگال قوم پرستوں کے بجائے پاکستان کا ساتھ دیکر کیمپوں میں اذیت ناک زندگی بسر کررہے ہیں“۔
مولانا غلام اعظم اور ان کے ساتھیوں عبدالقادرملا، دلاور حسین سعیدی، علی احسن مجاہد، محمد قمرالزمان، مطیع الرحمان نظامی، عبدالسبحان، اے کے ایم یوسف کا قصور بھی یہی ہے کہ جب بھارت کے مالی ، سیاسی، سفارتی اور فوجی تعاون سے مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریر برپا ہوئی، پاکستان سے وفا داری جرم ٹھہری اور آزادی و خودمختاری کا دفاع پاکستانی نوازی قرار پایا تو ان سرفروشوں نے اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے وطن سے وفاداری کے تقاضے نبھائے۔ غیر ملکی مداخلت کاروں اور ان کے پروردہ ایجنٹوں کا ساتھ دینے سے انکار کیا اور مادر وطن پر بھارتی ٹینکوں کا استقبال کرنے پر آمادہ نہ ہوئے کہ یہ ان کی حمیت، غیرت اور عقیدہ و نظریہ کے خلاف تھا۔

بجا کہ بنگلہ دیش کے قیام میں پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کی کوتاہ بینی اور عاقبت نااندیشی کا دخل تھا خواجہ ناظم الدین کی ناروا معزولی سے لے کر سینئر بنگالی جج کو وفاقی عدالت کا چیف جج نہ بنانے اور یہ منصب جسٹس منیر کو سونپنے تک غلطیوں کی طویل داستان ہے۔ بھٹو سے مل کر مجیب الرحمن کو اقتدار منتقل نہ کرنے کی یحییٰ خان حماقت اور فوجی آپریشن پر کلمہ شکر ادا کرنے کی بھٹوانہ روش نے بنگالیوں کو مشتعل کیا مگر مشرقی پاکستان میں غیر انسانی مظالم کی داستان بھارت کی تربیت یافتہ مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے خونخوار درندہ صفت کارکنوں نے رقم کی جن کے ہاتھ سے مجیب وطن بنگالیوں اور غیر بنگالیوں کی جان محفوظ رہی نہ مال نہ عزت و آبرو ۔ شرمیلا لاس، شریف الحق والیم اور پروفیسر سجاد حسین کی تحقیقی کتابوں میں ظلم کی یہ داستانیں رقم ہیں اور یہ پاک فوج کا پروپیگنڈہ نہیں۔ بنگلہ دیش کا قیام بھی بھارت کی باالواسطہ اور براہ را ست فوجی مداخلت اور سوویت یونین کے ساتھ مل کر تیار کردہ سازش کا نتیجہ تھا کبھی سب پروپیگنڈا ہے۔
مولانا غلام اعظم اور ان کے ساتھیوں نے 1971ء میں ایک غیرت مند پاکستانی شہری کی طرح اپنے وطن کو متحد رکھنے کے لئے جو جدوجہد کی وہ بین الاقوامی قوانین کے تحت جرم تھی نہ معیوب، عالمی برادری اور سعودی عرب جسے برادر اسلامی ممالک کے مشورے پر پاکستان نے بنگلہ دیش کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا تو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے شیخ مجیب الرحمن کا یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا کہ کچھ سرکردہ بنگالی رہنماؤں اور پاکستانی فوجی افسروں پر جنگی جرائم میں مقدمہ چلایا جائے۔ بعد میں بھی کسی بنگلہ دیشی حکومت نے گڑے مردے اکھاڑنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ مگر باسی کڑھی میں ابال اس وقت آیا جب حسینہ واجد حکومت اپنی بھارت نوازی، نااہلی اور ناقص طرز حکمرانی کی وجہ سے عوامی نفرت کا شکار ہوئی اور اپنے سیاسی مخالفین کے انتقام کو عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے میں عافیت نظر آئی جس ٹربیونل کو جنگی جرائم میں مقدمہ چلانے کا اختیار ملا اس پر عالمی برادری معترض ہے اور سزاؤں پر پوری دنیا میں تنقید ہورہی ہے البتہ پاکستان میں جماعت اسلامی کے سوا سب شانت ہیں کیونکہ حب الوطنی کی سزا بھگتنے والے ان رہنماؤں کا تعلق اتفاقاً جماعت اسلامی سے ہے اور سیاسی تعصب نے دیگر قائدین کو گنگ کردیا ہے۔
پاکستان اس وقت 1971ء کی صورتحال سے دوچار ہے فاٹا، بلوچستان اور کراچی میں چن چن کر وہ لوگ عسکریت پسندوں، علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں، تخریب کاروں کی گولیوں، بموں اور اذیت پسندانہ کارروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں جنہیں اپنے وطن سے پیار ہے اور جو پاکستان دشمن عناصر کے ساتھ اپنی آزادی، خودمختاری اور قومی مفاد پر سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں۔ فاٹا سے کراچی اور بلوچستان تک دشمنوں کا ہدف پاکستانیت ہے اور اس میں سول و فوجی کی کوئی تفریق نہیں۔ پاکستان کے حکمران، سیاستدان اور فوجی عہدیدار روزانہ عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ملک دشمنوں کے مقابلے میں ڈٹ جائیں۔ جذباتی عوام اب تک ڈٹے ہوئے ہیں مگر اندر سے خوفزدہ بھی کہ کہیں کل کلاں کو انہیں بھی بہاریوں اورجنگی جرائم کے ٹریبونل کے سامنے پاکستان کا ساتھ دینے پر موت اور عمر قید کی سزا پانے والوں کے انجام سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ عالمی سامراج کے آلہ کار انہیں اس انجام سے ڈراتے بھی رہتے ہیں۔
مولانا غلام اعظم کو نوے سال کی سزا ملنے پر حکمرانوں کی خاموشی قابل فہم ہے تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو، کی پٹی پڑھانے والے حاشیہ نشینوں نے قائداعظم کے وارثوں اور پیروکاروں پر جادو کردیا ہے مگرباقی سیاستدان، دانشور، انسانی حقوق کے علمبردار اور حب الوطنی کے ٹھیکیدار کہاں ہیں؟ پاکستان سے وفاداری بنگلہ دیش میں جرم ہے اور سزا موت یا عمر قید مگر پاکستان میں مجرمانہ خاموشی اور سنگدلانہ لاتعلقی سے نوجوان نسل، پاکستان کے لئے جان لٹانے پر آمادہ سرفروشوں کو کیا پیغام دیا جارہا ہے؟ یہی کہ خدانخواستہ کل کلاں کو بھارت ساختہ، امریکہ پرداختہ علیحدگی پسند، پاکستان دشمن اور دہشت گرد ٹولہ حملہ ٓاور ہوتو مزاحمت کے بجائے فاتحین کا استقبال کرو، گلے میں ہار ڈالو اور اپنی حریت فکر کے ترانے گاؤ تاکہ مولانا غلام اعظم اور ان کے ساتھیوں کے انجام سے دوچار نہ ہونا پڑے۔

بنگلہ دیش کا قیام عظیم المیہ تھا۔ پرویز مشرف اور آصف علی زرداری نے معافی مانگ کر 1971ء کے زخم مندمل کرنے کی کوشش کی مگر حسینہ واجد کا دل نہ پسیجا اب پاکستان سے وفا موجب سزا و تعزیر نہیں ہے تو ہماری خاموشی نیا ستم ڈھا رہی ہے۔ پاکستانی اشرافیہ خواہ وہ سیاسی ہو یا فوجی حال مست ہے یا مال مست، پاکستانیت پر ضرب بنگلہ دیش میں لگے یا فاٹا، کراچی اور بلوچستان میں اسے کوئی خاص پروا نہیں ورنہ اب تک بیانات کا طوفان فروری برپا ہوتا۔
ارشاد احمد عارف