سلطنت مغلیہ کا زوال : 1707ء سے 1748ء تک

خاندان مغلیہ کے کل پندرہ بادشاہ ہوئے۔ ان میں سے پہلے چھ طاقتور اور واقعی بادشاہ کہلانے کے مستحق تھے۔ مغلیہ خاندان کے ان زبردست بادشاہوں میں اورنگزیب آخری تھا۔ اس کے عہد میں سلطنت کی وسعت اتنی بڑھ گئی تھی کہ پہلے کسی مغل بادشاہ کے زمانے میں نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اورنگزیب کی سخت گیری نے جا بجا دشمن پیدا کر لیے تھے۔ سکھ، راجپوت اور مرہٹوں نے بغاوتیں کیں۔ اورنگزیب کی عمر کے آخری بیس سال میدان جنگ میں اس جدوجہد میں صرف ہوئے کہ مرہٹوں کی سرکوبی کی جائے مگر مرہٹے سرکش ہی رہے۔ اورنگزیب کا بڑا بیٹا بہادر شاہ کے لقب سے باپ کا جانشین ہوا، لیکن صرف پانچ برس سلطنت کرنے پایا تھا کہ مر گیا۔

اس کی وفات کے بعد سات برس کے عرصے میں تین بادشاہ دہلی کے تخت پر بیٹھے۔ بادشاہت کیا تھی، کٹھ پتلیوں کا تماشا تھا، کیونکہ امرائے دربار ایسا زور پکڑ گئے تھے کہ جسے چاہتے تھے، تخت پر بٹھاتے تھے اور جسے چاہتے تھے، تخت سے اتار کر قتل کرا دیتے تھے۔ اورنگزیب کی وفات کے 12 سال بعد یعنی 1719ء میں اسی خاندان کا ایک بادشاہ محمد شاہ تخت پر بیٹھا اور تیس برس یعنی 1740ء تک برائے نام بادشاہ رہا۔ اورنگزیب کی وفات کے کچھ عرصہ بعد ہر بڑے صوبے کا صوبہ دار بادشاہ کا رعب نہ مانتا تھا اور آپ ہی وہاں کا حاکم اور فرمانروا بن بیٹھتا تھا۔

صوبیدار بادشاہ کو کچھ روپیہ بھیجتے رہتے تھے لیکن جو دل میں آتا تھا، سو بھیجتے تھے۔ ظاہراً یہ لوگ ابھی تک بادشاہ کے ماتحت تھے، لیکن اصل میں بادشاہ صرف دہلی کا بادشاہ تھا۔ جس طرح صوبیدار بادشاہ کی حکومت سے نکل گئے تھے۔ اسی طرح نواب صوبیداروں کی ماتحتی سے آزاد ہو بیٹھے تھے۔ گو ابھی تک صوبیداروں کے ماتحت کہلاتے تھے۔ ان میں بڑے بڑے صوبیدار اور نواب یہ تھے۔ شمالی ہند میں اودھ کا صوبیدار اور بنگال اور بہار کا نواب اور جنوبی ہند میں حیدر آباد کا صوبیدار جو نظام الملک کہلاتا تھا اور کرناٹک کا نواب۔

ای مار سڈن

قاضی واجد : ٹی وی کا ایک بے مثال اداکار

سرکاری ٹی وی کا جب آغاز ہوا تو اسے شروع سے ہی بڑے شاندار اداکار میسر
آئے۔ ان میں محمد قومی خان علی اعجاز قمر چوہدری افضال احمد ظفر مسعود اور ایسے کئی اور نام لیے جا سکتے ہیں۔ سرکاری ٹی وی سے بہت سے اداکاروں نے شہرت پائی۔ ان میں بہت سے اداکار ایسے تھے جنہوں نے فلموں میں بھی کام کیا اور بہت شہرت حاصل کی ایک نام اور بھی ہے نہیں کبھی نظرانداز نہیں یا جا سکتا ان کا نام ہے قاضی واجد… قاضی واجد نے ریڈیو پر بہت کام کیا بلکہ انہیں پاکستان کی ریڈیو صنعت کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

ریڈیو پاکستان پر پچیس سال تک کام کرنے کے بعد وہ مستعفی ہو گئے اور ایک اداکار کی حیثیت سے اپنے فن کے جوہر دکھانے لگے۔ انہوں نے بے شمار ایسے ڈراموں میں کام کیا جو بے حد مقبول ہوئے۔ ان کے سب سے زیادہ مشور ڈراموں میں ’’خدا کی بستی‘ حوا کی بیٹی‘ پاگل تنہائیاں‘ پل دو پل‘ کرن کہانی‘ ننگے پائوں‘ شمع‘ سوتیلی‘ مہندی‘ دوراہا اور تنہائیاں‘‘ شامل ہیں۔ قاضی واجد کی اداکاری کی سب سے بڑی خوبی ان کے مکالموں کی برجستگی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے چہرے کے تاثرات بھی بڑے متاثر کن ہوتے ہیں انہوں نے ہمیشہ حقیقت کے قریب رہ کر اداکاری کی۔

وہ ایک ورسٹائل اداکار ہیں انہوں نے ہر طرح کے کردار ادا کیے۔ سلیم ناصر مرحوم کی طرح ان کے اداکاری میں بھی بڑی گہرائی تھی ان کو دیکھ کر لگتا تھا کہ واقعی وہ اداکاری کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں. ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کردار میں اتنے ڈوب جاتے تھے کہ لگتا تھا کہ یہ کردار ان کے لیے ہی لکھا گیا ہے۔ خدا کی بستی نے ظفر مسعود کی طرح انہیں بھی بہت شہرت دی۔ انہوں نے کمال کی اداکاری کی۔ شوکت صدیقی کے ناول پر لکھی گئی اس ڈرامہ سیریل کو سب سے پہلے بلیک اینڈ وائٹ میں پیش کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت رنگین ٹیلی ویژن کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ اس ڈرامہ سیریل میں ظہور احمد اور ذہین طاہرہ نے بھی بڑی شاندار اداکاری کا مظاہرہ کیا تھا لیکن سب سے ز یادہ ظفر مسعود اور قاضی واجد کی اداکاری کو پسند کیا گیا۔

خود ظفر مسعود نے بھی اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ قاضی واجد کے ساتھ کام کرنا آسان نہیں تھا۔ وہ بڑے اداکار ہیں پھر ان جیسے اداکار کے ساتھ کام کرنے کا اپنا ہی ایک مزا ہے۔ قاضی واجد کے بارے میں ایک اور بات کرنا ضروری ہے کہ ان کی اداکاری کو بھارت میں بھی بہت پسند کیا جاتا ہے۔ جس زمانے میں پونا انسٹی ٹیوٹ میں بھارتی ڈرامے دکھائے جاتے تھے اور پاکستانی ٹی وی اداکاروں کو بہت پسند کیا جاتا تھا تو ان میں قاضی واجد کا نام بھی شامل تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت میں پاکستانی ٹی وی اداکاروں کا ایک زمانے میں طوطی بولتا تھا جن اداکارائوں کو سب سے زیادہ پسند کیا جاتا تھا۔ ان میں فردوس جمال، عثمان پیرزادہ، ثمینہ پیرزادہ، روحی بانو، خالدہ ریاست، ننھا، کمال احمد رضوی، اسماعیل تارا، ماجد جہانگیر، راحت کاظمی اور کئی دوسرے اداکار شامل ہیں لیکن ان میں ایک نام قاضی واجد کا بھی تھا۔

قاضی واجد کے بارے میں بھارتی اداکار انیل کپور کا کہنا ہے کہ وہ قاضی واجد کی برجستہ اداکاری سے بڑے متاثر ہوئے۔ بعض اوقات مجھے یہ خیال آتا ہے کہ ان کے ادا کئے گئے کردار وہ ادا کرتے۔ اسی طرح جانی لیور سریش اوبرائے اور کرن کمار نے شہنائیاں میں ان کی اداکاری کو بہت پسند کیا۔ خاص طور پر جس طرح وہ اس ڈرامے میں بہروزسبزواری کو قباچہ کہہ کر بلاتے تھے وہ اتنا متاثر کن تھا کہ اس کی مثال کم ہی ملے گی۔ اس ڈرامے میں آصف رضا میر اور  شہناز شیخ نے بھی کام کیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے جتنی مقبولیت قاضی واجد کو ملی وہ بہت کم لوگوں کو ملتی ہے ’’خدا کی بستی‘‘ کے بعد یہ وہ ڈرامہ سیریل تھی جس میں قاضی واجد کا فن ایک بار پھر اوج کمال کو پہنچ گیا تھا۔ ان کے بارے میں دیگر پاکستانی اداکاروں کی رائے بھی بڑی زبردست ہے ان کا خیال ہے کہ قاصی واجد چھوٹی سکرین کا بڑا اداکار ہے۔ یہ وہ اداکار ہے جو ورسٹائل ہے اور مشکل سے مشکل کردار ادا کرنے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا۔

ویسے یہ بات حیران کن بات ہے کہ انہوں نے فلموں میں کام نہیں کیا فلمی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اگر وہ فلموں کی طرف آ جاتے تو ان کی کامیابی یقینی تھی جس طرح مرحوم شفیع محمد کو بھی بارہا کہا گیا کہ وہ فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائیں پہلے تو وہ فلموں ہی میں اداکاری کے مخالف تھے لیکن بعد میں وہ اس طرف آ گئے اور ان کا فلموں میں اداکاری کا فیصلہ کچھ اتنا غلط بھی نہیں تھا لیکن ان کی اداکاری کو فلموں میں بھی پسند کیا گیا خیر اس سوال کا جواب تو قاضی واجد ہی بہتر طور پر دے سکتے ہیں قاضی واجد کے مشہور ڈراموں میں’’ تنہا تنہا‘ دوراہا‘ میرے سانوریا کا انعام سوتیلی بے چینی یہ کیسی محبت ہے کنارا مل گیا ہوتا‘ شمع‘ ان کہی‘ کسک‘ پرفیوم چوک‘ تنہائیاں‘ ہوائیں‘ مرزا غالب بند روڈ پر‘ تعلیم بالغاں‘ دھوپ کنارے‘ آنگن ٹیڑھا‘ مہندی‘ شہہ زوری‘ بے باک‘ وہ رشتے وہ ناطے‘ خالہ خیراں‘ سدا سہاگن‘ تمہیں کچھ یاد ہے جاناں‘ آپریشن 1965ء اور پرچھائیاں‘‘ شامل ہیں۔ قاضی واجد اب ایک طویل عرصے سے ڈراموں میں کام نہیں کر رہے بہرحال ان کا کام داد کے مستحق ہے۔

عبدالحفیظ ظفر

مکلی کا تاریخی قبرستان اور شاہ جہانی مسجد

ٹھٹھہ کے تاریخی قبرستان ’’مکلی‘‘ کے تاریخی قبرستان میں پانچ لاکھ سے زیادہ
قبریں اور مقبرے موجود ہیں۔ اس شہر خموشاں میں بہت سے بزرگ، شہدا، ولی اور اللہ والے مدفون ہیں۔ قبرستان میں داخل ہوتے ہی یہاں کے مکینوں کے لیے فاتحہ پڑھی۔ یہاں آ کر دل کو سکون ملا۔ شہر خموشاں میں تھوڑی دیر گزار کر تاریخی شاہجہانی مسجد کا رُخ کیا اور یہاں جمعہ کی نماز ادا کی۔ رانا یوسف اور فاروقی صاحب خوبصورت اور مغلیہ فن تعمیر کا شاہکار مسجد اور اس کے بے شمار گنبدوں کو دیکھ کر دنگ رہ گئے۔

بدین کے قریب پہنچ کر 2011-12ء میں یہاں سیلاب کا دور یاد آگیا جب ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ بدین شہر مکمل طور پر پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ پانی کا سمندر عبور کر کے کشتیوں میں جا کر متاثرین کی خدمت کی تھی۔ 2011ء کے آخر میں بدین آنا شروع ہوئے اور اب چھ سال گزر چکے اہل سندھ کی مسلسل خدمت جاری ہے۔ کیمپ کے بعد زیر تکمیل کنواں دیکھنے گئے 250 فٹ سے زیادہ گہرائی والا بڑا کنواں دیکھ کر دل راضی ہو گیا۔

جھانک کر اس کنوئیں کی دور سے نظر آنے والی پاتال میں صاف پانی کے چمکتے ذرات دیکھ کر دل کو خوشی ہوئی۔ مگر دور تک نظر دوڑانے سے ایک دم چکر سا آگیا۔ سلام کنواں بنانے والوں پہ کہ انہوں نے بڑی مہارت کے ساتھ جان کی پرواہ کیے بغیر 250 فٹ نیچے اتر کر کنوئیں کی کھدائی کی۔ شفیق فاروقی صاحب کہنے لگے کہ ترکی کی ایک شاعرہ کہتی ہے کہ مجھے اس بات کا ہمیشہ ملال رہے گا کہ جوانی کی عمر بے مقصد گزار دی۔

لیکن اب جو باقی ہے وہ تیری نظر ہے۔ دعا ہے بقایا زندگی اے مالک دو جہاں! تیری یاد میں، تیری مخلوق خدا کی خدمت میں گزر جائے۔ شعر سنا کر درویش بولے کہ میرا حال بھی ترکی شاعرہ جیسا ہے اب میری بھی اب یہی خواہش ہے کہ باقی زندگی میں آپ لوگوں کے ساتھ مخلوق خدا کی خدمت میں گزار دوں۔ یہ کہتے کہتے وہ آبدیدہ ہو گئے ۔

ڈاکٹر آصف محمود جاہ