پاکستان میں ملالہ سے نفرت کیوں کی جاتی ہے؟

ان سوالات کا جواز یہ ہے کہ مغرب ہی نہیں ملالہ کے والد ضیا الدین صاحب بھی کافی ’’اسلام پسند‘‘ ہیں۔ اس کا اندازہ 31 مارچ 2018ء کے ’’دی نیوز‘‘ میں شائع ہونے والے انٹرویو کے ایک جواب سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ ملالہ کے والد سے پوچھا گیا کہ آپ کے زمانے اور آج کے دور میں کیا آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ملالہ کے والد نے جو کچھ کہا انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ فرماتے ہیں۔

“There is huge differnce. When I was growing up as a child like her, we were reading ‘dineeyat’ which was about all faiths. After Zia came, it turned into Islamiyaat. Gradually radicalization grew as I grew older. We became less tolerant, less accommodating for difference of opinion and also we lost some peaceful regions in our country like Swat Valley. In my youth days, we could walk freely in the streets and mountains of Swat at midnight. It was the most peaceful place in the world. But later, when Malala was growing up in 2005, we lost that paradise.”

ملالہ کے والد صاحب فرما رہے ہیں کہ ہمارے زمانے میں ’’دینیات‘‘ پڑھائی جاتی تھی جو تمام عقائد یا مذاہب سے متعلق تھی۔ اس وقت تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ پھر جنرل ضیا الحق آ گئے اور انہوں نے دینیات کی جگہ ’’اسلامیات‘‘ پڑھانی شروع کر دی اور اسلامیات کی وجہ سے شدت پسندی یا Radicalization پھیلی۔ عدم برداشت میں اضافہ ہوا اور ہم اختلاف رائے کو کم برداشت کرنے والے بن گئے۔ یعنی ملالہ کے والد کے مطابق ایک خرابی جنرل ضیا نے کی مگر ان سے بھی زیادہ بڑی خرابی ’’اسلامیات‘‘ تھی۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام اور اسلامیات کی کھلی ’’توہین‘‘ ہے۔

بدقسمتی سے ’’پاکستان کی بیٹی‘‘ کے ’’پاکستانی والد‘‘ نے جو کچھ کہا ہے وہ خلاف ’’حقیقت‘‘ بھی ہے۔ ہندوستان میں دس بیس لاکھ نہیں 25 کروڑ مسلمان آباد ہیں مگر ہندوستان کے کسی اسکول، کسی کالج اور کسی یونیورسٹی میں انہیں اسلام یا اسلامیات نہیں پڑھائی جارہی۔ یورپ میں اب 5 کروڑ مسلمان آباد ہیں مگر یورپ کے کسی ملک کے کسی بھی اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں مسلمانوں کے ’’Faith‘‘ کی تعلیم کا کوئی اہتمام نہیں کیا جا رہا۔ امریکا میں بھی یہی صورت حال ہے۔ مگر ملالہ کے والد چاہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ’’تمام طلبہ‘‘ کو بیک وقت اسلام، ہندوازم یا عیسائیت بدھ ازم اور سکھ ازم پڑھایا جائے۔ ان کی نظر میں یہ ’’دینیات‘‘ کی تعلیم ہو گی۔

مگر جو کام ساری دنیا میں نہیں ہو رہا وہ پاکستان میں کیسے ہو گا ؟ دوسری بات یہ کہ پاکستان میں ہندوؤں، عیسائیوں دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد ہی کیا ہے؟ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان چاہے بھی تو اس کے پاس دینیات کی تعلیم کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ چوتھی بات یہ کہ جس طرح بھارت کے 25 کروڑ مسلمان اپنے بچوں کو اپنے گھروں میں مدارس میں اسلام سکھا رہے ہیں پاکستان کی اقلیتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے گھروں اور مذہبی اسکولوں میں اپنے بچوں کو اپنا مذہب پڑھا لیں۔ یہ ایک سفید اور تاریخی جھوٹ ہے کہ جنرل ضیا اور اسلامیات سے معاشرے میں شدت پسندی پیدا ہوئی۔

سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں دس سال تک جہاد ہوتا رہا مگر دس برسوں میں کبھی پاکستان میں مجاہدین نے ’’پٹاخہ‘‘ بھی نہ پھوڑا حالاںکہ افغانستان میں 15 لاکھ مسلمان شہید اور 15 لاکھ زخمی ہو چکے تھے۔ افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا کے بعد پانچ سال تک افغانستان میں خانہ جنگی ہوتی رہی مگر کبھی اس خانہ جنگی کی آواز تک پاکستان میں نہ سنی گئی۔ پانچ سال تک طالبان افغانستان میں حکومت کرتے رہے مگر اس دوران بھی پاکستان میں شدت پسندی رپورٹ ہوئی، نہ خود کش حملے ہوئے، یہ مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب جنرل پرویز نے ایک ٹیلی فون کال پر اپنا قبلہ اپنے دوست اور اپنے دشمن بدلے۔

ملالہ کے والد کو اس بات کا تو بہت ’’ملال‘‘ ہے کہ سوات انتہا پسندوں کے قبضے میں چلا گیا، مگر ملک کا سب سے بڑا، سب سے جدید شہر اور پاکستان کی معاشی شہہ رگ کراچی 30 سال تک سیکولر ایم کیو ایم کے ہاتھوں یرغمال بنا رہا اس کا ماتم نہ امریکا کرتا ہے، نہ یورپ نہ جرنیل کرتے ہیں نہ سیکولر اور لبرل دانشور اور صحافی۔ حالاں کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے جبر اور مظالم کے مقابلے پر سوات کے انتہا پسندوں کا ’’جبر‘‘ اور ’’ظلم‘‘ بچوں کے کھیل سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ بہرحال ملالہ کے والد کے مذہبی خیالات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ملالہ کی کتاب میں رسول اکرمؐ کو صلی اللہ الہ وسلم کیوں نہیں کہا گیا تھا۔ ان حقائق کو دیکھ کر ’’اندھے‘‘ بھی یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ملالہ مغرب کی کیا ہیں؟۔

ملالہ پاکستان آئیں تو میرشکیل الرحمن کے انگریزی اخبار دی نیوز نے ان کی آمد پر اداریہ لکھا۔ حالاں کہ اداریہ کسی اہم قومی یا بین الاقوامی معاملے پر لکھا جاتا ہے۔ دی نیوز میں ملالہ کے حوالے سے دو بڑے بڑے مضامین شائع ہوئے۔ ایک مضمون میں ڈاکٹر ناظر محمود نے فرمایا ’’پیاری ملالہ تم عظیم ہو، اس لیے نہیں کہ تمہیں گولی ماری گئی اور تم بچ گئیں بلکہ اس لیے کہ تم پاکستان کا نیا چہرہ ہو۔ وہ چہرہ جو افغانستان سے ارجنٹائن اور نیوزی لینڈ سے زمبابوے تک پہچانا جاتا ہے۔ تم اس ملک اس ملک کے مردوں، خواتین اور بچوں کی ’’امید‘‘ ہو‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف شہرت بھی کسی کی عظمت کا سبب ہو سکتی ہے؟

دوسری بات یہ کہ مغرب کی ایجنٹ پاکستان کا ’’نیا چہرہ‘‘ کیسے ہو سکتی ہے۔ تیسری بات یہ کہ پاکستان کے لوگوں کی اُمید ان کا خواب، ان کا دین، ان کی تہذیب اور ان کی تاریخ ہے۔ ان چیزوں کے مقابلے پر ملالہ کیا پوری دنیا کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ معروف سیکولر صحافی غازی صلاح الدین نے مارشل میک لوہن کے مشہور زمانہ فقرے Medium is the message سے استفادہ کرتے ہوئے Malala is the message کے عنوان سے کالم ٹھونکا۔ اتفاق سے ہم بھی مغرب کے تناظر میں ملالہ کے حوالے سے یہی کہہ رہے ہیں۔ Malala is the message۔ غازی صلاح الدین نے اپنے کالم میں لکھا کہ ایک تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ پاکستان میں Face book page پر 60 فی صد لوگ ملالہ کو ناپسند کرتے ہیں اور 40 فی صد پسند فرماتے ہیں۔

غازی صلاح الدین آئے دن جمہوریت جمہوریت کرتے ہیں۔ اسی تناظر میں انہیں ملالہ کے سلسلے میں ’’اکثریت کی رائے‘‘ کا احترام کرتے ہوئے تسلیم کر لینا چاہیے کہ ملالہ واقعتاً مغرب کی ایجنٹ ہیں اور صرف اسی لیے پاکستانی عوام کی عظیم اکثریت انہیں سخت پسند کرتی ہے۔ مگر اس ضمن میں غازی صلاح الدین نے جمہوریت پر تھوک دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہمیں اس صورت حال کو بدلنا ہو گا۔ یعنی پاکستانیوں کی اکثریت کو ملالہ کا عاشق بنانا ہو گا۔ تجزیہ کیا جائے تو غازی صاحب کے تجزیے سے بھی مغرب اور اس کے ایجنٹوں کی اسلام دشمنی، جمہوریت پسندی اور ان کی سیاست ظاہر ہو رہی ہے۔ اب آپ سمجھے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ملالہ سے نفرت کیوں کی جاتی ہے؟۔

شاہنواز فاروقی

معاملہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ سے آگے بڑھ گیا

 کچھ عرصہ قبل مغربی ثقافت اور سوچ کو یہاں پھیلانے کے لیے کام کرنے والی کچھ این جی اوز نے پاکستان کے چند اہم شہروں میں خواتین کے حقوق اور اُن کی آزادی کے نام پر ایک مظاہرہ کا انعقاد کیا۔ اس مظاہرہ کے ذریعے پیغام دیا گیا کہ عورت مکمل آزاد ہے اور وہ اپنے فیصلوں کے لیے کسی مرد چاہے وہ باپ ہو، بھائی یا شوہر کسی کے زیر اثر نہیں۔ اس مظاہرہ کا اہم نعرہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ تھا۔ اس نعرہ نے سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سے لوگوں کی توجہ حاصل کی اور بڑی تعداد میں پاکستانیوں نے اپنے غم و غصہ کے ساتھ ساتھ تعجب کا اظہار کیا کہ یہ کون سی تعلیم دی جا رہی ہے اور یہ کیسے حقوق کی بات کی جا رہی ہے جن کا نشانہ شرم و حیا کے ساتھ ساتھ ہماری اسلامی و معاشرتی اقدار ہیں تاکہ مغرب کی طرح پاکستان میں بھی بے راہ روی کو پھیلا کر اس کو فری سیکس سوسائٹی بنایا جائے۔

اس مظاہرہ کے انعقاد کے ایک دو ہفتوں کے بعد پاکستان کے ایک انگریزی اخبار نے ایک خبر شائع کی جسے پڑھ کر محسوس ہوا کہ کس طرح پاکستان میں بے شرمی اور بے غیرتی کو بڑھانے کے لیے انتہائی منظم انداز میں کام ہو رہا ہے اور ہم بے فکر ہو کر بیٹھے ہیں۔ خبر بہت خطرناک تھی لیکن اس کو بھی عمومی طور پر نظر انداز کیا گیا۔ خبر کے مطابق رضامندی سے زنا کو جائز قرار دینے کے لیے اقوام متحدہ کی ایک تنظیم کی سفارشات کو پاکستان نے رد کرنے کی بجائے ’’Noted‘‘ لکھا جس کا (خبر کے مطابق) مطلب یہ ہے کہ پاکستان ان سفارشات پر غور کرے گا۔ ان سفارشات میں یہ لکھا ہے کہ ایسے قوانین جو بغیر شادی کیے نا محرم عورت اور مرد کے جسمانی تعلق یعنی زنا پر پابندی لگاتے ہیں اور اُنہیں غیر قانونی تصور کرتے ہیں ، اُنہیں ختم کر دیا جائے تاکہ زنا کو قانونی تحفظ حاصل ہو جائے۔

خبر میں وزارت خارجہ کے ذرائع کے حوالہ سے لکھا گیا کہ انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی پاکستان نے ان سفارشات جن کا حوالہ (The UPR Recommendations- 2017) ہے، کے بارے میں اقوام متحدہ میں اپنا ردعمل “noted” کر کے دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان ان سفارشات پر غور کرے گا۔ خبر کے مطابق ماضی میں بھی پہلے 2008 اور پھر 2012 میں اسی تنظیم نے کچھ دوسری متنازع سفارشات کے ساتھ ساتھ رضا مندی سے زنا کے عمل کو جائز قرار دینے کی تجاویز دیں تھیں لیکن دونوں مرتبہ پاکستان نے ان سفارشات کو صاف صاف مسترد کیا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ ہم ان تجاویز پر غور بھی نہیں کریں گے۔ لیکن اس بار ایسا کیا اور کیوں ہوا کہ پاکستان نے ایسے غیر اسلامی اور غیر اخلاقی عمل کو رد کرنے کی بجائے اس پر غور کرنے کا وعدہ کر لیا؟؟ اس بارے میں دفتر خارجہ میں بیٹھے افراد بھی حیران ہیں۔

ذرائع کے حوالے سے خبر میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ عمل ممکنہ طور پر پاکستان کو بدنام کرنے کی بھی سازش ہو سکتی ہے۔ اس خبر کی سنگینی کے باوجود اس پر ابھی تک کوئی ایکشن کہیں سے بھی نہیں لیا گیا اور نہ ہی کسی انکوائری کا حکم سامنے آیا ہے۔ چلیں ٹی وی چینلز سے تو کوئی کیا توقع رکھے کہ اس معاملہ کو اٹھائیں تاکہ ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور یہ بھی پتا لگایا جائے کہ آخر اس عمل میں کون کون شریک ہے اور اُن کا مقصد کیا تھا، لیکن حیرانگی اس امر پر ہے کہ ایک انگریزی اخبار میں اس خبر کے شائع ہونے کے باوجود حکومت کے کان میں جوں تک نہیں رینگی۔

جس روز یہ خبر شائع ہوئی اُسی روز میں نے اُسے سوشل میڈیا میں ٹیوٹر کے ذریعے بھی شیئر کیا اور خصوصی طور پر وزیر خارجہ خواجہ آصف، مریم نواز اوراحسن اقبال کی توجہ کے لیے اُن کے ٹیوٹر ہینڈل کو بھی لنک کیا لیکن کسی نے اس بارے میں کوئی ردعمل نہیں دیا۔ اس معاملہ کو اس کالم کے ذریعے اٹھانے کا مقصد ریاستی ذمہ داروں کی توجہ حاصل کرنا ہے تاکہ اس سازش کو بے نقاب کیا جا سکے اور یہ بھی پتا لگایا جا سکے کہ کون کون سی این جی اوز اس قسم کے ایجنڈے پر یہاں کام کر رہے ہیں اور اُن کے خلاف حکومت کارروائی کرنے سے کیوں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔

انصار عباسی

اسلام کو امریکا و یورپ کی پسند کے مطابق ڈھالنے کی کوششیں

اب تو اسلام کی وہ شکل دیئے جانے کی کوششیں ہو رہی ہیں جو امریکا و یورپ کو پسند ہو۔ اس کے لیے اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ایسے ’’اسلامی اسکالرز‘‘ کو بھی آگے لایا جا رہا ہے جو روشن خیال ہوں، لبرل ہوں۔ ہمارے ہاں بھی چند ایک ایسے ’’اسلامی اسکالرز‘‘ موجود ہیں جو عورت کے پردے کو نہیں مانتے، جنہیں پاکستان کے آئین کی اسلامی دفعات بلخصوص قرارداد مقاصد پر اعتراضات ہیں، جو مغرب زدہ لبرلز اور سیکولرز کے پسندیدہ ہیں اور جنہیں فحاشی و عریانیت پھیلانے والے ہمارے چینلز بہت پسند کرتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے سرعام پھانسی دیئے جانے کے مسئلہ پر میٹنگ کے بعد جو پریس ریلیز جاری ہوئی وہ کافی confusing تھی۔ مجھے پڑھ کر محسوس ایسا ہوا جیسے اس پریس ریلیز کو جاری کرنے کا مقصد مغرب، مغرب زدہ این جی اوز اور پاکستان کی روشن خیال سوسائٹی اور میڈٖیا کو خوش کرنا تھا۔ اگرچہ اصل مسئلہ (سرعام پھانسی) پر پریس ریلیز خاموش تھی لیکن اُس میں یہ بیان کیا گیا کہ سزائوں کی شدت اور سنگینی کی بجائے سزا کی یقینیت کا اہتمام ہونا چاہیے۔ یہ پڑھ کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا سزائوں کی شدت سے کیا مراد اور پھر یہ بات پریس ریلیز میں بیان کرنے کی کیوں ضرورت محسوس ہوئی۔

میں نے کونسل کے کچھ اراکین سے بات کی جو خود حیران تھے کہ یہ کیا ہو گیا کیوں کہ سب کو معلو م ہے کہ اسلامی سزائوں کے بارے میں مغرب اور مغرب زدہ طبقہ کیا کہتا ہے۔ دوسری دن چند اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ کونسل نے سرعام پھانسی کی مخالفت کر دی۔ لیکن جب میری چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل سے بات ہوئی تو انہوں نے ان خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے بتایا کہ کونسل کو تو سینیٹ کی طرف سے صرف یہ پوچھا گیا تھا کہ کیا سرعام پھانسی دینے کے لیے موجودہ قوانین میں تبدیلی کی ضرورت ہے جس پر کونسل کا جواب یہ ہے کہ موجودہ قوانین کے مطابق سر عام پھانسی دی جا سکتی ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہاں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ سپریم کورٹ کا ایک پرانا فیصلہ ہے جس میں سرعام پھانسی پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ میں نے چیئرمین صاحب سے کونسل کی متنازع پریس ریلیز پر بھی بات کی اور امید ظاہر کی کہ اسلامی نظریاتی کونسل صرف اور صرف اسلام کی بات کرے گی۔ مجھے چیئرمین صاحب نے اس بات کا بھی یقین دلایا کہ اُن کی طرف سے جو جواب سینیٹ کو جائے گا وہ بلکہ واضع اور صاف ہو گا۔

انصار عباسی