میاں صاحب ! آپ کو کیوں لایا گیا؟

نواز شریف ایک بات پھر خطرناک ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر اُن سے اپنا غصہ نہیں سنبھل رہا اور وہ اب بھی اپنی گزشتہ تین حکومتوں کے خاتمہ کا احتساب چاہتے ہیں تو آگے رولا ہی رولا ہو گا۔ جبکہ میاں صاحب کی واپسی کے لیے سہولت کاری نہ ہی پرانے کٹے کھولنے اور پرانی لڑائیاں لڑنے کے لیے کی گئی اور نہ اُن کے لیے آئندہ انتخابات کا رستہ اس لیے ہموار کیا جا رہا ہے کہ ہم اُس تاریخ سے ہی نہ نکل سکیں جس نے فوج اور سول کے درمیان لڑائیوں کی وجہ سے ملک اور عوام کی حالت ہی خراب کر دی۔ موجودہ صورتحال میں جو بھی حکومت آئے گی اُس کے لیے ماسوائے معیشت کی بہتری، کاروباری حالات اور سرمایہ کاری کے فروغ، مہنگائی پر قابو پانے، زراعت، آئی ٹی، مائننگ اور دوسرے شعبوں میں ترقی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے بہترین گورننس کے علاوہ کوئی دوسری چوائس نہیں ہو گی۔ ڈیفالٹ سے ہم بمشکل بچے لیکن اگر ملک کو اس خطرے سے بچانا ہے اور معاشی مشکلات سے نکلنا ہے تو پھر میاں صاحب کو واقعی اپنا غصہ، اپنے ذاتی معاملات وغیرہ کو بھلانا پڑے گا۔

جو میاں صاحب کو لا رہے ہیں اُن کی بھی ساری توجہ اس وقت پاکستان کی معیشت، کاروبار، ٹیکس سسٹم وغیرہ کو درست کرنے پر ہے، کھربوں کا نقصان کرنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کو یقینی بنانا ہے تاکہ پاکستان معاشی طور پر استحکام حاصل کر سکے، ہماری ایکسپورٹس میں اضافہ ہو، یہاں کارخانے چلیں، ملازمتوں کے مواقع میں اضافہ ہو۔ شہباز شریف نے بحیثیت وزیراعظم آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ مل کر معیشت کی بہتری کے لیے ایک روڈ میپ کی بنیاد رکھ دی تھی، جس کا مقصد سب کو مل کر، فوکس ہو کر پاکستان کے معاشی حالات کو بہتر بنانا ہے تاکہ ہمارا انحصار بیرونی معاشی اداروں اور دوسری قوتوں پرسے ختم ہو سکے اور ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔ اگر میاں صاحب نے بھی واپس آ کر لڑنا ہی ہے تو پھر عمران خان کو بھی الیکشن لڑنے دیں، تحریک انصاف کا رستہ کیوں روکا جائے۔ پھر جو الیکشن جیتے اپنے اپنے بدلے لے۔

تحریک انصاف کو اس لیے روکا جا رہا ہے کہ اگر عمران خان الیکشن جیتتا ہے تو پھر اُس کا مطلب ہے کہ نئی حکومت کے آتے ہی فوج سے ایک نئی لڑائی شروع ہو جائے گی، جس کے نتیجے میں نہ یہاں سیاسی استحکام آسکے گا اور نہ ہی معاشی استحکام ممکن ہو گا۔ عمران خان کی فوج سے لڑائی جیسی بڑی غلطی نے نواز شریف کی واپسی کا رستہ ہموار کیا۔ اب اگر وہ اپنی پرانی غلطیاں دہرانا چاہیں تو اُن کی مرضی، تاہم ان کی اس روش سے نہ اُنہیں کچھ ملے گا نہ پاکستان کو اور نہ ہی عوام کو۔ اُن کے پاس یہ سنہری موقع ہے کہ فوج کی مدد سے پاکستان کی معیشت میں بہتری کے لیے دن رات کام کریں، گورننس کی بہتری پر توجہ دیں، مہنگائی پر قابو پائیں اور سب سے اہم بات یہ کہ عوام کو اپنے بہترین طرز حکومت سے اس طرح مطمئن کریں کہ لوگ جب حکومتی محکموں میں اپنے کام کے لیے جائیں تو اُن کے کام فوری ہوں، بغیر رشوت بغیر سفارش۔ اُنہیں دھکے نہ پڑیں، اُن کا احترام کیا جائے۔

پولیس، تھانے، کچہری، محکمہ مال، افسر شاہی، بجلی و گیس کے محکمے سب کو عوام کی خدمت کے لیے بدل دیں تاکہ ہمارے ہاں بھی عوام کے کام میرٹ کے مطابق Smooth طریقے سے ہوں۔ جو حکمران پاکستان کو صحیح معنوں میں بدلے گا عوام اُس کے ساتھ ہی ہوں گے، معیشت اچھی ہو گی، طرز حکمرانی بہترین ہو گا، عوام سرکاری محکموں کی خدمات سے خوش ہوں گے تو پھر اسٹیبلشمنٹ کو بھی سیاسی معاملات سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ کوئی اور شارٹ کٹ نہیں۔ میاں صاحب جو سپورٹ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مل رہی ہے اُس کو پاکستان اور عوام کے فائدے کے لیے استعمال کریں۔ اپنے غصے پر قابو پائیں اور جو موقع آپ کے لیے پیدا کیا جا رہا ہے اس کو ضائع مت کریں۔

انصار عباسی 

بشکریہ روزنامہ جنگ

قابل اعتماد اور عوام دوست رہنما ہے کون؟

رواں برس پنجاب اور خیبرپختون خوا میں دو نئی پارٹیوں کے قیام کے بعد ایک نئی قومی سطح کی پارٹی کے قیام کی باتیں ہو رہی ہیں اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی تو یہ خواہش ہے کہ نئی پارٹی ایسی ہو جو اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر اقتدارکی خواہاں اور اپنے طور پر اقتدار کے حصول کے قابل ہو، جس پر عوام بھی اعتماد کر سکیں۔ نئی پارٹی کے قیام کے لیے سب سے اہم بات وہ شخصیت ہو جس کی سربراہی میں پارٹی وجود میں آئے۔ اب تک ملک میں اہم شخصیات نے پارٹیاں بنائیں نہ برسر اقتدار بالاتروں کی خواہش پر پارٹیاں بنائی گئیں اور تین آمر سربراہوں، ایوب خان دور میں مسلم لیگ کنونشن، جنرل ضیا دور میں پاکستان مسلم لیگ اور جنرل پرویز مشرف دور میں مسلم لیگ قائد اعظم بنائی گئی تھیں۔ تینوں کے نام مسلم لیگ پر تھے۔ مسلم لیگ کنونشن جنرل ایوب دور ہی میں ختم ہو گئی تھی جس کے بعد مسلم لیگ کے تین بڑے گروپ جونیجو، نواز اور چٹھہ میں تقسیم ہوئے اور صرف مسلم لیگ (ن) ہی کی شناخت باقی ہے۔ مسلم لیگ (ق) چند علاقوں تک محدود ہے جس کے سربراہ چوہدری شجاعت طویل عرصے سے بیمار ہیں جس سے پرویز الٰہی گروپ الگ ہو کر پی ٹی آئی میں جا چکا ہے جو 9 مئی کے بعد تین حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔

پیپلز پارٹی بغیر گروپنگ آصف زرداری اور بلاول بھٹوکی سربراہی میں قائم ہے۔ مسلم لیگ (ن) سے (ش) نکالنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی اور مسلم لیگ (ن) نواز شریف کی قیادت میں متحد ہے اور یہ تینوں پارٹیاں وفاقی اقتدار میں رہ چکی ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین اور کچھ قیادت قید ہے اور اس کے برطرف کیے گئے وزیر اعظم کو ابھی بے شمار مقدمات کا سامنا ہے اور خوش فہمی کے شکار اس کے رہنماؤں کو امید ہے کہ قید چیئرمین کے باوجود پی ٹی آئی بھی 2018 کے قید نواز شریف کی طرح اپنی مقبولیت کے باعث پی ٹی آئی کو کامیابی دلا دیں گے مگر وہ یہ بھول گئے کہ نواز شریف پر بنائے گئے مقدمات کمزور تھے اور بالاتروں کی حمایت بھی انھیں حاصل نہیں تھی جب کہ قید چیئرمین پی ٹی آئی پر بعض مقدمات درست بھی ہیں اور بعض سنگین بھی اور انھیں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر سزا نہیں ہوئی بلکہ بعض مقدمات انھیں سالوں قید میں رکھیں گے۔ قید چیئرمین کی پارٹی جس طرح بنوائی گئی تھی ویسے ہی وہ بکھر چکی۔ آیندہ انتخابات 1970 جیسے نہیں ہوں گے کہ بھٹو صاحب کے ٹکٹ پر کھمبا بھی جیت سکتا ہے مگر اس وقت بھٹو صاحب آزاد تھے اور صرف مغربی پاکستان کے دو صوبوں میں اکثریت لے سکے تھے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نہ صرف قید بلکہ سیاسی طور پر تنہا ہیں۔ ان کی پارٹی پر مال لگانے والے اپنی پارٹی بنا چکے۔ چیئرمین پی ٹی آئی دوسروں کے مال پر سیاست کے عادی رہے ہیں اور جو مال ان کے پاس ہے وہ اب ان کے مقدمات پر خرچ ہو رہا ہے اور انھیں مہنگے مہنگے وکیلوں کی خدمات معاوضے پر حاصل کرنا پڑ رہی ہیں اور اب صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی کروڑوں روپے خرچ کرنے پر ہی جیتا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی باریوں کے بعد پونے چار سال پی ٹی آئی کی حکومت بھی آزمائی جا چکی اور مختلف پارٹیوں میں موجود جو نمایاں چہرے ہیں وہ سب ماضی کی حکومتوں کا حصہ رہے ہیں اور ماضی سے حکمران رہنے والوں نے الیکشن میں جو وعدے کیے، پارٹی منشور دیے ان میں چیئرمین پی ٹی آئی واحد وزیر اعظم تھے جنھوں نے عوام سے کیا گیا کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا۔ پی پی کہہ سکتی ہے کہ اس نے لوگوں کو روزگار دیا، (ن) لیگ کہہ سکتی ہے کہ اس نے 2018 تک ملک کو اندھیروں سے نکال کر لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ پورا کیا تھا مگر پی ٹی آئی کے پاس صرف مظلومیت کی دہائی کے سوا کچھ نہیں ہو گا اور نواز شریف بھی کہیں گے کہ ان کی تینوں حکومتیں اچھی کارکردگی کے باوجود ختم کی گئیں اور انھیں ناحق قید رکھا گیا تھا۔

مسلم لیگ ن کے اس موقف میں کسی حد تک وزن بھی موجود ہے کیونکہ عوام نے دیکھا ہے کہ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں بجلی کی لوڈشیڈنگ تقریباً ختم ہو گئی تھی‘ اس کے علاوہ ملک کی کاروباری صورتحال بھی خاصی بہتر تھی‘ مڈل کلاس طبقے کے لیے اتنی مشکلات پیدا نہیں ہوئی تھیں جتنی کہ آج یہ طبقہ برداشت کر رہا ہے۔ تعمیراتی کام بھی زیادہ ہو رہے تھے جس کا اثر بھی معاشی سرگرمیوں میں تیزی آنے کا سبب بنا۔ عوام مہنگائی کے جس عذاب میں مبتلا ہیں اس کی ذمے دار تینوں سابق حکمران جماعتیں ہیں اور ان پر کرپشن کے الزامات بھی ہیں اور تینوں کی قیادت نے جیلیں بھی بھگتی ہیں اور خود کو بھی مالی طور پر مستحکم کیا ہے۔ عوام مہنگائی، کرپشن اور سابق حکمرانوں کی کارکردگی سے مایوس ہو کر کسی نئی پارٹی کے منتظر نہیں بلکہ اسی جان لیوا مہنگائی سے چھٹکارا چاہتے اور تینوں بڑی پارٹیوں کو آزما چکے اور پرانے حکمرانوں سمیت اب کسی نئی پارٹی کے نئے دعوؤں میں آنے پر تیار نہیں ہیں۔ ان کا مسئلہ کسی پارٹی کا اقتدار نہیں بلکہ انھیں درپیش مالی مسائل ہیں۔

ملک میں اب کوئی ایسی قومی شخصیت موجود نہیں جس کی قیادت میں نئی پارٹی بن سکے۔ نئی پارٹی کے خواہش مندوں میں کوئی بھی قومی اہمیت کا حامل نہیں۔ مفتاح اسمٰعیل نے اپنی وزارت میں عوام کو نظر انداز کیا۔ ہنس ہنس کر پٹرول بڑھاتے اور عوام پر ٹیکس نہ دینے کا الزام لگاتے رہے۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کبھی صوبائی الیکشن تک نہیں لڑا۔ ملک میں چینی کی مہنگائی کا ذمے دار بعض سیاستدانوں کو سمجھا جاتا ہے اور ان کی پارٹی میں وہ تمام لوگ ہیں جو پی ٹی آئی میں تھے اور پنجاب تک محدود ہیں۔ پرویز خٹک کی سیاست کے پی کے چند اضلاع تک محدود ہے اور یہ سب چیئرمین پی ٹی آئی کے وفادار اور ان کے اشاروں پر چلا کرتے تھے انھیں اب عوام کا خیال آیا ہے۔ شاہد خاقان عباسی کا جہاں تک معاملہ ہے تو یاد رکھیں کہ نئی پارٹی کثیر سرمائے کے بغیر بن نہیں سکتی اور اب الیکشن کروڑوں کا کھیل بن چکے ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں میں کوئی ایک بھی عوام دوست ثابت نہیں ہوا سب کے دعوے جھوٹے تھے۔ ہر پارٹی نے عوام کو مایوس کیا کوئی ایک رہنما قومی لیڈر ہے، نہ عوام میں مقبول تو نئی پارٹی کون بنائے گا؟

محمد سعید آرائیں 

بشکریہ ایکسپریس نیوز

الیکشن سے خوفزدہ ن لیگ

حکمراں اتحاد میں شامل سیاسی جماعتیں بالعموم اور مسلم لیگ ن بالخصوص الیکشن سے خوفزدہ ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ وہ عمران خان سے الیکشن نہیں جیت سکتے۔ پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت علماء اسلام کو تو پھر بھی امید ہے کہ اس وقت اُن کے پاس قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستیں ہیں (یا تحلیل شدہ پنجاب اور خیبرپختون خوا اسمبلیوں میں تھیں)، اتنی تو وہ کم از کم آئندہ انتخابات میں حاصل کر لیں گے بلکہ ہو سکتا ہے کہ ان دونوں سیاسی جماعتوں کے ارکانِ پارلیمنٹ کی تعداد میں کچھ اضافہ ہو جائے۔ لیکن ن لیگ کا بُرا حال ہے۔ لیگی رہنما کہتے تو ہیں کہ وہ الیکشن کے لئے تیار ہیں لیکن اُن کی پوری کوشش ہے کہ نہ صرف پنجاب اور خیبرپختون خوا میں الیکشن نہ ہوں بلکہ موجودہ قومی اسمبلی کے مدت پوری ہونے پر بھی وہ اکتوبر میں انتخابات کے نام سے خوفزدہ ہیں۔ مریم نواز کی لندن سے واپسی پر ن لیگ کو سیاسی طور پر فعال کرنے کی کوششیں جاری ہیں لیکن اس سے بھی اب تک کچھ حاصل نہیں ہو رہا۔ عمران خان پر نئے نئے مقدمات قائم کئے جارہے ہیں لیکن اس سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہو رہا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ اور ن لیگ نیچے سے نیچے جا رہی ہے۔

ایسا نہیں کہ عمران خان نے اپنی حکومت میں کوئی بڑا کمال کیا یا اُن کی اپوزیشن کی سیاست بہت زبردست ہے۔ مسئلہ اتحادی حکومت کی ناکامیوں کا ہے۔ معیشت سنبھل نہیں رہی جب کہ مہنگائی ہے کہ آسمان کو چھو رہی ہے۔ غربت میں اضافہ ہو گیا ہے جب کہ تقریبا ہر قسم کے کاروبار کو تباہی کا سامنا ہے جس سے لاکھوں افراد ملازمتوں سے فارغ ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ پی ڈی ایم نے بڑے شوق سے عمران خان کی حکومت کو ختم کیا تھا اور ن لیگ بھی بڑی پر جوش تھی کہ ہم معیشت کو سنبھال لیں گے لیکن اب ہاتھ مل رہے ہیں کہ ہم سے یہ کیا ہو گیا، ہم نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ حالات اتنے خراب ہو جائیں گے کہ ناک رگڑ رگڑ کر بھی نہ آئی ایم ایف قرضہ دینے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی دوست ممالک کی طرف سے وہ امداد مل رہی ہے جس کی بڑی امیدیں تھی۔ ن لیگی کہتے تھے کہ ہمارے پاس تو بڑے تجربہ کار لوگ ہیں، ہم معاملات ٹھیک کر لیں گے لیکن اب رو رہے ہیں کہ کچھ ٹھیک نہیں ہو رہا۔ لندن میں نواز شریف کے ساتھ طویل مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا کہ عوام کو بتایا جائے کہ نواز شریف اور عمران خان کے دور میں کیا فرق تھا اور اب جو کچھ بھی ہو رہا ہے اُس کا سارا ملبہ عمران خان اور اُن کی حکومت پر ڈالا جائے۔

بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن اس سے بھی حاصل کچھ نہ ہوا کیوںکہ شہباز شریف حکومت کے گزشتہ دس گیارہ مہینوں کے دوران نہ صرف ملکی معیشت مزید خراب ہوئی، کاروبارتباہ ہو گئے اور مہنگائی نے تاریخ کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ کوئی معجزہ ہو جائے تو الگ بات ہے ورنہ ن لیگ کے لئے حالات کے سنورنے کا کوئی چانس نہیں۔ الیکشن سے بھاگ کر بھی جان نہیں چھوٹنی۔ کتنا عرصہ بھاگیں گے۔ ترازو کے دونوں پلڑوں کی برابری کی بات کرنے والی ن لیگ کی خواہش اب یہ ہے کہ عدلیہ نوازشریف کے نہ صرف مقدمات ختم کر کے اُنہیں باعزت بری کرے بلکہ عمران خان کو نااہل قرار دیتے ہوئے سیاست سے باہر کر دے۔ اس سے ترازو کے دونوں پلڑے کیسے برابر ہوں گے؟ یہ نکتہ میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔ لگ ایسا رہا ہے ن لیگ چاہتی ہے کہ 2018 کے حالات کو 2023 میں Repeat کیا جائے اور وہ ایسے کہ اگر 2018 میں انتخابات کو عمران خان کے حق اور نواز شریف اور ن لیگ کے خلاف Manage کیا گیا تھا تو اب کی بار سیاسی حالات اور انتخابات کو ن لیگ کے حق میں اور عمران خان کے خلاف Manage کیا جائے۔ کیا آج کے پاکستان میں ایسا ممکن ہے؟ اس کا تو وقت ہی فیصلہ کرے گا لیکن میری رائے میں جو غلطی عمران خان کی حکومت ختم کر کے ن لیگ اور اس کے اتحادیوں نے کی، اُس کا خمیازہ ان سیاسی جماعتوں اور بالخصوص ن لیگ کو بھگتنا پڑے گا۔

انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ

کیا حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر پوری طرح عمل کر سکے گی؟

کئی ماہ سے جاری سخت مذاکرات کے بعد بلآخر عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے معاہدہ طے پاگیا ہے۔ یہ ہماری کمزور معیشت کے لیے ایک بڑا سہارا ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان کے لیے 1 ارب 17 کروڑ ڈالر جاری کرے گا۔ اس رقم سے ملک کو درپیش ڈیفالٹ کا خطرہ تو ختم ہو جائے گا تاہم اس سے ہم معاشی بحران ختم ہونے کی امید نہیں رکھ سکتے۔ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اس متزلزل حکومت کے لیے بہت اہم ہے لیکن اس پروگرام کی بحالی آسان نہیں تھی۔ دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان کو بھی معاشی بدحالی کے عفریت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس حوالے سے پاکستان کا شمار خطرات سے سب سے زیادہ شکار ممالک میں ہوا۔ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانا ناممکن تو نہیں تھا تاہم ملک ڈیفالٹ کے بہت قریب ضرور پہنچ گیا تھا۔ اس معاشی صورتحال کو مستحکم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کلیدی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ آئی ایم ایف سے ملنے والی حالیہ قسط 6 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کا حصہ ہے۔

پاکستان 2019ء میں آئی ایم ایف پروگرام میں داخل ہوا تھا۔ ابھی آئی ایم ایف سے نصف فنڈز ہی حاصل ہوئے تھے کہ گزشتہ حکومت کے لیے مقررہ اہداف پر عمل کرنا مشکل ہوتا گیا۔ عمران خان کی حکومت جانے سے کچھ دن قبل ہی حکومت نے ایک بڑی سبسڈی کا اعلان کیا جس سے معاشی استحکام کی تمام کوششیں ضائع ہو گئیں۔ اس سبسڈی کے پیچھے سیاسی محرکات تھے کیونکہ عمران خان کو اس وقت تحریک عدم اعتماد کا سامنا تھا۔ لیکن یہ مقبول فیصلہ بھی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کو نہیں بچا سکا بلکہ ملک کے ذخائر پر بوجھ بنا اور ملک کو سخت ترین معاشی بحران کا شکار کر دیا۔ نتیجے کے طور پر نئی حکومت کو سخت شرائط پر آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے پڑے۔ حکومت کو آئی ایم ایف کی منظوری سے قبل ضروری اور سخت معاشی اقدامات بھی اٹھانے پڑے۔ شاید یہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان پر عائد اب تک کی سخت ترین شرائط تھیں۔

اس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا بلکہ دیگر سبسڈی بھی واپس لے لی گئیں۔ حکومت کو ٹیکسوں کی مدد میں اضافی 436 ارب روپے بھی حاصل کرنے ہیں۔ ان اقدامات کا مطلب ہے کہ پہلے سے ہی مشکلات کا شکار حکمران اتحاد کو ایک بڑی سیاسی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ اگرچہ پاکستانی حکومت اور آئی ایم ایف اسٹاف مشن اس پروگرام کی بحالی پر جون میں ہی متفق ہو گئے تھے لیکن اس کے باوجود آئی ایم ایف کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو اس کی منظوری دینے میں مزید 2 ماہ لگے۔ اس وقت امید کی ایک کرن نظر آئی جب آئی ایم ایف نے قرض کی مدت میں اضافہ کرنے اور اس میں 72 کروڑ کا اضافہ کر کے اسے 7 ارب ڈالر تک لے جانے کے لیے نظرثانی کی ہامی بھری۔ آئی ایم ایف کی منظوری کے بعد اب پاکستان کو دوست ممالک اور ورلڈ بینک جیسی عالمی ایجنسیوں سے بھی مالی امداد ملنے کی امید بندھی ہے۔

یہ بلاشبہ ایک اچھی خبر ہے لیکن ملک کو مستقبل میں مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ معاشی حالات ابھی سنبھلے نہیں ہیں۔ ملک میں ہونے والی طوفانی بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں تقریباً 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ یہ ہماری آبادی کا تقریباً 15 فیصد حصہ بنتے ہیں۔ پاکستان نے تاریخ میں کبھی ایسی تباہی نہیں دیکھی۔ ان حالات میں معاشی استحکام کے اہداف کا حصول ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ ملک بھر میں لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ لوگ اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، ہزاروں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں اور مال مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔ سڑکیں اور ڈیم ٹوٹ گئے ہیں جس سے انفرا اسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ مزید سیلاب کی پیشگوئی کے باعث صورتحال بدستور تشویشناک ہے۔ اس تباہی سے ہونے والے معاشی نقصان کا اندازہ لگانا ابھی قبل از وقت ہو گا۔ حکومتی تخمینے کے مطابق متاثرہ علاقوں میں تعمیرِ نو کے لیے 10 ارب روپے سے زائد کی ضرورت ہو گی۔

ایک کمزور معیشت اتنے بڑے نقصان کو برداشت نہیں کرسکتی۔ ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلوں کے نقصان کے باعث ملک کو مستقبل میں خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس سے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ اس صورت میں حکومت کے لیے اس مہنگائی پر قابو پانا مزید مشکل ہو جائے گا جو اس وقت بھی 40 فیصد سے زائد ہے۔  ان حالات میں حکومت کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کرنا ایک چیلنج ہو گا۔ حکومت پر خود حکمران اتحاد اور اپوزیشن کی جانب سے بھی سیاسی دباؤ پڑ رہا ہے کہ وہ سبسڈی اور خاص طور پر پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں پر سبسڈی بحال کرے، لیکن یہی چیزیں آئی ایم ایف پروگرام کی اہم شرائط بھی ہیں۔ موجودہ سیاسی تفریق میں جہاں اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت ہے، وفاقی حکومت کے لیے سخت اقدامات اٹھانے کے امکانات محدود ہو گئے ہیں۔ پی ٹی آئی نے اپنی صوبائی حکومتوں کے ذریعے آخری وقت پر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ خراب کرنے کی کوشش کی۔

سابق وزیرِ خزانہ شوکت ترین کی خیبر پختونخوا اور پنجاب کے وزیرِ خزانہ کے ساتھ ہونے والی جو ٹیلی فون کال لیک ہوئی ہے اس سے ان الزامات کو مزید تقویت ملی ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ خراب کرنے کی کوششیں کی جارہی تھیں۔ پی ٹی آئی اگرچہ آئی ایم ایف کی قسط روکنے میں تو کامیاب نہیں ہو سکی لیکن یہ اب بھی وفاقی حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے خلاف مہم چلا رہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ معاہدہ دراصل اس پروگرام کا ہی تسلسل ہے جو 2019ء عمران خان کے دورِ حکومت میں شروع ہوا تھا۔ درحقیقت گزشتہ حکومت کی جانب سے معاہدے پر عمل درآمد نہ کرنے سے ہی معیشت عدم استحکام کا شکار ہوئی۔  یہ بھی ایک وجہ تھی کہ آئی ایم ایف نے اپنی شرائط مزید سخت کر دیں۔ گرتی ہوئی معیشت کی وجہ سے حکومت کے پاس ان سخت شرائط کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔

یقینی طور پر تیل کی قیمتوں میں اضافے اور سبسڈی ختم ہونے سے عوام شدید متاثر ہوئے ہیں لیکن اس سے معیشت مکمل تباہی سے بچ گئی ہے۔ نئی حکومت کے لیے سخت اپوزیشن کی موجودگی میں غیر مقبول فیصلے کرنا آسان نہیں ہے۔ وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل کو اپنی ہی جماعت کے کچھ سینئر رہنماؤں کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور شریف خاندان کے اندر جاری اقتدار کی جنگ کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ تاہم ہمیں مفتاح اسمٰعیل کو اس بات کا کریڈٹ دینا ہو گا کہ وہ یہ معاہدہ کرنے میں کامیاب رہے، لیکن ابھی کہانی ختم نہیں ہوئی ہے۔ بلاشبہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے نے ملک کو کچھ سہارا تو دیا ہے لیکن آگے آنے والے چیلنجز بہت سخت ہیں۔ ہم آئی سی یو سے تو باہر آگئے ہیں لیکن ابھی خطرے میں ہیں۔ بڑھتا سیاسی عدم استحکام معاشی بحالی کے راستے میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

زاہد حسین

یہ مضمون 31 اگست 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

بشکریہ ڈان نیوز