پاکستان اسٹیل مل بحران کا حل کیا ہے ؟

پاکستان اسٹیل مل ایک قومی اثاثہ ہے جس کے قیام کیلئے 18 سال تک منصوبہ بندی کرنے کے بعد 1973ء میں اس پر کام شروع ہوا اور 1985ء میں اس نے پیداوار شروع کی۔ 2008 تک مل 28 ارب روپے کے منافع پر چل رہی تھی۔ 2006 میں شوکت عزیز کی حکومت نے اس کی پرائیویٹائزیشن کا فیصلہ کیا جس کی ملک بھر میں مخالفت ہوئی اور سپریم کورٹ نے یہ نجکاری روک دی لیکن مل خسارے کی طرف بڑھنے لگی۔ 2011 میں اسے وفاقی حکومت کی پرائیویٹ کمپنی سے نکال کر براہ راست سرکاری ملکیت میں لے لیا گیا۔ 2012 میں یوکرین نے اس کی بحالی کی پیشکش کی لیکن عدم توجہی سے حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ اس کی پیداوار نہ ہونے سے حکومت کو صرف ڈیڑھ سال کے عرصہ میں دو ارب ڈالر کا زرمبادلہ خرچ کر کے اسٹیل مصنوعات درآمد کرنا پڑیں۔

اسٹیل مل کی بحالی کیلئے اب تک کئی چیئرمین بھی تبدیل کئے گئے لیکن ہزار کوششوں کے باوجود یہ اپنے پیروں پر پھر سے کھڑی نہ ہو سکی۔ جس کے پیش نظر نیب نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ اسٹیل مل کی یہ بربادی کسی سازش کا نتیجہ تو نہیں یہ ایک بہتر سوچ بچار ہے۔ نیب نے مل کی بربادی ، قوم کے اربوں روپے کا ضیاع اور حکومت کی عدم توجہی کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام ذمہ داروں کا تعین کرنے کیلئے مکمل اور جامع انکوائری کا مستحسن فیصلہ کیا ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار نے بھی اس ضمن میں نوٹس لیتے ہوئے نیب کو کارروائی کی سفارش کر رکھی ہے اور اس انکوائری سے پہلے ماضی اور حال کے تمام ذمہ دار افسران کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا فیصلہ بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اسٹیل مل کو بنے 32 سال کا عرصہ ہو گیا ہے اس وقت سے اب تک ملک کی ضروریات کئی گنا بڑھ چکی ہیں اس لحاظ سے وطن عزیزمیں ایسی کئی ملیں موجود ہونا چاہئے تھیں۔ نیب نے اسٹیل مل کے حوالے سے تحقیقات کا جو بیڑہ اٹھایا ہے اسے جلد از جلد مکمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پتا چل سکے کہ قومی ادارے خسارے میں کیوں جا رہے ہیں اور ان کی بحالی کیونکر ممکن ہے ۔

اداریہ روزنامہ جنگ

پاکستان اسٹیل مل کو تباہی سے بچایا جائے

پاکستان اسٹیل مل ایک قومی اثاثہ ہے جس کے لئے18 سال تک منصوبہ بندی کی گئی 1955 میں سوچے گئے اس منصوبے پر 1973 میں کام شروع ہوا اور 1985 میں تکمیل کے بعد مل نے پیداوار شروع کردی۔ آج وطن عزیز کو اس جیسی کئی ملوں کی ضرورت ہے لیکن پہلے سے موجود اسٹیل مل کا یہ حال ہے کہ ملازمین کو چار ماہ سے تنخواہ نہیں ملی، 10جون 2015 سے مل میں پیداوار بند ہے۔ ملازمین کا دعویٰ ہے کہ مل کی1777 ایکڑ اراضی افسروں کی بندر بانٹ کا شکار ہو گئی ہے جس کی مارکیٹ قیمت فی ایکڑ پانچ کروڑ ہے اسے کوڑیوں کے مول فروخت کیا جا رہا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل کو 30 لاکھ روپے فی گھنٹہ نقصان ہو رہا ہے جبکہ مجموعی طور پر 2008 سے اب تک 425 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے اس سے قبل مل 28 ارب روپے منافع میں چل رہی تھی۔ اسٹیل ملک میں فولاد سازی کا میگا پروجیکٹ ہے جس کا سنگ بنیاد سوویت یونین کے مالی، تکنیکی اور سائنسی تعاون سے 1973 میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا اس پر اس وقت 24.7 ملین روپے لاگت آئی اور 1985 میں صدر ضیاءالحق نے اس کا افتتاح کیا۔ مل کے اسٹاف کو سوویت یونین میں ٹریننگ دی گئی۔ اور مل نے 1.1 ملین ٹن اسٹیل کی پیداوار دینا شروع کر دی۔ 2006 میں وزیراعظم شوکت عزیز کی حکومت نے اس کی پرائیویٹائزیشن کا فیصلہ کیا جس کی ملک بھر میں مخالفت ہوئی اور سپریم کورٹ نے اس کی نجکاری روک دی لیکن اس دوران مل مسلسل خسارے کی طرف بڑھنے لگی۔

2011 میں اسے وفاقی حکومت کی پرائیویٹ کمپنی سے نکال کر براہ راست سرکاری ملکیت میں لے لیا گیا اور 2012 میں یوکرین نے اس کی بحالی کی پیشکش کی لیکن مسلسل عدم توجہی سے حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ اس کی پیداوار نہ ہونے سے حکومت کو صرف ڈیڑھ سال کے عرصہ میں 2 ارب ڈالر کا زرمبادلہ خرچ کر کے اسٹیل مصنوعات درآمد کرنا پڑیں۔ پالیسی ساز اداروں اور حکومت کو اس قومی ورثے کوبچانے اور پھر سے منافع بخش بنانے کے لئے سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے ۔

اداریہ روزنامہ جنگ