ذمہ دارانہ صحافت کو اصل خطرہ کس سے؟

چلیں مان لیتے ہیں کہ پنجاب حکومت کا میڈیا کے متعلق بنایا گیا قانون کالا ہے اور اسی بنیاد پر صحافتی تنظیموں نے اسے مسترد کر دیا۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ہاتھوں کسی کی عزت محفوظ نہیں، جھوٹ بہتان تراشی اور فیک نیوز ہمارے میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کا معمول بن چکا۔ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر جھوٹے الزامات لگانا، کسی کی پگڑی اچھالنا، دوسروں پر غداری اور گستاخی تک کے سنگین الزامات لگانا، دوسروں کی زندگیوں تک کو خطرہ میں ڈالنا کیا یہ ہم نہیں کرتے رہے۔ ایسا کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر فتنہ انگیزی کرنے والے کتنوں کو سزائیں دی گئیں؟ کس طرح ٹی وی چینلز نے دوسرے ٹی وی چینلز اور صحافیوں کے خلاف جھوٹ کی بنیاد پر مہمات چلائیں، صحافیوں نے صحافیوں پر غداری کے فتوے لگائے، گستاخی تک کے الزامات لگائے لیکن کسی کے خلاف کوئی ایکشن نہ ہوا۔ ایسا کیوں ہے کہ برطانیہ میں انہی الزامات پر ہمارے ہی ٹی وی چینلز اور صحافیوں پر جرمانے عائد کیے گئے جس پر نہ کسی نے آزادی رائے کی بات کی اور نہ ہی آزادی صحافت کیلئے خطرہ محسوس کیا۔ 

جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے تو اُس نے تو تمام حدیں پار کر دیں۔ کسی کو گالی دینا ہی اس کی آزادی ہے؟ کسی پر سنگین سے سنگین الزام لگایا جائے تو اس پر بھی کوئی پوچھ گچھ نہیں؟جو دل میں آئے کہہ دو چاہے کسی کے بھی متعلق ہو۔ جھوٹی اطلاعات یعنی فیک نیوز بنا بنا کر پھیلائی جاتی ہیں، ٹرولنگ اور بہتان تراشی کی بنیاد پر ٹرینڈز چلانا کھیل بن چکا ہے۔ گستاخانہ مواد بھی سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے، ملک دشمنی کی بھی حدیں پار کی جاتی ہیں لیکن جب کسی کے خلاف حکومت ایکشن لیتی ہے تو شور مچ جاتا ہے کہ آزادی رائے پر حملہ ہو گیا۔ صحافتی تنظیموں سے میرا سوال ہے کہ جو کچھ میڈیا اور سوشل میڈیا کے متعلق میں نے اوپر لکھا کیا ایسا ہی نہیں ہو رہا یا ہوتا رہا؟ اگر یہ سچ ہے تو پھر صحافتی تنظیموں نے جو کچھ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے غلط ہو رہا ہے اور جس کا شکار میڈیا کے افراد خود بھی ہیں، اسے روکنے کیلئے کیا اقدامات کیے؟

جب ہم ذمہ دارانہ صحافت کو پروموٹ کرنے کیلئے خود اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کریں گے، جب ہم سوشل میڈیا یا میڈیا کو استعمال کر کے بہتان تراشی اور فتنہ انگیزی کرنے والوں کے احتساب کی بجائے اگر خود قانون کی گرفت میں آتے ہیں تو ہم اسے آزادی رائے اور آزادی صحافت کا مقدمہ بنا کر پیش کریں گے تو پھر جو کچھ غلط ہو رہا ہے وہ درست کیسے ہو گا۔ جب ہم اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کریں گے تو پھر حکومتوں کو موقع ملے گا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق میڈیا اور سوشل میڈیا کے متعلق قوانین بنا دیں۔ اور پھر جب کوئی بھی حکومت میڈیا سے متعلق کوئی قانون بناتی ہے یا بنانے پر غور کرتی ہے تو اُسے آزادی صحافت اور آزادی رائے پر حملہ سمجھا جاتا ہے۔ سیاستدانوں کا تو یہ وطیرہ رہا ہے کہ جو حکومت میں ہو ں تووہ میڈیا کے متعلق قانون میں تبدیلی چاہتے ہیں جبکہ وہی جب اپوزیشن میں ہوں تو میڈیا کے ساتھ یکجہتی کیلئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت میڈیا پر قدغنیں لگانا چاہ رہی ہے۔ 

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے چند سال پہلے تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں بنائے جانے والے میڈیا سے متعلق قانون کے حوالے سے جو کہا تھا اُس کی وڈیو ٹی وی چینلز پر چلائی گئی۔ کل جو وہ کہہ رہی تھیں آج وہ اُس کا الٹ کر رہی ہیں جبکہ تحریک انصاف اب اپوزیشن میں ہونے کی بنیاد پر میڈیا تنظیموں کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کر رہی ہے۔ سیاست کے اس کھیل پر اعتراض اپنی جگہ لیکن میری صحافتی تنظیموں سے درخواست ہے کہ وہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے جانے والے جھوٹ، فیک نیوز، فتنہ انگیزی وغیرہ کے خلاف نہ صرف اپنی آواز اُٹھائیں بلکہ موجودہ قوانین میں اگر کوئی کمی کسر ہے تو اُسے دور کرنے کا مطالبہ کریں تاکہ ذمہ دارانہ صحافت کو جو خطرہ فیک نیوز اور فتنہ پھیلانے والوں کی طرف سے ہے اُس کے آگے بند باندھا جا سکے۔

انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ

میڈیا کی ڈولی بھی لٹک رہی ہے

بٹگرام میں لٹکتی ڈولی سے تو بچوں کو بحفاظت نکال لیا گیا ہے لیکن کیا میڈیا کے سینیئر اور جونیئر تجزیہ کاروں کو کچھ خبر ہے کہ میڈیا کی اپنی ڈولی بھی لٹک رہی ہے؟ ہے کوئی صاحب خان جیسا رضاکار جو اس ڈولی کو سیدھا کرے؟ بٹگرام میں بچے صبح سے ڈولی میں پھنسے ہوئے تھے۔ شام اترنے لگی تو سورج کے ساتھ دل بھی ڈوبتا محسوس ہوا۔ پریشانی کے عالم میں ٹی وی آن کیا تو وجود میں سیسہ اتر گیا۔ نیوز کاسٹر چیخ چیخ کر بتا رہی تھیں کہ ’ناظرین، دیکھیے یہ ہم ہیں اور ہم نے سب سے پہلے قوم کو خبر دی تھی کہ یہاں بچے پھنس چکے ہیں۔‘ ایک ہی سانس میں، چیختے چلاتے کوئی نصف درجن بار ’سب سے پہلے‘ کا یہ پہاڑا ختم ہوا تو نیا سلسلہ شروع ہو گیا: ’ناظرین، یہ ایکسکلوزیو مناظر صرف ہم آپ تک پہنچا رہے ہیں!‘ ( اور مناظر وہ تھے جو چار گھنٹے پہلے سوشل میڈیا پر دیکھے جا چکے تھے اور وہ ان میڈیا والوں نے نہیں بلکہ مقامی لوگوں نے اپنے موبائل فون سے بنائے تھے)۔ اس کے بعد سینیئر تجزیہ کاروں کی مدد سے قوم کی رہنمائی کا فریضہ شروع ہو گیا۔ (یاد رہے کہ پاکستان میں فی الحال جونئیر تجزیہ کاروں کی پیدائش پر پابندی ہے)۔

سوال ہوا، ’بتائیے گا وہاں کی تازہ ترین صورت حال کیا ہے؟‘ اور اس سوال کا جواب وہ صاحب دے رہے تھے جو مبلغ ایک گھنٹہ پہلے اسلام آباد میں ٹریل فائیو پر واک کر رہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے بٹگرام کی تازہ ترین صورت حال کے نام پر وہ سارا رواں تبصرہ فرما دیا جو سوشل میڈیا پر دستیاب تھا۔ خبر پڑھنے اور سوال کرنے کا انداز بیاں اور لہجہ ایسا تھا جیسے شوق اور سرمستی میں آدمی یوں جوش میں آ جائے کہ سرشاری میں خود پر قابو نہ پا سکے۔ یہ گویا ایک دہری اذیت تھی، وحشت کے عام میں ٹی وی بند کرنا پڑا۔ ہمارے میڈیا کو کون بتائے گا کہ سوگواری کے عالم میں خبر پہنچانے کا اسلوب جدا ہوتا ہے۔ آپ کسی میلے ٹھیلے کی خبر پڑھ رہے ہیں تو شوخی اور چیخ پکار شاید گوارا کر لی جائے لیکن سوگوار لمحے متانت مانگتے ہیں، سنجیدگی، ٹھہراؤ اور وقار۔ جہاں سنجیدگی اور گداز اختیار کرنا چاہیے یہ وہاں بھی اٹکھیلیاں کر رہے ہوتے ہیں۔ جہاں پرسہ دینا ہو وہاں یہ ’می رقصم‘ ہو جاتے ہیں۔ کوئی تو ہو جو انہیں سمجھائے کہ ہر وقت اور ہر مقام ڈگڈگی بجانے کے لیے سازگار نہیں ہوتا۔ میڈیا کو سوچنا ہو گا کہ کیا سوگواری کے لمحات کے صحافتی آداب نہیں ہوتے؟ ایک پہر کے لیے ہی سہی؟

’آزادیِ صحافت‘ کے کچھ مناظر، جو میرے مشاہدے میں ہیں، درد کی صورت وجود میں گڑے ہیں۔ کوئٹہ میں بلاسٹ ہوا، ہمارے وکیل دوست ٹکڑوں کی صورت بکھر گئے، چینل پر خبر چل رہی تھی اور ہم لہو رو رہے تھے، مگر اگلے ہی لمحے شوخی بھری کمرشل بریک چل پڑی: ہم سا حسین ہونا چاہتے ہو؟ لودھراں میں ایک معصوم بچے کا ریپ کے بعد قتل ہوا۔ لاشہ گھر میں رکھا تھا اور لائیو کوریج ہو رہی تھی۔ نیوز کاسٹر نے رپورٹر سے کہا، ’کیا آپ ہماری مقتول کی والدہ سے بات کروا سکتے ہیں؟‘ رپورٹر نے مائیک غم کی ماری ماں کے سامنے کر دیا۔ بیٹے کے لاشے کے پاس بیٹھی ماں سے نیوز اینکر نے سوال پوچھا، ’آپ اس وقت کیا محسوس کر رہی ہیں؟‘ سیلاب کا ایک منظر ہے۔ اگست کے دن ہیں۔ ایک بوڑھا سیلاب کے پانی میں سے چلتا ہوا آ رہا ہے۔ اس کے سر پر ایک بڑی سی ٹوکری ہے۔ ٹوکری میں دو سہمے ہوئے معصوم سے بچے اور ایک مرغی ہے۔ مائک اس کے منہ میں گھسیڑ پر ایک اینکر نے سوال پوچھا، ’کیا آپ ہمیں قومی ترانہ سنا سکتے ہیں؟‘

دکھوں کا مارا وہ بوڑھا بے بسی اور حیرت سے اینکر کو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ سکندر نامی ایک شخص نے بلیو ایریا میں اپنے ہی اہل خانہ کو یرغمال بنایا تو چینلوں پر اس کی لائیو کوریج شروع ہو گئی۔ اس کوریج کے دوران ایک وقت آیا سکندر صاحب رفع حاجت کے لیے جھاڑیوں میں جا گھسے۔ نیوز کاسٹر نے شدت جذبات سے اعلان فرمایا: ’ناظرین یہ لائیو مناظر صرف آپ ہماری سکرین پر دیکھ سکتے ہیں۔‘ سکندر صاحب رفع حاجت کر کے واپس آ گئے مگر نیوز کاسٹر نے کتنی ہی دیر قوم کی رہنمائی جاری رکھی کہ ’ناظرین، یہ ہے وہ خصوصی منظر جو آپ صرف اور صرف ہماری سکرین پر دیکھ رہے ہیں۔‘ یہ اپنے مشاہدے میں سے چند صحافتی نگینے ہیں جو میں نے آپ کے سامنے رکھے۔ آپ اپنے مشاہدات کو بھی اس میں شامل کر لیں تو یہ حسیات میں پیوست کانٹوں کی پوری ایک مالا بن سکتی ہے۔ میڈیا کی ڈولی لٹک رہی ہے۔ اسے ریسکیو کرنے کون آئے گا؟

آصف محمود  

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

ذاتی مفادات کی جنگ میں

ہمارے موجودہ زوال و انحطاط کے سبب ایک سے زیادہ بتائے جاتے ہیں لیکن ایک سبب ایسا ہے جو بہت سے زمینی گھمبیر اسباب کو جنم دیتا ہے۔ مسلمانوں کو درپیش مسائل کے بہت سے حل گنوائے جاتے ہیں لیکن ایک حل ایسا ہے جو بہت سے پیچیدہ مسائل حل کر سکتا ہے اور بہت سے بند تالوں کی کنجی، بہت سی مہلک معاشرتی بیماریوں کے لیے تریاق ہے۔ یہ حل دراصل انبیاء و اولیاء اور حکماء و عقلاء کا ایسا وصف ہے اور ایسی بابرکت عادت ہے کہ اس سے نہایت اعلیٰ انسانی اخلاق پھوٹتے اور نہایت مثبت نتائج جنم لیتے ہیں۔ فاتحین اسلام کو اسی سے ترقی ملی ہے اور ترقی یافتہ اقوام اسی کی بدولت عروج پاتی ہیں۔ انسان جب ذاتی مفاد پر اجتماعی مفاد کو ترجیح دیتا ہے تو یہ اِس کے خلوص و ایثار کی علامت ہوتی ہے اور یہ ایسی قربانی اور وسعت ظرفی پر مشتمل ہوتی ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور تائید نازل ہوتی ہے۔ اور جب وہ ذاتی مفاد کی خاطر اجتماعی مفادات کو پامال کر دیتا ہے تو یہ نہ صرف اس کی کم ظرفی اور خبث باطن کی دلیل ہوتی ہے، بلکہ یہ ایسی خود غرضی اور خواہش پرستی ہوتی ہے جس کی پاداش میں انسان تائید و توفیقِ الٰہی سے محروم ہو جاتا ہے۔

پھر اسے اس کے نفس کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور سب جانتے ہیں کہ نصرتِ الٰہی سے محروم انسان کا نفس اسے کس کے حوالے کرتا اور کیسے انجام تک پہنچاتا ہے؟ ذاتی مفاد پر اجتماعی مفادات کو ترجیح دینے سے کیسے خوش گوار نتائج سامنے آتے ہیں اور اجتماعی مفادات کو ذاتی مفاد پر قربان کرنے سے معاشرے پر کیسے بھیانک اثرات پڑتے ہیں، اس کی ایک بہت واضح اور عام فہم مثال موجودہ ذرائع ابلاغ، پرنٹ میڈیا، الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا ہے۔ ہمارے کئی خبررساں صحافی اور تبصرہ و تجزیہ کار دانش ور حضرات، اینکر پرسن قطعاً نہیں دیکھتے کہ کسی خبر کے جملے یا کسی نشست کے موضوع سے ناظرین و سامعین پر کیسے کیسے منفی اثرات پڑ رہے ہیں؟ اُنہیں بس اپنی ملازمت یا مراعات کی اور اپنے اخبار یا چینل کی شہرت کی فکر ہوتی ہے۔ اِس سوچ کے تحت وہ رائی کا پہاڑ بنانے، بلاوجہ سنسنی پھیلانے، رتّی کا پائو دکھانے غرض کسی چیز سے باز نہیں آتے۔ اُنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اپنے اخبار کا پیٹ یا چینل کا جہنم بھرنے کے لئے وہ جس طرح کم کو زیادہ اور صفر کو سو بتاتے ہیں، اِس سے عوام میں جن کو جاننے اور آگاہی کا جمہوری حق دینے کے لئے یہ وجود میں آئے تھے، اِنہی عوام میں بےچینی اور مایوسی پھیلتی ہے۔ ملک و ملت کے حال و مستقبل سے یہ مایوسی ذاتی مفاد کو ہر قیمت پر حاصل کرنے اور اجتماعی مفاد کی خاطر قربانی دینے کو حماقت قرار دینے پر اُکساتی ہے۔

عدم اطمینان کی یہ کیفیت لوٹ و کھسوٹ، بدنظمی و بدعنوانی اور ایسے حوصلہ کش نفسیاتی بحران کو جنم دیتی ہے جس سے معاشرہ طرح طرح کے اِن عوارض و امراض میں مبتلا ہوتا ہے جو آج ہماری پہچان بن چکے ہیں۔ ہمارے ہاں یومیہ خدا جانے کتنے ضرورت مندوں کی مدد کی جاتی ہے، اسے کوئی نشر نہیں کرتا، لیکن ایک خاتون کا پرس چھن جائے تو ’’بریکنگ نیوز‘‘ جاری ہو جاتی ہے۔ ایک صاحب خیر نے مشہور اسپتالوں کے قریب میڈیکل اسٹور والوں کو کہہ رکھا ہے کہ ضرورت مند مریض کا بل مجھ سے لیا کرو۔ دوائی دینے سے انکار نہ کرو۔ کئی ڈاکٹر حضرات ایسے ہیں جو دو کلینک چلاتے ہیں۔ ایک متمول علاقے میں وہ مناسب فیس لیتے ہیں اور ایک غریب یا سفید پوش علاقے میں جہاں وہ واجبی سی فیس لیتے ہیں لیکن اس طرح کی مثبت باتوں کو کوئی چینل خبروں کی ماری قوم کے سامنے نہیں چلاتا، ہر وقت ڈاکٹروں کو قصاب کہہ کر اس میدان میں نووارد ڈاکٹروں کو منفی ردّعمل اور بےرحمی پر اُکساتا ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ اِن اداروں کے سروے نشر کرتے ہیں جو ہر وقت بدعنوانی میں پاکستان کی تازہ ترین رینکنگ جاری کرنے کی فکر میں گھل رہے ہیں۔ اِس سے رشوت ستانی اور چوربازاری مزید بڑھتی ہے۔

دہشت گردی ہر گز یہ نہیں ہے کہ دس آدمی مارے جائیں۔ یہ محض دہشت ہے۔ اصل دہشت گردی اس مقامی اور وقتی دہشت کو اتنا پھیلانا، اور اس کی اتنی گرد اُڑانا ہے کہ وہ قومی دائمی بن جائے اور پورے ملک کو دہشت زدہ مریض بنا چھوڑے۔ ملک و قوم کو درپیش مسائل کے اسباب بہت سے ہیں، لیکن فرد یا ادارے کے مفاد کی خاطر ملّی مفاد کو روند ڈالنا ایک بہت بڑا سبب ہے۔ وطن اور اہلِ وطن جن بحرانوں میں مبتلا ہیں ان کے حل ایک سے زیادہ ہو سکتے ہیں لیکن ایک کارآمد حل یہ ہے کہ ہم لوگ من حیث القوم خلوص و ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اجتماعی مفاد کو ذاتی مفاد پر مقدم رکھنے کی عادت ڈال لیں۔ یہ کام اپنی ذات سے ہو اور نہایت چھوٹے پیمانے پر ہو لیکن دنیا و آخرت میں اپنی جگہ اتنی اہمیت رکھتا ہے جتنی بارش کے پہلے قطرے کی ہوتی ہے کہ بالآخر خوشحالی کی فصلیں اسی سے لہلہاتی ہیں اور جتنی سیپی کے منہ میں آنے والے اوّلین قطرے کی ہوتی ہے کہ نایاب موتیوں کی لڑی اسی سے وجود پاتی ہے۔ کیا آج کل پاکستانی سیاست میں یہی کچھ نہیں ہو رہا؟

انور غازی

بشکریہ روزنامہ جنگ

مولانا طارق جمیل پر غصہ کیوں؟

قدرت راستوں کا تعین کرتی ہے، انسانوں کے بس میں یہ بھی نہیں۔ طارق جمیل کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ جب والد نے سینٹرل ماڈل اسکول لاہور میں داخل کرایا تو اس وقت طارق جمیل زمینداروں کا ایک بچہ تھا، میاں چنوں کے پاس ان کا آبائی علاقہ تلمبہ زمینداروں کی وجہ سے نہیں، اہل طرب کی وجہ سے مشہور ہے مگر اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وہاں کے بڑے زمیندار سہو ہیں، طارق جمیل، چوہان راجپوتوں کے قبیلے سہو سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا خاندان شیر شاہ سوری کے دور میں تلمبہ کا حکمران تھا، تلمبہ کے آس پاس زمینیں اسی خاندان نے تقسیم کیں۔ میٹرک کے بعد طارق جمیل نے گورنمنٹ کالج لاہور پہنچ کر راوین بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ 1969ء میں گورنمنٹ کالج کے اقبال ہوسٹل میں عزیز اللہ نیازی اور طارق جمیل روم میٹ تھے، دونوں ہاکی کے کھلاڑی تھے، طارق جمیل شاندار گلوکار بھی تھا۔

ایک دن عزیز اللہ نیازی، طارق جمیل کو رائے ونڈ لے گیا، اقبال ہاسٹل سے ایک اور طالب علم ارشد اولکھ بھی رائے ونڈ گیا۔ عزیز اللہ نیازی خود تو واپس آ گیا مگر طارق جمیل کا وہاں دل لگ گیا۔ ایف ایس سی کے بعد کنگ ایڈورڈ میں داخلہ ہوا مگر وہ میڈیکل کے بجائے دین کی طرف راغب ہو گیا۔ وہ ڈاکٹر تو نہ بن سکا البتہ مولانا بن گیا۔ بظاہر ڈاکٹر نہ بن سکنے والے نے بے شمار انسانوں کا علاج کیا، لاکھوں انسانوں کی روحوں کو سکون بخشنے والے طور طریقے بتائے۔ رب لم یزل نے اسے شہرت سے بہت نوازا۔ اس مسیحائی کی اسے کئی مرتبہ قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔ والد نے یہ کہہ کر گھر سے نکال دیا کہ ’’تمہیں لاہور ڈاکٹر بننے کے لئے بھیجا تھا، مولوی نہیں، کیا ہم زمینداروں کے بچے مولوی بنیں گے؟‘‘ ایک قیمت چند دن پہلے بھی ادا کرنا پڑی، ان کی باتوں پر میڈیا کے چند لوگ غصے میں آ گئے، وہ غصے میں کیوں آئے، اس پہ بعد میں بات کرتے ہیں، پہلے معاشرے کی تصویر کا ایک رخ دیکھ لیجئے۔

تبلیغی مرکز سے تعلق کی وجہ سے ہم انہیں ایک مخصوص فرقے کا نمائندہ سمجھتے تھے مگر یہ پرانی بات ہے جیسے جیسے پاکستان میں میڈیا اور سوشل میڈیا بڑھا تو پتا چلا کہ طارق جمیل تو فرقہ پرستی کے خلاف ہے بلکہ وہ تو اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ تفرقوں میں نہ پڑو۔ پھر طارق جمیل نے ’’گلدستۂ اہل بیت‘‘ لکھ کر شکوک و شبہات کے سارے قصے ختم کر دیے۔ میرے مرشد کا علامہ اقبالؒ سے کیا تعلق تھا، یہ متعدد بار لکھ چکا ہوں۔ مرشد نے وقتِ رخصت ایک بات سمجھائی تھی کہ ’’دونوں جہانوں میں اہل بیت سے محبت کرنا، اس دنیا میں بھی اہل بیت کا گھرانا اور اگلے جہان میں بھی اہل بیت کا گھرانا ہے، اس گھرانے سے محبت نہ چھوڑنا‘‘۔ خواتین و حضرات! ٹی وی اینکرز نے کیوں برا منایا؟ ان سے متعلق وزیراعظم عمران خان نے بہت کچھ کہا مگر وہ چپ رہے، آصف زرداری انہیں سیاسی اداکار کہتے تھے۔ 

رانا ثناء اللہ نے تو اینکرز کے بارے میں ایسی بات کہی کہ میں وہ شرمناک بات لکھ بھی نہیں سکتا، اس کے علاوہ بھی کئی لوگوں نے بہت کچھ کہا مگر یہ سب چپ رہے اور خوشیاں منانے والے یہ بھول گئے کہ فلسفۂ آزادیٔ اظہار کیا کہتا ہے؟ مولانا طارق جمیل کو اللہ تعالیٰ نے خطابت کے جوہر سے نواز رکھا ہے، فرقہ واریت سے کہیں دور، محبت گھولتی ہوئی گفتگو مولانا طارق جمیل کا خاصہ ہے۔ لوگ ان کی گفتگو بھرپور توجہ سے سنتے ہیں۔ انہوں نے پیارے رسولؐ کی حدیث کی روشنی میں معاشرے کی جو عکاسی کی وہ بالکل درست ہے۔ ذرا سوچئے، کیا ہمارے معاشرے میں جھوٹ، دھوکا اور بے حیائی نہیں؟ کیا یہاں رشوت کے بازار گرم نہیں؟ کیا ملاوٹ اور بددیانتی نہیں؟ کیا یہاں گراں فروشی نہیں؟ کیا ہمارے ملک میں لوگوں کی جائیدادوں پر قبضے نہیں ہوتے؟ کیا ملک میں زکوٰۃ کا نظام درست ہے؟ کیا یہاں پولیس ظالم کے ساتھ کھڑی نہیں ہوتی؟ کیا یہاں مافیاز بددیانتی کا مظاہرہ نہیں کرتے؟ کیا یہاں کا ہر طبقہ بے ایمانی نہیں کرتا؟

کیا یہاں نہری پانی چوری نہیں ہوتا؟ کیا ہمارے تاجر نے بددیانتی اور سود چھوڑ دیا ہے؟ کیا ہمارے معاشرے میں لاشوں کی بے حرمتی نہیں کی گئی؟ کیا تم قصور کی زینب کو بھول گئے ہو؟ مجھ سمیت میڈیا کے بہت سے لوگ اقرار کر رہے ہیں کہ اس شعبے میں بہت سے لوگ جھوٹ بولتے ہیں، بہت سے منافقت کرتے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جو تکبر کرتے ہیں، کچھ کی زندگیوں کا مشن محض دولت کا حصول ہے۔ مولانا نے بحیثیت مجموعی بات کی، انہو ں نے تو نظامِ عدل پر بھی تنقید کی۔ اگر انہوں نے یہ کہہ دیا کہ عمران خان کو اجڑا ہوا چمن ملا ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟ جھوٹ جہاں غالب ہو وہاں اتنا کڑوا سچ واقعی جرم ہے۔ جہاں جھوٹ کا بسیرا ہو وہاں سچ بولنا خطا سے کم نہیں۔ کس طرح ایک سیاسی جماعت کے ہرکارے، کچھ سیاسی اداکار اور نام نہاد لبرلز ایک عالم دین کے پیچھے پڑ گئے۔ جس کا قصور یہ تھا کہ اس نے معاشرے سے اپیل کی کہ برائیاں چھوڑ کر اللہ کو راضی کرو۔ خواتین و حضرات۔ حالیہ صورتحال پر تو ڈاکٹر خورشید رضوی کا شعر یاد آ رہا ہے کہ؎

ہر جبر سے خاموش گزر آئے کہ افسوس
جاں بھی ہمیں درکار تھی عزت کے علاوہ

مظہر بر لاس

بشکریہ روزنامہ جنگ