سیاسی جماعتیں بلا امتیاز احتساب کےعزم سے کیوں پیچھے ہٹ گئیں

پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ نے 2015 میں ججوں اور جرنیلوں سمیت سب کو ملا کر احتساب کے حوالے سے رپورٹ کی منظوری دی تھی لیکن اب تقریباً تمام سیاسی جماعتیں، جنہوں نے پہلے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا، وہ ہمت ہار گئیں اور اب اس ایشو پر عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کرنے سے گریز کیا ہے۔ سینیٹ نے ستمبر 2015 میں متفقہ طورپر ایک کمیٹی رپورٹ کی توثیق کی تھی۔ جس میں نئے احتسابی نظام کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ جس میں ہر کسی کا بلا تخصیص احتساب ہو سکے۔ تاہم نیا احتسابی نظام تجویز کرنے کے لئے دونوں ایوانوں میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندہ ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی۔ آخر کار اس کمیٹی نے ججوں اور جرنیلوں کو نئے احتسابی نظام کے دائرہ کار میں لانے کے خیال کو ترک کر دیا۔ جس پر کمیٹی غور کرتی رہی۔

موجودہ پارلیمانی کمیٹی میں اکثر اس سے قبل بلا امتیاز احتساب کے نظام پر آمادہ تھے لیکن اب ملک کی تمام صف اول کی سیاسی جماعتیں ردعمل سے بچنے کے لئے اپنے مطالبے سے دستبردار ہو گئیں۔ ستمبر 2015 میں سینیٹ نے مجلس قائمہ برائے قانون و انصاف کی رپورٹ کی منظوری دی۔ سینیٹ کمیٹی نے موجودہ احتسابی نظام پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا اور یہ بات نوٹ کی گئی تھی کہ نیب جسے تحقیقات اور کرپشن کے خاتمے کی ذمہ داری تفویض کی گئی تھی، وہ ’’بلا امتیاز احتساب‘‘ کے اصول پر پوری نہیں اتر سکی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ نیب پراسیکیوشن کی شفافیت پر سوالات اٹھنے لگے۔

سینیٹ کمیٹی کی رپورٹ جو ایوان بالا نے متفقہ طورپر منظور کی تھی، اس میں زور دیا گیا کہ اکا دکا کیسز میں نیب کے تحقیقاتی طریقہ کار کو قومی ذرائع ابلاغ نے معیاری انسانی حقوق اقدار کی خلاف ورزی قرار دیا۔ یہ تاثرات درست کرنے کی ضرورت تھی تاکہ احتسابی عمل کو اعتبار اور شفافیت پر مبنی بنایا جائے۔ سینیٹر ایم جاوید عباسی کی سربراہی میں سینیٹرز راجا ظفر الحق، اعتزاز احسن، زاہد خان، فروغ نسیم، سعید غنی، بابر اعوان، فاروق ایچ نائیک اور دیگر پر مشتمل کمیٹی نے مذکورہ رپورٹ تیار کی تھی۔

وفاقی حکومتی محکموں میں کرپشن کا ایشو اٹھایا گیا تھا اور اسے مئی 2015 میں کمیٹی کے حوالے کیا گیا تھا۔ جس نے کئی اجلاس کے بعد اپنی رپورٹ ترتیب دی۔ جس کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں: نیب اور ایف آئی اے کے حدود کار ایک دوسرے سے متجاوز ہیں۔ نیب آرڈیننس 1999 اور نہ ہی ایف آئی اے ایکٹ 1974 میں ان کے مینڈیٹ اور دائرہ کار میں فرق کو واضح کیا گیا۔ لہٰذا ابہام دور کرنے کے لئے ان دونوں اداروں کے قوانین کا ترجیحی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے۔ دونوں اداروں کی مربوط کارکردگی کے لئے سہل طریقہ کار کو یقینی بنایا جا سکے۔ وفاقی سطح پر ایک انٹی کرپشن ادارہ بنایا جانا چاہئے جسے انتظامی امور اور مالی خود مختاری حاصل ہو۔

تمام کے لئے ایسا احتسابی نظام ہونا چاہئے جس میں احتسابی ادارے کو اعلیٰ ترین سطح کے سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے خلاف تحقیقات کی آزادی ہو۔ اس نظام کو اپنے اختیارات انسانی حقوق کی بین الاقوامی اقدار اور ریاست کے احتسابی قوانین کے مطابق استعمال کرنے چاہئے۔ نیب کسی حد تک اس معیار پر پورا نہیں اترا۔ نیب پراسیکیوشن کی شفافیت پر سوال اٹھتے رہے۔ احتسابی عمل کو اعتبار بخشنے کے لئے ان تاثرات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ مخبری اور رائٹ ٹو انفارمیشن پر مناسب دستور سازی کی ضرورت ہے تاکہ شفافیت اوراحتساب کے حوالے سے قوانین پر وسیع تر اتفاق رائے پیدا ہو۔ تمام وفاقی محکموں میں عام آدمی کی آسانی اور شفاف خدمات کی فراہمی کے لئے آئی ٹی بنیادں پر ون ونڈو آپریشن سسٹم قائم کیا جانا چاہئے۔

کرپشن کے خلاف عام آگہی کے لئے بڑے پیمانے پر میڈیا مہم چلائی جائے۔ سرکاری دستاویزات کو ضرورت سے زیادہ خفیہ رکھنے کے رجحان کا تدارک کرنے کے لئے فیصلے کئے جائیں اور پالیسی مرتب کی جائے۔ سرکاری محکموں کے لئے عوامی خدمات کی فراہمی کی خاطر وقت کی حد مقرر کئے جانے کا طریقہ کار متعارف کرایا جائے سرکاری اداروں کے اندر ہی نگراں یونٹ قائم کئے جائیں ۔کابینہ سیکرٹریٹ، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور فنانس ڈویژن کو ترغیبی بہتر کارکردگی اور پروفیشنل سول سروس کے لئے جامع سول سروس اصلاحات متعارف کرانی چاہئے۔

انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ