نیب نے حمزہ شہباز سے کیا سوالات پوچھے؟

مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ شہباز کی آمدن سے زائد اثاثہ جات اور مبینہ منی لانڈرنگ کیس سے عبوری ضمانت کے بعد نیب میں 3 پیشیاں ہو چکی ہیں جن میں وہ نیب کی کمبائن انویسٹی گیشن ٹیم کے سوالات کے جوابات تسلی بخش نہ دے سکے، جوابات نہ ملنے اور کئی اہم ریکارڈ نہ دینے سے متعلق نیب نے رپورٹ تیار کر لی، جسے ہائیکورٹ میں پیش کیا جائیگا جبکہ نیب حمزہ کی گرفتاری کی اجازت طلب اور ضمانت منسوخ کرنے کی استدعا کریگا۔ ذرائع کے مطابق نیب نے آمدن اور اکاؤنٹس میں پیسے منتقل ہونے کے ذرائع بارے سوالات کئے، لیکن حمزہ شہباز پہلی پیشیوں پر یہ جوابات دیتے رہے جن سے متعلق سوالات ہیں ان سے ہی پوچھا جائے میں ان کے جوابات دینے کا پابند نہیں، جس کے بعد نیب کی جانب سے شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز اور ان کی صاحبزادیوں کو نوٹسز اور پھر سوالنامے بھجوائے گئے، اب حمزہ شہباز نے یہ بھی کہا ہے کہ بزنس کے معاملات سلمان شہباز شریف دیکھتے رہے ہیں ان سے متعلق وہ ہی جواب دے سکتے ہیں۔

ذرائع سے معلوم ہوا ہے نیب کی جانب سے گزشتہ روز 13 سوالات کئے گئے، جس میں پوچھا گیا بتایا جائے 2003 سے لیکر 2005 تک ان کے اکاؤنٹس میں جو پیسے منتقل ہوئے ان کے ذرائع آمدن کیا ہیں ؟ لیکن وہ جواب نہ دے سکے۔ 25 جون 2007 کو حمزہ کے اکاؤنٹ میں ایک لاکھ 65 ہزار 980 ڈالر کی منتقلی سے متعلق سوال پر انہوں نے جواب دیا اس وقت یہ معاملات قانونی تھے۔ حمزہ شہباز کے اکاؤنٹس میں مختلف ذرائع سے آنے والی رقوم کے جب ثبوت ان کے سامنے رکھے گئے اور متعلقہ افراد سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ان میں سے چند افراد ہمارے بزنس میں ہیں لیکن اس وقت میں پبلک آفس ہولڈر نہیں تھا۔ نیب نے مزید پوچھا اگر ان لوگوں نے سرمایہ کاری کی غرض سے پیسے دئیے تو اس کے عوض انہیں کیا ملا اور یہ رقوم کہاں گئیں، نیز کیا آپ فضل داد عباسی اور قاسم قیوم کو جانتے ہیں تو حمزہ نے جواب دیا کہ فضل داد عباسی ہمارے ملازم رہے ہیں لیکن اس حوالے سے میں زیادہ نہیں جانتا ہوں۔

نیب نے سوال کیا الزام ہے کہ جعلی کاغذوں میں رقم فرضی طورپر دبئی، برطانیہ، کینیڈا اور دیگر ممالک جاتی تھی پھر ٹیلی گرافک ٹرانسفر یعنی ٹی ٹی کے ذریعے دوبارہ آپ کے اکاؤنٹس میں منتقل ہو جاتی، جس پر انہوں نے حیرانگی سے کہا آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ پیسے میرے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئے، نیب کی ٹیم نے کہا جی آپ کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئے، حمزہ نے جواب دیا یہ کئی سال پرانی بات ہے، اس وقت ہمارے اوپر سیاسی طور پر بہت سارے معاملات چل رہے تھے، نیب نے سوال کیا پیسے آپ کے اکاؤنٹ میں کیوں اور کس مقصد کیلئے منتقل ہوئے، انہوں نے جواب دیا پیسے منتقل ہوئے ہیں لیکن کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا، وہ پیسے منتقل ہونے کی وجوہات بتانے سے گریز کرتے رہے۔

نیب ٹیم نے سوال کیا آپ کے اکاؤنٹس میں کل 23 مشکوک ٹرانزیکشنز ہوئیں، بھیجنے والوں کا آپ کے کاروبار سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی وہ بڑے بزنس مین ہیں اس پر حمزہ نے کہا میں ابھی جواب نہیں دے سکتا۔ اکاؤنٹس میں منتقل ہونے والے 18 کروڑ روپے سے متعلق بھی انہوں نے کہا اس کی الگ تفصیلات ہیں جو اس وقت نہیں دے سکتا۔ حمزہ شہباز شریف سوالات کے جوابات میں یہ بھی کہتے رہے کہ ہمیں سیاسی طور پر نشانہ بنایا نہ جائے۔ نیب ٹیم نے 2003 سے لیکر 2017 تک کی ٹرانزیکشنز اور کئی اہم ریکارڈز حمزہ شہباز شریف کے سامنے بھی رکھے اور کئی اہم معلومات جو کہ نیب کے پاس موجود تھیں ان سے آگاہ کیا اس حوالے سے بھی حمزہ شہباز شریف تسلی بخش جواب نہ دے سکے اور معاملات کو گول ہی کرتے رہے۔

اسی طرح ایک روز قبل جب حمزہ شہباز شریف کو چنیوٹ رمضان شوگر ملز کیس کے حوالے سے مزید ثبوت آنے پر طلب کیا گیا تھا تو وہ جوابات سے ٹیم کو مطمئن نہیں کر سکے تھے۔ قبل ازیں رمضان شوگر ملز کے حوالے سے نیب ٹیم نے حمزہ سے 23 سوالات کئے تھے جن کے تسلی بخش جوابات نہ مل سکے اور یہی کہتے رہے شوگر ملز کے تمام معاملات سلمان شہباز دیکھتے تھے۔ نیب ذرائع یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ حمزہ شہباز سے تفصیلی سوالات کئے ہیں لیکن وہ جوابات نہ دیتے اور اگر دیتے تو اس کا سوال سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا تھا، کئی مبینہ فرنٹ مینوں کے نام ان کے سامنے رکھے گئے اور ان سے متعلق کئی سوالات بھی کئے لیکن حمزہ شہباز شریف ان کے بھی جوابات دینے میں ناکام رہے ہیں۔

محمد حسن رضا 

بشکریہ دنیا نیوز 

نجی یونیورسٹی کے سربراہ کی ہتھکڑی لگی لاش کا ذمہ دار کون؟

سوشل میڈیا پر ایک نجی یونیورسٹی کے سربراہ کی لاش کی ہتھکڑیاں لگی تصاویر وائرل ہونے کے بعد پنجاب حکومت اور قومی احتساب بیورو (نیب) کو سوشل میڈیا پر آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے جب کہ کئی سیاست دانوں نے بھی اس واقعے کی سخت مذمت کی ہے۔ سرگودھا یونیورسٹی کے لاہور کیمپس کے چیف ایگزیکٹو افسر میاں جاوید کو کچھ عرصہ قبل نیب نے حراست میں لیا تھا جس کے بعد انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر کیمپ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔ میاں جاوید کو پولیس کی حراست میں دل کا دورہ پڑا تھا جس پر انہیں ہتھکڑیاں باندھ کو لاہور کے ایک اسپتال لایا گیا تھا۔ ان کے انتقال کے بعد بھی ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں بندھی رہی تھیں جس کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھیں۔ ایک یونیورسٹی کے سربراہ کے ساتھ اس سلوک پر نیب اور پولیس کو سوشل میڈیا پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک صارف نے لکھا کہ “اگر آج فرعون زندہ ہوتا تو نیب لاہور کے ہاتھ پر بیعت کر لیتا۔”

سینئر صحافی سید طلعت حسین نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا، “احتساب کے نام پر وائس چانسلر کو قتل کرنے والوں کو شرم آنی چاہیے۔ اِس معاشرے کو بھی شرم آنی چاہیے جس میں توازن ختم ہو گیا ہے۔”

ایک اور سینئر صحافی حامد میر نے لکھا ہے کہ “یونیورسٹی کا پروفیسر گناہ گار تھا یا بے گناہ، پتا نہیں۔ لیکن کیمپ جیل لاہور میں مرنے کے بعد ہتھکڑی نہ کھولنا سنگ دلی ہے اور سنگدلی اللہ کو پسند نہیں۔”

تاہم بعض سوشل میڈیا صارفین نے اس عمل کا دفاع بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر کوئی عام ملزم پولیس کسٹڈی میں انتقال کرتا تو اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا۔
ملزم ملزم ھوتا ھے وہ چاہے میاں جاوید ھو یا میاں نواز ھو موت برحق ھے وہ جاوید کو آئی ھے تو مجھے بھی آنی ھے اور نواز شریف کو بھی آنی اور آپکو بھی آنی ھے اور اپنے وقت پر آنی ھے قوم کا سر اسوقت شرم سے جھکتا ھے جب بیگناہ افراد کے منہ میں بندوق رکھ کر گولی ماری جاتی ھے.

میاں جاوید کی ہلاکت پر سیاسی حلقوں نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سربراہ اور پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفٰی نواز کھوکھر نے اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ “یہ کیسا احتساب ہے جو سیاست دانوں اور اساتذہ سے آگے نہیں بڑھ رہا؟”

قومی احتساب بیورو لاہور کے ترجمان نے کیمپ جیل میں میاں جاوید کی موت پر جاری کردہ اعلامیے میں وضاحت کی ہے کہ احتساب عدالت نے میاں جاوید کو رواں برس اکتوبر میں ہی جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔ ترجمان کے بقول جب انہیں کیمپ جیل لاہور کے حکام کے حوالے کیا گیا تھا تو ملزم کو تحویل میں لیتے وقت ان کی صحت کے حوالے سے باقاعدہ تصدیق کی گئی تھی۔ نیب حکام کا کہنا ہے کہ سرگودھا یونیورسٹی لاہور کیمپس کے چیف ایگزیکٹو افسر میاں جاوید پروفیسر نہیں تھے بلکہ ایڈمن افسر تھے جن پر الزام تھا کہ انہوں نے سرگودھا یونیورسٹی کی منظوری کے بغیر لاہور میں غیر قانونی کیمپس کھولا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ ان کی سربراہی میں لاہور کیمپس کی انتظامیہ نے یونیورسٹی میں مطلوبہ تعداد سے زیادہ داخلے دیے اور طلبہ کے مبینہ جعلی رزلٹ کارڈز اور رجسٹریشن کارڈز جاری کیے۔

اطلاعات کے مطابق میاں جاوید کو دل کا دورہ پڑنے پر متعلقہ حکام کو آگاہ کیا گیا تھا لیکن جیل انتظامیہ کی جانب سے فوری ایکشن نہ لینے کے باعث میاں جاوید کی حالت غیر ہو گئی۔ بعد ازاں متعلقہ انتظامیہ نے میاں جاوید کو اسپتال منتقل کیا لیکن وہ راستے میں ہی دم توڑ گئے۔ سوشل میڈیا پر شور شرابے کے بعد پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار نے آئی جی جیل خانہ جات سے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ اسپتال انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ میاں جاوید کے انتقال کے بعد ان کے ورثا نے پولیس سے درخواست کی تھی کہ ان کی ہتھکڑیاں اتار دی جائیں.

لیکن لاہور پولیس کے اہلکاروں نے ہتھکڑیاں اتارنے سے انکار کر دیا اور مجسٹریٹ کے آنے کے بعد ہی میاں جاوید کے ہاتھوں سے ہتھکڑیاں اتاریں گئیں۔کچھ عرصہ قبل جامعۂ پنجاب کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران سمیت بعض دیگر اساتذہ کو نیب حکام نے ایک مقدمے میں ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا تھا جس پر خاصی لے دے ہوئی تھی۔ بعد ازاں ضمانت پر رہائی کے بعد ڈاکٹر مجاہد کامران نے دورانِ حراست نیب حکام کی جانب سے ناروا سلوک کی شکایت کی تھی اور نیب پر اپنی حراست میں موجود ملزمان پر نفسیاتی تشدد کرنے کا الزام بھی عائد کیا تھا۔

ضیاء الرحمن

بشکریہ وائس آف امریکہ

کیا پاکستان میں کچھ عناصر احتساب سے بالا تر ہیں ؟

پاکستانی سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی طرف سے جنرل کیانی کے خلاف درج کی گئی ایک پٹیشن کو اعتراضات لگا کر واپس کرنے کے بعد ایک بار پھر یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ ریاست کے ’طاقتور افراد‘ احتساب سے بالا تر ہوتے جا رہے ہیں۔
کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی طرف سے دائر کردہ اس پٹیشن میں الزام لگایا گیا تھا کہ آرمی کے ایک سابق جنرل نے فوج کے زیرِ اتنظام اسپتالوں کو غیر معیاری دوائیں فراہم کیں۔ درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ اس معاملے کی تحقیق غیر جانبدار اداروں کے ذریعے کرائی جائے اور اس میں ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

اس پٹیشن کی تفصیلات بتاتے ہوئے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’فوج کے اسپتالوں کو ایک منظم طریقے سے دوائیاں فراہم کی جاتی تھیں اور یہ ہسپتال براہ راست ادویات نہیں خرید سکتے تھے۔ لیکن ایک کورکمانڈر صاحب نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی ایک دوائی بنانے کی فیکڑ ی لگا لی اور انہوں نے غیر معیاری دوائیں بنانا شروع کر دیں۔ پنجاب ڈرگ اتھارٹی نے ایک رپورٹ میں ان ادویات کو جعلی اور مضرِ صحت قرار دیا۔ کیونکہ یہ ریٹائرڈ کور کمانڈر صاحب فوج میں ایک انتہائی سینیئر افسر کے دوست تھے۔ اس لئے فوج کے ہسپتالوں کو ایک جعلی خط لکھ کر یہ کہا گیا کہ وہ اس کمپنی سے ادویات خرید سکتے ہیں۔ میں نے اس معاملے کی پوری تحقیق کے لئے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی، جسے رجسٹرار نے اعترضات لگا کر واپس کر دیا ہے۔ اب میں اس کے خلاف اپیل کروں گا۔‘‘

پاکستان میں کئی مبصرین کا خیال ہے کہ اس پٹیشن کو اس لئے منظور نہیں کیا گیا ہے کیونکہ اس میں ایسے آرمی افسران کے نام ہیں، جو انتہائی اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں اور ابھی کچھ ہی برس پہلے وہ ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ اس سے یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ ملک میں احتساب صرف سیاست دانوں کا ہو سکتا ہے۔ فوج کے جرنیلوں کا احتساب کرنے کے لئے کوئی ادارہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے معروف تجزیہ نگار مطیع اللہ جان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس پٹیشن کو کیسے منظور کر لیا جاتا۔ اس میں کچھ ایسے افسران کے نام ہیں، جو ابھی کچھ ہی برسوں پہلے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ اگر ان کی تحقیق کی تو ہو سکتا ہے کہ حاضر سروس افراد کے نام بھی آجائیں۔

 مسئلہ یہ ہے کہ یہاں نیب نے بھی ریڈ لائن کھینچی ہوئی ہے۔ وہ سیاست دانوں کے پیچھے تو پڑی ہوئی ہے لیکن اس میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ جرنیلوں کا احتساب کر سکے۔ مشرف سمیت جن جرنیلوں کے خلاف ابھی انکوائری کھولی گئی ہے، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ یہ صرف اس لئے کھولی گئی ہے تاکہ عوام کی نظروں میں نیب کا امیج بہتر ہو سکے۔‘‘ سیاسی مبصر ڈاکڑ توصیف احمد خان مطیع اللہ جان کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ اس مسئلے پر ڈی ڈبلیو کو اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے کہا،’’کیا ایوب کا کوئی احتساب ہوا ؟ کیا جنرل یحیٰی خان ، جس نے ملک کے دو ٹکڑے کئے، اس کو کوئی احتساب ہوا۔ کیا جنرل ضیاء جس نے آئین توڑا، اس کا کوئی احتساب ہوا۔ تو اس ملک میں جنرلوں کا توکبھی بھی احتساب نہیں ہوا اور نہ ہی اس کا کوئی امکان ہے۔ تاہم سیاست دان ہمیشہ اس کا شکار رہے ہیں۔‘‘

لیکن پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے تجزیہ نگار اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں کہ جنرلوں کا احتساب نہیں ہوتا۔ معروف سیاسی مبصر جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے خیال میں در حقیقت اس ملک میں سیاست دانوں کا آج تک صحیح معنوں میں احتساب نہیں ہوا ہے،’’یہ بات صحیح ہے کہ سیاست دانوں کے نیب میں مقدمے ہیں لیکن مجھے آپ کسی ایک سیاست دان کا نام بتا دیں ، جسے سزا ہوئی ہو۔ لوگ آرمی کے احتساب کی بات کرتے ہیں۔ آرمی کا اپنا اندورنی احتساب کا نظام انتہائی مضبوط ہے اور وہاں افسران کا کڑا احتساب ہوتا ہے۔ جہاں تک اس پٹیشن کی بات ہے، اس میں لگائے گئے الزامات بالکل بے بنیاد ہیں۔ آرمی کے ہسپتالوں کو ادویات فراہم کرنے کا جو طریقہ اپنایا گیا ہے وہ بالکل میرٹ کی بنیاد پر ہے اور آپ کسی بھی آرمی ہسپتال میں چلے جائیں، وہاں آپ کو تما م ادویات ملیں گی اور یہ الزام بالکل غلط ہے کہ ان ادویات کا معیار بہتر نہیں ہیں یا یہ جعلی ہیں۔

فوجی ہسپتالوں کی اپنی لیبارٹریز ہیں، جہاں ادویات کو ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے الزامات بالکل بے بنیاد ہیں۔‘‘ ناقدین کا کہنا ہے کہ ماضی میں جنرل حمید گل، جنرل درانی، جنرل اسلم بیگ، جنرل جاوید اشرف قاضی سمیت کئی فوجی عہدیداروں کے نام مختلف مقدمات اور الزامات میں آئے لیکن ابھی تک ان کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہوئی۔ تاہم انعام الرحیم کا خیال ہے کہ اب عدالتوں کو جنرلوں کے خلاف کارروائی کرنی پڑے گی ورنہ ان کی غیر جانب داری پر بہت بڑا سوالیہ نشان آئے گا۔

بشکریہ DW اردو

پاکستان اسٹیل مل بحران کا حل کیا ہے ؟

پاکستان اسٹیل مل ایک قومی اثاثہ ہے جس کے قیام کیلئے 18 سال تک منصوبہ بندی کرنے کے بعد 1973ء میں اس پر کام شروع ہوا اور 1985ء میں اس نے پیداوار شروع کی۔ 2008 تک مل 28 ارب روپے کے منافع پر چل رہی تھی۔ 2006 میں شوکت عزیز کی حکومت نے اس کی پرائیویٹائزیشن کا فیصلہ کیا جس کی ملک بھر میں مخالفت ہوئی اور سپریم کورٹ نے یہ نجکاری روک دی لیکن مل خسارے کی طرف بڑھنے لگی۔ 2011 میں اسے وفاقی حکومت کی پرائیویٹ کمپنی سے نکال کر براہ راست سرکاری ملکیت میں لے لیا گیا۔ 2012 میں یوکرین نے اس کی بحالی کی پیشکش کی لیکن عدم توجہی سے حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ اس کی پیداوار نہ ہونے سے حکومت کو صرف ڈیڑھ سال کے عرصہ میں دو ارب ڈالر کا زرمبادلہ خرچ کر کے اسٹیل مصنوعات درآمد کرنا پڑیں۔

اسٹیل مل کی بحالی کیلئے اب تک کئی چیئرمین بھی تبدیل کئے گئے لیکن ہزار کوششوں کے باوجود یہ اپنے پیروں پر پھر سے کھڑی نہ ہو سکی۔ جس کے پیش نظر نیب نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ اسٹیل مل کی یہ بربادی کسی سازش کا نتیجہ تو نہیں یہ ایک بہتر سوچ بچار ہے۔ نیب نے مل کی بربادی ، قوم کے اربوں روپے کا ضیاع اور حکومت کی عدم توجہی کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام ذمہ داروں کا تعین کرنے کیلئے مکمل اور جامع انکوائری کا مستحسن فیصلہ کیا ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار نے بھی اس ضمن میں نوٹس لیتے ہوئے نیب کو کارروائی کی سفارش کر رکھی ہے اور اس انکوائری سے پہلے ماضی اور حال کے تمام ذمہ دار افسران کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا فیصلہ بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اسٹیل مل کو بنے 32 سال کا عرصہ ہو گیا ہے اس وقت سے اب تک ملک کی ضروریات کئی گنا بڑھ چکی ہیں اس لحاظ سے وطن عزیزمیں ایسی کئی ملیں موجود ہونا چاہئے تھیں۔ نیب نے اسٹیل مل کے حوالے سے تحقیقات کا جو بیڑہ اٹھایا ہے اسے جلد از جلد مکمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پتا چل سکے کہ قومی ادارے خسارے میں کیوں جا رہے ہیں اور ان کی بحالی کیونکر ممکن ہے ۔

اداریہ روزنامہ جنگ