پی ٹی آئی کے سرپرائز کی صورت میں

عمران خان کیلئے بہتر ہوتا کہ اپنی زیرعتاب سیاسی جماعت کے مستقبل کو بچانے اور آنے والے انتخابات میں تحریک انصاف کے الیکشن لڑنے کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے تحریک انصاف کے اُن سیاستدانوں پر اعتبار کرتے جو فوج مخالف بیانیہ کا کبھی حصہ نہیں رہے۔ لیکن خان صاحب نے ایک طرف تو اپنی جماعت کی سیاست ایسے وکلاء کے حوالے کر دی ہے جو ایک نئی لڑائی لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور دوسری جانب تحریک انصاف کی کور کمیٹی میں اب بھی اُن رہنمائوں کی اکثریت ہے جو انڈرگرائونڈ ہیں اور جنہیں پولیس اور ایجنسیاں گرفتاری کیلئے تلاش کر رہی ہیں۔ اپنی اور اپنی جماعت کی مقبولیت کے زعم میں خان صاحب نے فوج سے ہی ڈائریکٹ ٹکر لے لی اور پھر اُس کے بعد جو ہوا اور جو ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ 9 مئی کے بعد تحریک انصاف تتربتر ہو گئی۔ اس کے کوئی دو ڈھائی سو سابق ممبرانِ اسمبلی اور رہنما پارٹی چھوڑ گئے، نئی سیاسی جماعتیں بن گئی۔ عمران خان سمیت کئی رہنما گرفتار ہو گئے اور کئی انڈر گرائونڈ چلے گئے۔ انتخابات کی تاریخ دے دی گئی لیکن تحریک انصاف کیلئے گھیرا تنگ ہی ہے اور آثار جو نظر آ رہے اُن کے مطابق یہ گھیرا تنگ ہی رہے گا۔ 

تحریک انصاف کو اب بھی یقین ہے کہ اگر بلے کے نشان پر اس کو انتخابات لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے تو چاہے عمران خان جیل میں ہوں یا نااہل بھی کر دیئے جائیں تو انتخابات وہی جیتیں گے۔ حال ہی میں میری گزشتہ پی ڈی ایم حکومت کے دوران اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض ( جو اپوزیشن لیڈر بننے سے پہلے ہی ن لیگ میں شامل ہونے کا اعلان کر چکے تھے) سے بات ہوئی۔ راجہ ریاض کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ مقتدر حلقوں کے قریب ہیں اور یہی وجہ تھی کہ اُن کی طرف سے موجودہ نگراں وزیراعظم کا نام بھی سامنے آیا اور پی ڈی ایم حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف نےاسے فوراً قبول بھی کر لیا۔ چند ہفتے قبل راجہ ریاض نے وسط فروری میں الیکشن ہونے کی پیشنگوئی کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ انتخابات کے دوران عمران خان جیل میں ہی ہوں گے اور بیلٹ پیپر پر بلے کا نشان بھی نہیں ہو گا۔ اب جب میری راجہ ریاض صاحب سے بات ہوئی تو کہنے لگے کہ صورتحال کچھ تبدیل ہو گئی ہے۔ 

اُن کا کہنا تھا کہ بلے کا نشان بیلٹ پیپر پر ہو گا لیکن تحریک انصاف کے جو لوگ الیکشن لڑیں گے اُن کی بڑی اکثریت میں نئے چہرے ہوں گے یعنی اُن کے پاس الیکشن لڑنے کا تجربہ نہیں ہو گا، اُن کے پاس الیکشن مہم کیلئے وقت بھی کم ہو گا جبکہ ماضی کے برعکس تحریک انصاف کو الیکشن کیلئے فنڈنگ کی بھی کمی ہو گی۔ راجہ ریاض کے مطابق ان وجوہات کے باعث تحریک انصاف بہت کم سیٹیں جیتے گی۔ ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے بارے میں ایسی ہی حکمت عملی دیکھنے کو ملے۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں کے مطابق بیلٹ پیپر پر اگر بلے کا نشان ہوتا ہے تو تمام تر مشکلات کے باوجود تحریک انصاف الیکشن جیت جائے گی اگر واقعی ایسا ہی ہوتا ہے اور تحریک انصاف انتخابات میں سرپرائز دے دیتی ہے تو کیا پی ٹی آئی کی قیادت نے یہ سوچا ہے کہ ایسے سرپرائز کے بعد پھر کیا ہو گا۔ خصوصاً ایسی صورتحال میں جب کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی کا خاتمہ نہیں ہوا۔ 

جن کو تحریک انصاف کی جیت کا یقین ہے وہ اس نکتہ کے متعلق سوچ بچار ضرور کریں کیوں کہ انتخابات کے بعد پاکستان کسی نئی کھینچا تانی کا متحمل نہیں ہو سکتا اور 9 مئی کے بعد اگر تحریک انصاف کے اندر کوئی اب بھی یہ سوچ رہا ہے کہ اپنی مقبولیت کے باعث وہ کوئی نئی لڑائی لڑ کر جیت سکتا ہے تو ایسا مجھے ممکن نظر نہیں آتا اور نہ ہی پاکستان کی قوم بشمول تحریک انصاف کے ووٹرز کی بڑی اکثریت اپنی ہی فوج کے ساتھ لڑنے کیلئے تیار ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ جولائی میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق پاک فوج کی بحیثیت ادارہ مقبولیت 88 فیصد تھی۔ یہ وہی سروے ہے جس میں عمران خان کو سیاستدانوں میں سب سے زیادہ مقبول دکھایا گیا تھا۔

انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ

عمران خان کو جیل میں رکھنے کیلئے تیاری؟

جیل میں قید پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اب کسی بھی وقت نیب کی حراست میں جانے والے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ طویل عرصہ تک جیل میں رہنے والے ہیں چاہے پھر انہیں سائفر کیس میں سپریم کورٹ سے ضمانت ہی کیوں نہ مل جائے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب کی جانب سے عمران خان کا ریمانڈ حاصل کیے جانے کے باوجود پی ٹی آئی چیئرمین اڈیالہ جیل میں رہیں گے جہاں وہ پہلے ہی سائفر کیس میں جوڈیشل حراست میں ہیں۔ نیب والے انہیں اپنی جیل میں منتقل نہیں کرنا چاہتے۔ نیب کی درخواست کے بعد اسلام آباد میں قائم نیب عدالت نے سابق وزیراعظم کیخلاف توشہ خانہ اور این سی اے برطانیہ کے ساتھ 190؍ ملین پاؤنڈز کی سیٹلمنٹ کے دو کیسز میں گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا۔ اب چاہے انہیں سائفر کیس میں ضمانت مل بھی جائے، عمران خان نیب کے اقدام کی وجہ سے جیل میں ہی رہیں گے۔ نیب والوں نے احتساب عدالت میں گرفتاری وارنٹ کی تعمیل کی درخواست پیش کی تھی۔ عدالت نے درخواست قبول کرتے ہوئے اڈیالہ جیل کو ہدایت کی کہ قانون کے مطابق اس اقدام پر عمل کریں۔ 

نیب نے موقف اختیار کیا تھا کہ مذکورہ دونوں کیسز میں تحقیقات مکمل کرنے کیلئے چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری ضروری ہے۔ نیب کو عمران خان کا ریمانڈ ملنے کا مطلب ہے کہ جلد ضمانت کا امکان نہیں۔ ایک ماہر قانون کا کہنا ہے کہ نیب کو عمران خان کا ریمانڈ ملنے کا مطلب ہے وہ کم از کم چند ماہ کیلئے جیل میں ہی رہیں گے۔ اڈیالہ جیل میں اپنی حراست کے دوران عمران خان کو جیل میں ہی سائفر کیس میں ٹرائل کا سامنا ہو گا۔ استغاثہ سے توقع کی جا رہی ہے کہ سائفر کیس کا جاری ٹرائل 6؍ سے 8؍ ہفتوں تک جاری رہے گا۔ کہا جا رہا ہے کہ اڈیالہ جیل میں ہونے والی سماعت کے دوران استغاثہ کی جانب سے 6؍ گواہ پیش کیے جائیں گے۔ مجموعی طور پر گواہوں کی تعداد 27؍ ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ سائفر کیس عمران خان کیلئے سنگین نتائج پیدا کر سکتا ہے۔ 

9؍ مئی کو عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی حدود سے درجن بھر رینجرز اہلکاروں نے 190؍ ملین پاؤنڈ کے این سی اے سے جڑے کیس میں گرفتار کیا تھا، جس کے نتیجے میں ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ تاہم، 11؍ مئی کو سپریم کورٹ نے ان کی گرفتاری کو ’’غیر قانونی‘‘ قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ 12؍ مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکام کو 15؍ مئی تک ملک بھر میں درج کردہ (غیر اعلانیہ کیسز سمیت) کسی بھی کیس میں عمران خان کو گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔ بعد میں، توشہ خان کیس میں فرد جرم عائد کیے جانے کے بعد عمران خان کو اسلام آباد کی سیشن کورٹ سے گرفتار کیا گیا اور اس وقت سے وہ جیل میں ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خان کیس میں اُن کی گرفتاری معطل کر دی تھی لیکن رہائی سے قبل ہی انہیں سائفر کیس میں گرفتار کر لیا گیا۔ انہیں اس کیس میں ریمانڈ پر لے کر اڈیالہ جیل میں جوڈیشل تحویل میں رکھا گیا ہے۔

انصار عباسی 

بشکریہ روزنامہ جنگ

لاڈلوں کا سلسلہ

ایک لاڈلہ ماضی میں تھا، ایک کے ساتھ آج کل لاڈلے جیسا سلوک کیا جا رہا ہے اور ایک ہے جو لاڈلہ بننے کی جستجو میں ہے اور لاڈلہ نہ بنائے جانے پر خفگی دکھا رہا ہے۔ یہ پاکستان کی سیاست کا وہ المیہ ہے جو نہ ختم ہونے کا نام لے رہا ہے، نہ لاڈلہ بننے کی ریس تھم رہی ہے اور نہ ہی لاڈلہ بنانے والوں کا طریقہ کار بدل رہا ہے۔ نام جمہوریت کا لیا جاتا لیکن حقیقت میں ہم ایک ایسے ہائبرڈ نظام کا حصہ ہیں جس کی مثال آدھا تیتر آدھا بٹیر والی ہے۔ اصل لڑائی اختیار اور طاقت کی ہے جو آج کے لاڈلے ہوں، ماضی کے یا لاڈلے بننے کی خواہش رکھتے ہوں، سب نے اور اُن کے بڑوں نے یہ لڑائی ہمیشہ ہاری ہے۔ اس کی جہاں اور بہت سی وجوہات ہیں وہاں سب سے بڑی وجہ میری نظر میں آئین اور جمہوریت پر ان لاڈلوں کے یقین کا نہ ہونا ہے اور جب بھی انہیں اقتدار کا موقع ملتا رہا تو انہوں نے آئین اور جمہوریت کا نام اُسی حد تک استعمال کیا جہاں تک اُن کو سوٹ کرتا تھا۔ لاڈلے بنانے والے سیاست میں مداخلت کر کے آئین اور جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو لاڈلے جمہوریت کو صرف الیکشن اور اقتدار کے حصول تک محدود رکھتے ہیں۔

آئین کو پڑھیں، جمہوریت کے نظام کی اصل کو سمجھیں تو مقصد عوام کی خدمت، اُن کی فلاح، خوشحالی، میرٹ، قانون کی عملداری، بہترین طرز حکمرانی، سرکاری اداروں کی عوام کیلئے بغیر سفارش فوری سروس ڈلیوری، سستے اور فوری انصاف کی فراہمی ہے۔ یعنی ایک ایسے نظام کا قیام جس کا مقصد عوام کو روزگار، بنیادی سہولتیں، تعلیم وصحت، سب کچھ مہیا کرنا ہو۔ جتنے ادارے بنائے جاتے ہیں سب کا مقصد ملک اور عوام کی خدمت ہے۔ اب اپنے آپ کو دیکھیں تو جمہوریت الیکشن سے آگے کچھ نہیں۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ نہ انصاف کا نظام، نہ تعلیم و صحت کی سہولتیں، نہ میرٹ، نہ بنیادی سہولتیں، نہ روزگار کے مواقع۔ عوام کی خدمت اور سہولت کیلئے بنائے گئے کسی سرکاری محکمے میں چلے جائیں عوام دھکے کھاتے دکھائی دیں گے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جو پولیس کے محکمہ کو ٹھیک نہیں کرتی، واپڈا میں چلے جائیں، بجلی و گیس کے میٹر لگانے کی کوشش کرلیں، گھر، زمین خریدنے بیچنے کے معاملہ کو دیکھ لیں، بچے کی پیدائش اور کسی کی فوتیدگی کا سرٹیفکیٹ لینے چلے جائیں یا انصاف کیلئے کورٹ کچہری جانے کا اگر آپ کو اتفاق ہو تو ہر طرف عوام کیلئے دھکے ہی دھکے ہیں۔ سفارش چلتی ہے یا پیسہ۔

جائز سے جائز کام کسی سرکاری ادارے میں نہیں ہوتا اور یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے لیکن جمہوریت کے نام پر ایک کے بعد ایک اقتدار میں آنے والے اپنی اصل ذمہ داری کو پورا نہیں کرتے۔ بس ایک ریس ہے لاڈلہ بننے کی اور لاڈلہ بنے رہنے کی۔ لاڈلہ بنانے والے بھی طرز حکمرانی کی درستی میں دلچسپی نہیں لیتے کیوں کہ اُن کا اصل مقصد اپنی طاقت کو برقرار رکھنا ہے اور یہ طاقت اُس وقت تک برقرار رہے گی جب تک کہ لاڈلے آئین اور جمہوریت کی روح کے مطابق عوام کی خدمت کیلئے گورننس سسٹم کو ٹھیک نہیں کرتے۔ ایسا گورننس سسٹم جس کا مقصد صرف اور صرف عوام کی فلاح، اُن کی خدمت، اُن کیلئے سہولتوں کی فراہمی اور تمام بنیادی ضروریات کا آسانی سے مہیا کیا جانا ہو۔ یہ کچھ بھی پاکستان میں نہیں ہوتا۔ ہمیں جس جمہوریت کا سبق پڑھایا جاتا ہے وہ صرف الیکشن اور ووٹوں تک محدود ہے۔ جب ہماری اس جمہوریت کےلاڈلے الیکشن جیت کر حکومت بناتے ہیں تو گورننس کے نظام کو درست کرنے، سرکاری مشینری کو غیر سیاسی کرنے اور اُسے عوامی خدمت کی طرف فوکس کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے اسی لیے نہ ہماری پولیس ٹھیک ہوتی ہے نہ سرکاری ادارے، نہ یہاں انصاف ملتا ہے نہ کسی کو آئین کے مطابق بنیادی سہولتیں مہیا ہوتی ہیں۔ جمہوریت کے نام پر عوام سے اس نہ ختم ہونے والےفراڈ کو روکا جانا چاہیے۔ اپنی اپنی مرضی کا آئین اور اپنی اپنی مرضی کی جمہوریت کا یہ کھیل رکنا چاہیے۔

انصار عباسی 

بشکریہ روزنامہ جنگ

یہ اکیسویں صدی کے حکمران ہیں

ہندوستان کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کا رنگون میں بڑی کسمپرسی میں انتقال ہوا۔ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ 1858 میں جو ہوا، اس کی وجوہات بھی تھیں، ہندوستان کی جو حالت اس وقت تھی، وہ اکیسویں صدی کے پاکستان میں کوئی خاص مختلف نہیں۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے دو تہائی اکثریت سے بننے والے وزیر اعظم نواز شریف کو اقتدار سے ہٹایا، مگر منتخب وزیر اعظم کو ایک جھوٹے طیارہ اغوا کیس میں عمر قید کی سزا دلانے کے بعد ان کے خاندان سمیت ایک معاہدے کے تحت سعودی عرب جلا وطن کر دیا۔ یہ جلاوطنی نہ ہوتی تو نواز شریف کا حشر سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو جیسا ہونے کا واضح امکان تھا۔ اس جلاوطنی نے نہ صرف جان بچائی بلکہ وہ تیسری بار وزیر اعظم بھی بنے۔ بھٹو کو جنرل ضیا دور میں جو پھانسی ہوئی، اس سے بھٹو صاحب ڈیل کر کے بچ سکتے تھے مگر ان کی ضد برقرار رہی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں دو بار وزیر اعظم رہنے والی بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے باپ کی طرح ضد کی اور معاہدے کے برعکس وہ بھی اکتوبر 2007 میں جنرل پرویز مشرف کے منع کرنے کے باوجود وطن واپس آئیں اور سوا دو ماہ بعد ہی راولپنڈی کے جلسے کے بعد واپس جاتے ہوئے شہید کر دی گئی تھیں۔

بھٹو کو پھانسی، نواز شریف کی جلا وطنی اور بے نظیر بھٹو کی شہادت فوجی صدور کے دور میں ہوئی جب کہ 1986 میں بے نظیر بھٹو جونیجو حکومت میں شاندار استقبال کرا کر آئی تھیں اور دو سال بعد ہی وزیر اعظم بنی تھیں جب کہ نواز شریف کے لیے 2008 میں واپسی کی راہ جنرل پرویز مشرف نے مجبوری میں ہموار کی تھی اور بعد میں وہ صدارت چھوڑ کر خود جلاوطن ہو گئے تھے اور انھی کے دور میں بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری بھی طویل قید کاٹ کر جلاوطن ہوئے تھے اور جنرل پرویز کی جگہ آصف زرداری صدر مملکت اور 2013 میں نواز شریف بھی تیسری بار وزیر اعظم بنے اور اب چار سال بعد وہ بھی اقتدار کے لیے 21 اکتوبر کو خود پاکستان آ رہے ہیں۔ ڈھائی سو سال قبل انگریز دور میں آخری حکمران ہند کو جبری طور پر جلاوطن کیا گیا مگر بے کسی کی موت کے بعد رنگون میں دفن ہوئے مگر پاکستان میں ملک توڑنے کے ذمے دار جنرل یحییٰ اور ذوالفقار علی بھٹو یہیں دفن ہیں اور دو وزرائے اعظم کو جلاوطن کرنے والے جنرل پرویز مشرف کو بھی دبئی میں فوت ہونے کے بعد اپنے ملک ہی میں دفن ہونے کا موقعہ ملا۔ 

یہ موقع سابق صدر اسکندر مرزا کو جنرل ایوب دور میں نہیں ملا تھا اور وہ بھی بہادر شاہ ظفر کی طرح دیار غیر میں دفن ہیں اور پاکستان کے تمام حکمران اپنے ملک ہی میں دفن ہیں، کیونکہ یہ 1858 کے انگریز کا دور نہیں، بیسویں صدی کے پاکستانی حکمرانوں کا دور ہے اور اسکندر مرزا کی قسمت میں اپنے ملک کی مٹی میں دفن ہونا نہیں تھا۔ 1985 کے جنرل ضیا سے 2008 تک جنرل پرویز کے دور تک فوت ہونے والے تمام پاکستانی حکمران دفن ہیں اور کسی نے بھی بہادر شاہ ظفر جیسی بے کسی کی موت دیکھی نہ ہی وہ جلاوطنی میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ تمام فوت ہونے والے پاکستانی حکمرانوں کو وطن کی مٹی نصیب ہوئی اور جو بھی حکمران جلاوطن ہوئے انھوں نے دبئی، سعودی عرب اور لندن میں جلاوطنی کی زندگی شاندار طور پر وہاں بنائی گئی اپنی قیمتی جائیدادوں میں گزاری۔ دبئی ہو یا لندن بے نظیر بھٹو،آصف زرداری، نواز شریف فیملی کی اپنی مہنگی جائیدادیں ہیں جہاں انھیں بہترین رہائشی سہولیات میسر ہیں مگر ان پر الزامات ہیں کہ انھوں نے اپنے دور حکمرانی میں اپنی مبینہ کرپشن سے جائیدادیں بنائی ہیں۔ 

نواز شریف پر لندن میں ایون فیلڈ بنانے پر اب بھی کیس چل رہا ہے مگر اس کی ملکیت کا ان کے خلاف ثبوت نہیں اور بے نظیر بھٹو کے سرے محل کا بھی اب تذکرہ نہیں ہوتا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ملک میں حکمران رہنے والے امیروں کی ملک سے باہر اربوں کی جائیدادیں ہیں جو ملک میں اہم عہدوں پر تعینات رہے جن میں ملک کے ہر محکمے کے اعلیٰ ترین افسران شامل ہیں جنھوں نے غیر ملکی شہریت بھی لے رکھی ہے۔ شریف اور زرداری خاندان ملک سے باہر بھی رہتے ہیں اور حکمرانی کرنے پاکستان آتے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اکیسویں صدی کے حکمرانوں کے باعث وہی حالات ہیں جو 1858 میں ہندوستان میں بہادر شاہ ظفر کی حکومت میں رہے۔ عوام کے مینڈیٹ کا کسی کو احساس نہیں۔ حکمرانوں نے ملک کو لوٹ لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بنائیں جب کہ 1858 میں اس کا تصور نہیں تھا۔ آج برما کے شہروں میں بہادر شاہ ظفر کی نسلیں بھیک مانگتی پھرتی ہیں جب کہ اکیسویں صدی کے پاکستانی حکمرانوں کی اولادیں شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ اب اکیسویں صدی ہے۔

محمد سعید آرائیں 

بشکریہ ایکسپریس نیوز