عمران خان کیلئے بہتر ہوتا کہ اپنی زیرعتاب سیاسی جماعت کے مستقبل کو بچانے اور آنے والے انتخابات میں تحریک انصاف کے الیکشن لڑنے کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے تحریک انصاف کے اُن سیاستدانوں پر اعتبار کرتے جو فوج مخالف بیانیہ کا کبھی حصہ نہیں رہے۔ لیکن خان صاحب نے ایک طرف تو اپنی جماعت کی سیاست ایسے وکلاء کے حوالے کر دی ہے جو ایک نئی لڑائی لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور دوسری جانب تحریک انصاف کی کور کمیٹی میں اب بھی اُن رہنمائوں کی اکثریت ہے جو انڈرگرائونڈ ہیں اور جنہیں پولیس اور ایجنسیاں گرفتاری کیلئے تلاش کر رہی ہیں۔ اپنی اور اپنی جماعت کی مقبولیت کے زعم میں خان صاحب نے فوج سے ہی ڈائریکٹ ٹکر لے لی اور پھر اُس کے بعد جو ہوا اور جو ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ 9 مئی کے بعد تحریک انصاف تتربتر ہو گئی۔ اس کے کوئی دو ڈھائی سو سابق ممبرانِ اسمبلی اور رہنما پارٹی چھوڑ گئے، نئی سیاسی جماعتیں بن گئی۔ عمران خان سمیت کئی رہنما گرفتار ہو گئے اور کئی انڈر گرائونڈ چلے گئے۔ انتخابات کی تاریخ دے دی گئی لیکن تحریک انصاف کیلئے گھیرا تنگ ہی ہے اور آثار جو نظر آ رہے اُن کے مطابق یہ گھیرا تنگ ہی رہے گا۔
Tag Archives: Imran Khan
عمران خان کو جیل میں رکھنے کیلئے تیاری؟
جیل میں قید پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اب کسی بھی وقت نیب کی حراست میں جانے والے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ طویل عرصہ تک جیل میں رہنے والے ہیں چاہے پھر انہیں سائفر کیس میں سپریم کورٹ سے ضمانت ہی کیوں نہ مل جائے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب کی جانب سے عمران خان کا ریمانڈ حاصل کیے جانے کے باوجود پی ٹی آئی چیئرمین اڈیالہ جیل میں رہیں گے جہاں وہ پہلے ہی سائفر کیس میں جوڈیشل حراست میں ہیں۔ نیب والے انہیں اپنی جیل میں منتقل نہیں کرنا چاہتے۔ نیب کی درخواست کے بعد اسلام آباد میں قائم نیب عدالت نے سابق وزیراعظم کیخلاف توشہ خانہ اور این سی اے برطانیہ کے ساتھ 190؍ ملین پاؤنڈز کی سیٹلمنٹ کے دو کیسز میں گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا۔ اب چاہے انہیں سائفر کیس میں ضمانت مل بھی جائے، عمران خان نیب کے اقدام کی وجہ سے جیل میں ہی رہیں گے۔ نیب والوں نے احتساب عدالت میں گرفتاری وارنٹ کی تعمیل کی درخواست پیش کی تھی۔ عدالت نے درخواست قبول کرتے ہوئے اڈیالہ جیل کو ہدایت کی کہ قانون کے مطابق اس اقدام پر عمل کریں۔
نیب نے موقف اختیار کیا تھا کہ مذکورہ دونوں کیسز میں تحقیقات مکمل کرنے کیلئے چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری ضروری ہے۔ نیب کو عمران خان کا ریمانڈ ملنے کا مطلب ہے کہ جلد ضمانت کا امکان نہیں۔ ایک ماہر قانون کا کہنا ہے کہ نیب کو عمران خان کا ریمانڈ ملنے کا مطلب ہے وہ کم از کم چند ماہ کیلئے جیل میں ہی رہیں گے۔ اڈیالہ جیل میں اپنی حراست کے دوران عمران خان کو جیل میں ہی سائفر کیس میں ٹرائل کا سامنا ہو گا۔ استغاثہ سے توقع کی جا رہی ہے کہ سائفر کیس کا جاری ٹرائل 6؍ سے 8؍ ہفتوں تک جاری رہے گا۔ کہا جا رہا ہے کہ اڈیالہ جیل میں ہونے والی سماعت کے دوران استغاثہ کی جانب سے 6؍ گواہ پیش کیے جائیں گے۔ مجموعی طور پر گواہوں کی تعداد 27؍ ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ سائفر کیس عمران خان کیلئے سنگین نتائج پیدا کر سکتا ہے۔
9؍ مئی کو عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی حدود سے درجن بھر رینجرز اہلکاروں نے 190؍ ملین پاؤنڈ کے این سی اے سے جڑے کیس میں گرفتار کیا تھا، جس کے نتیجے میں ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ تاہم، 11؍ مئی کو سپریم کورٹ نے ان کی گرفتاری کو ’’غیر قانونی‘‘ قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ 12؍ مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکام کو 15؍ مئی تک ملک بھر میں درج کردہ (غیر اعلانیہ کیسز سمیت) کسی بھی کیس میں عمران خان کو گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔ بعد میں، توشہ خان کیس میں فرد جرم عائد کیے جانے کے بعد عمران خان کو اسلام آباد کی سیشن کورٹ سے گرفتار کیا گیا اور اس وقت سے وہ جیل میں ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خان کیس میں اُن کی گرفتاری معطل کر دی تھی لیکن رہائی سے قبل ہی انہیں سائفر کیس میں گرفتار کر لیا گیا۔ انہیں اس کیس میں ریمانڈ پر لے کر اڈیالہ جیل میں جوڈیشل تحویل میں رکھا گیا ہے۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
لاڈلوں کا سلسلہ
ایک لاڈلہ ماضی میں تھا، ایک کے ساتھ آج کل لاڈلے جیسا سلوک کیا جا رہا ہے اور ایک ہے جو لاڈلہ بننے کی جستجو میں ہے اور لاڈلہ نہ بنائے جانے پر خفگی دکھا رہا ہے۔ یہ پاکستان کی سیاست کا وہ المیہ ہے جو نہ ختم ہونے کا نام لے رہا ہے، نہ لاڈلہ بننے کی ریس تھم رہی ہے اور نہ ہی لاڈلہ بنانے والوں کا طریقہ کار بدل رہا ہے۔ نام جمہوریت کا لیا جاتا لیکن حقیقت میں ہم ایک ایسے ہائبرڈ نظام کا حصہ ہیں جس کی مثال آدھا تیتر آدھا بٹیر والی ہے۔ اصل لڑائی اختیار اور طاقت کی ہے جو آج کے لاڈلے ہوں، ماضی کے یا لاڈلے بننے کی خواہش رکھتے ہوں، سب نے اور اُن کے بڑوں نے یہ لڑائی ہمیشہ ہاری ہے۔ اس کی جہاں اور بہت سی وجوہات ہیں وہاں سب سے بڑی وجہ میری نظر میں آئین اور جمہوریت پر ان لاڈلوں کے یقین کا نہ ہونا ہے اور جب بھی انہیں اقتدار کا موقع ملتا رہا تو انہوں نے آئین اور جمہوریت کا نام اُسی حد تک استعمال کیا جہاں تک اُن کو سوٹ کرتا تھا۔ لاڈلے بنانے والے سیاست میں مداخلت کر کے آئین اور جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو لاڈلے جمہوریت کو صرف الیکشن اور اقتدار کے حصول تک محدود رکھتے ہیں۔
آئین کو پڑھیں، جمہوریت کے نظام کی اصل کو سمجھیں تو مقصد عوام کی خدمت، اُن کی فلاح، خوشحالی، میرٹ، قانون کی عملداری، بہترین طرز حکمرانی، سرکاری اداروں کی عوام کیلئے بغیر سفارش فوری سروس ڈلیوری، سستے اور فوری انصاف کی فراہمی ہے۔ یعنی ایک ایسے نظام کا قیام جس کا مقصد عوام کو روزگار، بنیادی سہولتیں، تعلیم وصحت، سب کچھ مہیا کرنا ہو۔ جتنے ادارے بنائے جاتے ہیں سب کا مقصد ملک اور عوام کی خدمت ہے۔ اب اپنے آپ کو دیکھیں تو جمہوریت الیکشن سے آگے کچھ نہیں۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ نہ انصاف کا نظام، نہ تعلیم و صحت کی سہولتیں، نہ میرٹ، نہ بنیادی سہولتیں، نہ روزگار کے مواقع۔ عوام کی خدمت اور سہولت کیلئے بنائے گئے کسی سرکاری محکمے میں چلے جائیں عوام دھکے کھاتے دکھائی دیں گے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جو پولیس کے محکمہ کو ٹھیک نہیں کرتی، واپڈا میں چلے جائیں، بجلی و گیس کے میٹر لگانے کی کوشش کرلیں، گھر، زمین خریدنے بیچنے کے معاملہ کو دیکھ لیں، بچے کی پیدائش اور کسی کی فوتیدگی کا سرٹیفکیٹ لینے چلے جائیں یا انصاف کیلئے کورٹ کچہری جانے کا اگر آپ کو اتفاق ہو تو ہر طرف عوام کیلئے دھکے ہی دھکے ہیں۔ سفارش چلتی ہے یا پیسہ۔
جائز سے جائز کام کسی سرکاری ادارے میں نہیں ہوتا اور یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے لیکن جمہوریت کے نام پر ایک کے بعد ایک اقتدار میں آنے والے اپنی اصل ذمہ داری کو پورا نہیں کرتے۔ بس ایک ریس ہے لاڈلہ بننے کی اور لاڈلہ بنے رہنے کی۔ لاڈلہ بنانے والے بھی طرز حکمرانی کی درستی میں دلچسپی نہیں لیتے کیوں کہ اُن کا اصل مقصد اپنی طاقت کو برقرار رکھنا ہے اور یہ طاقت اُس وقت تک برقرار رہے گی جب تک کہ لاڈلے آئین اور جمہوریت کی روح کے مطابق عوام کی خدمت کیلئے گورننس سسٹم کو ٹھیک نہیں کرتے۔ ایسا گورننس سسٹم جس کا مقصد صرف اور صرف عوام کی فلاح، اُن کی خدمت، اُن کیلئے سہولتوں کی فراہمی اور تمام بنیادی ضروریات کا آسانی سے مہیا کیا جانا ہو۔ یہ کچھ بھی پاکستان میں نہیں ہوتا۔ ہمیں جس جمہوریت کا سبق پڑھایا جاتا ہے وہ صرف الیکشن اور ووٹوں تک محدود ہے۔ جب ہماری اس جمہوریت کےلاڈلے الیکشن جیت کر حکومت بناتے ہیں تو گورننس کے نظام کو درست کرنے، سرکاری مشینری کو غیر سیاسی کرنے اور اُسے عوامی خدمت کی طرف فوکس کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے اسی لیے نہ ہماری پولیس ٹھیک ہوتی ہے نہ سرکاری ادارے، نہ یہاں انصاف ملتا ہے نہ کسی کو آئین کے مطابق بنیادی سہولتیں مہیا ہوتی ہیں۔ جمہوریت کے نام پر عوام سے اس نہ ختم ہونے والےفراڈ کو روکا جانا چاہیے۔ اپنی اپنی مرضی کا آئین اور اپنی اپنی مرضی کی جمہوریت کا یہ کھیل رکنا چاہیے۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
یہ اکیسویں صدی کے حکمران ہیں
ہندوستان کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کا رنگون میں بڑی کسمپرسی میں انتقال ہوا۔ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ 1858 میں جو ہوا، اس کی وجوہات بھی تھیں، ہندوستان کی جو حالت اس وقت تھی، وہ اکیسویں صدی کے پاکستان میں کوئی خاص مختلف نہیں۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے دو تہائی اکثریت سے بننے والے وزیر اعظم نواز شریف کو اقتدار سے ہٹایا، مگر منتخب وزیر اعظم کو ایک جھوٹے طیارہ اغوا کیس میں عمر قید کی سزا دلانے کے بعد ان کے خاندان سمیت ایک معاہدے کے تحت سعودی عرب جلا وطن کر دیا۔ یہ جلاوطنی نہ ہوتی تو نواز شریف کا حشر سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو جیسا ہونے کا واضح امکان تھا۔ اس جلاوطنی نے نہ صرف جان بچائی بلکہ وہ تیسری بار وزیر اعظم بھی بنے۔ بھٹو کو جنرل ضیا دور میں جو پھانسی ہوئی، اس سے بھٹو صاحب ڈیل کر کے بچ سکتے تھے مگر ان کی ضد برقرار رہی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں دو بار وزیر اعظم رہنے والی بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے باپ کی طرح ضد کی اور معاہدے کے برعکس وہ بھی اکتوبر 2007 میں جنرل پرویز مشرف کے منع کرنے کے باوجود وطن واپس آئیں اور سوا دو ماہ بعد ہی راولپنڈی کے جلسے کے بعد واپس جاتے ہوئے شہید کر دی گئی تھیں۔