مولانا طارق جمیل پر غصہ کیوں؟

قدرت راستوں کا تعین کرتی ہے، انسانوں کے بس میں یہ بھی نہیں۔ طارق جمیل کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ جب والد نے سینٹرل ماڈل اسکول لاہور میں داخل کرایا تو اس وقت طارق جمیل زمینداروں کا ایک بچہ تھا، میاں چنوں کے پاس ان کا آبائی علاقہ تلمبہ زمینداروں کی وجہ سے نہیں، اہل طرب کی وجہ سے مشہور ہے مگر اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وہاں کے بڑے زمیندار سہو ہیں، طارق جمیل، چوہان راجپوتوں کے قبیلے سہو سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا خاندان شیر شاہ سوری کے دور میں تلمبہ کا حکمران تھا، تلمبہ کے آس پاس زمینیں اسی خاندان نے تقسیم کیں۔ میٹرک کے بعد طارق جمیل نے گورنمنٹ کالج لاہور پہنچ کر راوین بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ 1969ء میں گورنمنٹ کالج کے اقبال ہوسٹل میں عزیز اللہ نیازی اور طارق جمیل روم میٹ تھے، دونوں ہاکی کے کھلاڑی تھے، طارق جمیل شاندار گلوکار بھی تھا۔

ایک دن عزیز اللہ نیازی، طارق جمیل کو رائے ونڈ لے گیا، اقبال ہاسٹل سے ایک اور طالب علم ارشد اولکھ بھی رائے ونڈ گیا۔ عزیز اللہ نیازی خود تو واپس آ گیا مگر طارق جمیل کا وہاں دل لگ گیا۔ ایف ایس سی کے بعد کنگ ایڈورڈ میں داخلہ ہوا مگر وہ میڈیکل کے بجائے دین کی طرف راغب ہو گیا۔ وہ ڈاکٹر تو نہ بن سکا البتہ مولانا بن گیا۔ بظاہر ڈاکٹر نہ بن سکنے والے نے بے شمار انسانوں کا علاج کیا، لاکھوں انسانوں کی روحوں کو سکون بخشنے والے طور طریقے بتائے۔ رب لم یزل نے اسے شہرت سے بہت نوازا۔ اس مسیحائی کی اسے کئی مرتبہ قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔ والد نے یہ کہہ کر گھر سے نکال دیا کہ ’’تمہیں لاہور ڈاکٹر بننے کے لئے بھیجا تھا، مولوی نہیں، کیا ہم زمینداروں کے بچے مولوی بنیں گے؟‘‘ ایک قیمت چند دن پہلے بھی ادا کرنا پڑی، ان کی باتوں پر میڈیا کے چند لوگ غصے میں آ گئے، وہ غصے میں کیوں آئے، اس پہ بعد میں بات کرتے ہیں، پہلے معاشرے کی تصویر کا ایک رخ دیکھ لیجئے۔

تبلیغی مرکز سے تعلق کی وجہ سے ہم انہیں ایک مخصوص فرقے کا نمائندہ سمجھتے تھے مگر یہ پرانی بات ہے جیسے جیسے پاکستان میں میڈیا اور سوشل میڈیا بڑھا تو پتا چلا کہ طارق جمیل تو فرقہ پرستی کے خلاف ہے بلکہ وہ تو اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ تفرقوں میں نہ پڑو۔ پھر طارق جمیل نے ’’گلدستۂ اہل بیت‘‘ لکھ کر شکوک و شبہات کے سارے قصے ختم کر دیے۔ میرے مرشد کا علامہ اقبالؒ سے کیا تعلق تھا، یہ متعدد بار لکھ چکا ہوں۔ مرشد نے وقتِ رخصت ایک بات سمجھائی تھی کہ ’’دونوں جہانوں میں اہل بیت سے محبت کرنا، اس دنیا میں بھی اہل بیت کا گھرانا اور اگلے جہان میں بھی اہل بیت کا گھرانا ہے، اس گھرانے سے محبت نہ چھوڑنا‘‘۔ خواتین و حضرات! ٹی وی اینکرز نے کیوں برا منایا؟ ان سے متعلق وزیراعظم عمران خان نے بہت کچھ کہا مگر وہ چپ رہے، آصف زرداری انہیں سیاسی اداکار کہتے تھے۔ 

رانا ثناء اللہ نے تو اینکرز کے بارے میں ایسی بات کہی کہ میں وہ شرمناک بات لکھ بھی نہیں سکتا، اس کے علاوہ بھی کئی لوگوں نے بہت کچھ کہا مگر یہ سب چپ رہے اور خوشیاں منانے والے یہ بھول گئے کہ فلسفۂ آزادیٔ اظہار کیا کہتا ہے؟ مولانا طارق جمیل کو اللہ تعالیٰ نے خطابت کے جوہر سے نواز رکھا ہے، فرقہ واریت سے کہیں دور، محبت گھولتی ہوئی گفتگو مولانا طارق جمیل کا خاصہ ہے۔ لوگ ان کی گفتگو بھرپور توجہ سے سنتے ہیں۔ انہوں نے پیارے رسولؐ کی حدیث کی روشنی میں معاشرے کی جو عکاسی کی وہ بالکل درست ہے۔ ذرا سوچئے، کیا ہمارے معاشرے میں جھوٹ، دھوکا اور بے حیائی نہیں؟ کیا یہاں رشوت کے بازار گرم نہیں؟ کیا ملاوٹ اور بددیانتی نہیں؟ کیا یہاں گراں فروشی نہیں؟ کیا ہمارے ملک میں لوگوں کی جائیدادوں پر قبضے نہیں ہوتے؟ کیا ملک میں زکوٰۃ کا نظام درست ہے؟ کیا یہاں پولیس ظالم کے ساتھ کھڑی نہیں ہوتی؟ کیا یہاں مافیاز بددیانتی کا مظاہرہ نہیں کرتے؟ کیا یہاں کا ہر طبقہ بے ایمانی نہیں کرتا؟

کیا یہاں نہری پانی چوری نہیں ہوتا؟ کیا ہمارے تاجر نے بددیانتی اور سود چھوڑ دیا ہے؟ کیا ہمارے معاشرے میں لاشوں کی بے حرمتی نہیں کی گئی؟ کیا تم قصور کی زینب کو بھول گئے ہو؟ مجھ سمیت میڈیا کے بہت سے لوگ اقرار کر رہے ہیں کہ اس شعبے میں بہت سے لوگ جھوٹ بولتے ہیں، بہت سے منافقت کرتے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جو تکبر کرتے ہیں، کچھ کی زندگیوں کا مشن محض دولت کا حصول ہے۔ مولانا نے بحیثیت مجموعی بات کی، انہو ں نے تو نظامِ عدل پر بھی تنقید کی۔ اگر انہوں نے یہ کہہ دیا کہ عمران خان کو اجڑا ہوا چمن ملا ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟ جھوٹ جہاں غالب ہو وہاں اتنا کڑوا سچ واقعی جرم ہے۔ جہاں جھوٹ کا بسیرا ہو وہاں سچ بولنا خطا سے کم نہیں۔ کس طرح ایک سیاسی جماعت کے ہرکارے، کچھ سیاسی اداکار اور نام نہاد لبرلز ایک عالم دین کے پیچھے پڑ گئے۔ جس کا قصور یہ تھا کہ اس نے معاشرے سے اپیل کی کہ برائیاں چھوڑ کر اللہ کو راضی کرو۔ خواتین و حضرات۔ حالیہ صورتحال پر تو ڈاکٹر خورشید رضوی کا شعر یاد آ رہا ہے کہ؎

ہر جبر سے خاموش گزر آئے کہ افسوس
جاں بھی ہمیں درکار تھی عزت کے علاوہ

مظہر بر لاس

بشکریہ روزنامہ جنگ

محمد مُرسی : شیر کی موت

اُسے اقتدار تو مل گیا لیکن اختیار نہ ملا۔ عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آنے والا یہ لیڈر اختیار حاصل کرنا چاہتا تھا تاکہ عوام سے کئے گئے وعدے پورے کر سکے۔ اُس نے پارلیمنٹ کے ذریعہ اختیار حاصل کرنے کی کوشش کی تو فوجی جرنیل اور اعلیٰ عدلیہ کے کچھ جج ناراض ہو گئے۔ سیاسی مخالفین پہلے سے ناراض تھے لہٰذا وہ سڑکوں پر آ گئے اور اُنہوں نے ’’نا اہل‘‘ حکومت کی برطرفی کا مطالبہ شروع کر دیا۔ عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آنے والے لیڈر کے حامی بھی سڑکوں پر نکل آئے اور اُنہوں نے اپنے لیڈر کے حق میں مظاہرے شروع کر دیئے۔ کچھ سیاستدانوں نے فوج سے مداخلت کا مطالبہ کر دیا اور پھر فوج نے ملک کے منتخب حکمران کو الٹی میٹم دیا کہ وہ اڑتالیس گھنٹوں میں اقتدار چھوڑ دے تو اُسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ نہ جیل میں ڈالا جائے گا، نہ کوئی مقدمہ چلایا جائے گا بس اُسے یہ یقین دہانی کرانا تھی کہ وہ سیاست سے کنارہ کش ہو جائے گا۔ 

اُس نے انکار کر دیا۔ پھر پیغام دیا گیا کہ آپ بیرون ملک چلے جائیں اور کچھ سال تک خاموشی اختیار کریں لیکن یہ پیشکش بھی مسترد ہو گئی تو فوج نے منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ایک منتخب حکمران کو جیل میں ڈال کر قاتل، چور، ڈاکو اور ملک دشمن قرار دیدیا گیا۔ بیک وقت کئی مقدمات شروع ہو گئے اور سزائیں سنانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ گرفتار لیڈر کی مقبولیت میں کوئی کمی نہ آئی تو اُس پر جاسوسی کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اُس کے اعصاب توڑنے کے لئے اُسے قیدِ تنہائی میں رکھا گیا، ڈاکٹر اور وکلاء سے ملاقاتیں بند کر دی گئیں، اہل خانہ سے ملاقاتیں کم ہو گئیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے آواز اٹھائی کہ ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کے مرض میں مبتلا شخص کو ڈاکٹر سے دور قیدِ تنہائی میں رکھنا ٹارچر کے زمرے میں آتا ہے اور یہ ٹارچر قیدی کے لئے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ 

پھر 17 جون 2019 کو یہ قیدی شیشے کے ایک پنجرے میں بند کر کے عدالت میں لایا گیا۔ دورانِ سماعت بلٹ پروف شیشے کے پنجرے میں بند یہ قیدی گر گیا۔ اسے اسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ وہ مر چکا ہے۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے مرنے والا شخص مصر کا پہلا منتخب صدر محمد مُرسی تھا جو مرنے کے بعد مصر کے ڈرپوک فوجی جرنیلوں اور ججوں کے لئے ایک ڈرائونا خواب بن چکا ہے۔ مصر کے فوجی صدر جنرل عبدالفتح السیسی مردہ محمد مرسی سے اتنے خوفزدہ تھے کہ اُن کا جسدِ خاکی اہلِ خانہ کے حوالے نہ کیا کہ کہیں جنازے میں بہت زیادہ لوگ نہ آ جائیں۔ رات کے اندھیرے میں چند لوگوں کی موجودگی میں محمد مرسی کو قبر میں اتار کر جنرل عبدالفتح السیسی نے اپنا اقتدار تو بچا لیا لیکن جب صبح کا سورج طلوع ہوا تو مردہ محمد مُرسی دنیا بھر کے انصاف پسندوں کے لئے روشنی کا ایک مینار اور جنرل عبدالفتح السیسی ایک گالی بن چکا تھا۔ 

وہ تادمِ مرگ گالی بن کر زندہ رہے گا، مرنے کے بعد بھی گالی رہے گا۔ محمد مرسی کی موت کو ترکی کے صدر طیب اردوان نے شہادت قرار دیا ہے۔ امیرِ قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی اور ایرانی دفترِ خارجہ نے محمد مرسی کی موت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ ملائشیا کے وزیر خارجہ سیف الدین عبداللہ نے بھی مصر کے پہلے منتخب صدر کی موت پر تعزیتی بیان جاری کرنے کی گستاخی کر ڈالی لیکن اکثر مسلم ممالک کے غیرت مند حکمران خاموش رہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ محمد مرسی کی موت پر اظہار تعزیت سے ڈونلڈ ٹرمپ کی پیشانی پر بل پڑ سکتے ہیں۔ کچھ کرم فرما یہ سوچ رہے ہوں گے کہ محمد مرسی کی موت پر میں اتنا دکھی کیوں ہوں؟ میں واقعی بہت دکھ محسوس کر رہا ہوں۔

مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ محمد مرسی کی کہانی میں آپ کو پہلی دفعہ نہیں سنا رہا۔ یہ کہانی میں پہلے بھی آپ کو سنا چکا ہوں۔ یہ پہلی دفعہ نہیں کہ کسی منتخب لیڈر کو گرفتار کر کے پنجرے میں عدالت لایا گیا۔ یہ پہلی دفعہ نہیں کہ مردہ مرسی زندہ مرسی سے زیادہ خطرناک بن گیا اور اُس کا جسدِ خاکی رات کے اندھیرے میں دفنایا گیا۔ یہ سب پہلے بھی ہو چکا ہے۔ شاید آئندہ بھی ہوتا رہے لیکن کچھ لوگوں نے تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ہم اپنے لیڈروں کو غدار اور ملک دشمن قرار دے کر خود اپنی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف ہیں۔ غور کیجئے جس دن محمد مرسی عدالت میں غش کھا کر گرے اُس دن اُنہیں کس الزام کا سامنا تھا؟ الزام یہ تھا کہ انہوں نے مصر کے قومی راز حماس پر افشا کر دیئے۔ 

حماس کون ہے؟ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم ایک تنظیم جس کا سب سے بڑا دشمن اسرائیل ہے۔ آج مصر کی حکومت اسرائیل کے دشمنوں کو اپنا دشمن اور اسرائیل کے دوستوں کو اپنا دوست سمجھتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ برطانوی جریدے ’’دی اکانومسٹ‘‘ نے بڑے فخر سے جنرل عبدالفتح السیسی کو مصر کی تاریخ کا سب سے بڑا اسرائیل نواز حکمران قرار دیا۔ بہت سے اسلامی ممالک میں یہ روایت موجود ہے کہ جب کسی سیاستدان یا صحافی کے کردار پر حملہ کرنے کے لئے آپ کے پاس کچھ نہ ہو تو اُسے امریکہ، اسرائیل یا بھارت کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔ جنرل عبدالفتح السیسی کے اخلاقی دیوالیہ پن کا اندازہ اس الزام سے لگائیں کہ موصوف نے محمد مرسی کو حماس کا ایجنٹ قرار دیا۔ اسرائیل اور امریکہ حماس کو دہشت گرد سمجھتے ہیں لہٰذا جنرل عبدالفتح السیسی بھی حماس کو دہشت گرد اور حماس کے لئے ہمدردی رکھنے والوں کو بھی دہشت گرد سمجھتے ہیں۔

سب جانتے ہیں کہ محمد مرسی بندوق کی طاقت سے نہیں ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آئے تھے۔ امریکہ اور اُس کے کاسہ لیسوں نے ایک منتخب صدر کو فوج کی مدد سے پہلے جیل میں ڈالا، پھر قبر میں اتار دیا اور دنیا کو بتا دیا کہ اُس کی جمہوریت پسندی کے دعوے محض ایک فریب ہیں۔ محمد مرسی کی موت سے مسلم دنیا میں جمہوریت پسندوں کا بیانیہ کمزور اور عسکریت پسندوں کا بیانیہ مضبوط ہو گا۔ اگر مرسی بھی حسنی مبارک اور جنرل عبدالفتح السیسی کی طرح اسرائیل سے دوستی کر لیتے اور فلسطینیوں کو دھوکہ دے دیتے تو آج وہ بدستور اقتدار میں ہوتے لیکن انہوں نے فلسطینیوں کو دھوکہ دینے سے انکار کیا اور موت کو گلے لگایا۔ محمد مرسی کے ساتھ وہی ہوا جو ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ہوا۔ اُنہیں بھی لاہور ہائیکورٹ میں پنجرے میں لایا جاتا تھا۔ 

جنرل عبدالفتح السیسی کے ساتھ وہی ہو گا جو بھٹو کے قاتلوں کے ساتھ ہوا۔ شکر ہے کہ 19 جون کی صبح پاکستان کی قومی اسمبلی میں مولانا عبدالاکبر چترالی نے محمد مرسی کے لئے دعائے مغفرت کرائی تو حکومت اور اپوزیشن کے ارکان نے اپنے اپنے ہاتھ اٹھا کر یہ پیغام دیا کہ ابھی مسلمانوں میں کچھ حمیت باقی ہے۔ محمد مرسی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ اللہ کے شیروں کو گھیر گھیر کر مت مارو کہیں، ایسا نہ ہو کہ دشمنوں کے کتے تمہیں ادھیڑ کھائیں۔ محمد مرسی کے ان الفاظ پر ہمیں غور کرنا ہے اور فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں شیروں کی طرح زندہ رہنا ہے یا پھر دشمن کے کتوں کی خوراک بننا ہے۔ تاریخ میں محمد مرسی کو ایک شیر اور اُن کے قاتلوں کو غدار کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

حامد میر

بشکریہ روزنامہ جنگ

عمران خان اور اسرائیل

یہ ایک پرانی بحث ہے جو نئے پاکستان میں ایک نئے زاویے سے دوبارہ شروع ہو چکی ہے۔ عوام الناس کو اس بحث کی خبر نہیں کیونکہ یہ بحث اقتدار کے ایوانوں تک محدود ہے۔ پاکستان اور بھارت میں حالیہ کشیدگی کے بعد وزیراعظم عمران خان نے کچھ ایسے اقدامات کئے ہیں جن پر انہیں صرف پاکستان میں نہیں بلکہ بھارت میں بھی خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے کیونکہ ان اقدامات سے دنیا میں پاکستان کی ساکھ بہت بہتر ہوئی۔ پاکستان کو صرف بھارت نہیں بلکہ کئی اور بیرونی ممالک کی سازشوں کا بھی سامنا ہے اور ان ممالک میں اسرائیل سرفہرست ہے۔ 26 فروری کو بالا کوٹ کے قریب جابہ میں بھارتی ایئر فورس کے حملے کے بعد سے عالمی میڈیا میں یہ اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ اس حملے میں بھارت نے اسرائیلی ساختہ اسلحہ استعمال کیا۔

مصدقہ ذرائع یہ بھی بتا رہے ہیں کہ بھارت نے اسرائیل کے ساتھ مل کر راجستھان کے راستے سے پاکستان پر ایک بڑے حملے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن پاکستان کے خفیہ اداروں کو اس حملے کی قبل از وقت اطلاع مل گئی اور پاکستان نے بھارت کو یہ پیغام بھجوایا کہ اگر ہماری سرزمین پر دوبارہ حملہ کیا گیا تو بہت بھرپور جواب دیا جائے گا اور یوں بھارت کا یہ حملہ ٹل گیا۔ بھارت اور اسرائیل کے اس ’’پاکستان دشمن اتحاد‘‘ کے تناظر میں کچھ دنوں سے عمران خان کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ ہمیں بھارت اور اسرائیل کا اتحاد توڑنے کیلئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لینا چاہئیں۔ عمران خان کو یہ مشورہ 26؍ فروری کے بھارتی حملے سے پہلے بھی دیا گیا تھا اور 26 فروری کو بھارتی حملے کے بعد بھی دیا گیا۔

مشورہ دینے والوں کا کہنا ہے کہ اگر تنظیم آزادی فلسطین کے نمائندے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کر سکتے ہیں، اگر مصر، اردن اور ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہو سکتے ہیں تو پھر پاکستان کو بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لینا چاہئیں اس طرح پاکستان کے خلاف اسرائیل اور بھارت کا اتحاد ختم ہو جائیگا۔ یہ مشورہ اسرائیل نہیں بلکہ پاکستان کے مفاد میں نظر آتا ہے۔ عمران خان یہ مشورہ تسلیم کرنے کا اشارہ بھی دے دیں تو پورے مغرب کے ہیرو بن سکتے ہیں لیکن ان مشوروں پر ان کا سادہ سا جواب تھا۔ ’’دل نہیں مانتا‘‘. مشورہ دینے والوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو دل کی نہیں بلکہ دماغ کی بات ماننا چاہئے لیکن عمران خان کہتے ہیں کہ میں فلسطینیوں پر اسرائیل کے ظلم کی تائید نہیں کر سکتا۔

مجھے مشورہ دینے والوں کی نیت پر ذرہ بھر شک نہیں لیکن عمران خان کا جواب سن کر دل کو اطمینان ہوا کہ بہت سی خامیوں کے باوجود عمران خان کسی دبائو اور خوف میں آنے والا سیاستدان نہیں۔ ان کے یوٹرن لینے کی سیاست پر میں نے بہت تنقید کی ہے لیکن مجھے امید ہے کہ وہ اسرائیل کے معاملے پر یوٹرن نہیں لیں گے کیونکہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا معاملہ پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحث جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں شروع ہوئی تھی جب امریکہ نے ’’آپریشن سائیکلون‘‘ کے ذریعہ افغانستان میں روسی فوجوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے ’’مجاہدین‘‘ کو اسلحہ فراہم کرنے کے لئے پاکستان کیساتھ ساتھ اسرائیل کی خدمات بھی حاصل کیں۔ 1988 میں محترمہ بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو ان کو اسرائیل کے ساتھ بات چیت کے چینل کھولنے کا مشورہ دیا گیا۔

مشورہ دینے والے صاحب سرکاری ملازم تھے۔ اس زمانے میں نصیر اللہ بابر محترمہ بے نظیر بھٹو کے ایڈوائزر تھے۔ بابر صاحب کو اس مشورے میں سازش کی بو نظر آئی لہٰذا مذکورہ سرکاری ملازم کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ 1990 میں اس سرکاری ملازم نے صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ مل کر محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ نواز شریف صاحب کی حکومت آئی تو انہیں بھی اسرائیل کو ’’انگیج‘‘ کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ 1993 میں محترمہ بے نظیر بھٹو دوبارہ وزیراعظم بنیں تو انہیں پیشکش کی گئی کہ اگر وہ اسرائیل کو تسلیم کر لیں تو پاکستان کے تمام بیرونی قرضے معاف ہو سکتے ہیں۔ 1994 میں ان کی جنیوا میں یاسر عرفات سے ملاقات ہوئی۔

انہوں نے یاسر عرفات کو بتایا کہ مجھے کہا جاتا ہے کہ اگر پی ایل او کے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات ہو سکتے ہیں تو پاکستان اور اسرائیل میں بات کیوں نہیں ہو سکتی؟ یاسر عرفات پھٹ پڑے۔ گلوگیر لہجے میں کہا ہمیں مار مار کر اسرائیل سے مذاکرات پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کے لئے تیار نہیں اور مذاکرات کے ذریعہ صرف ہمیں اپنا غلام بنانا چاہتا ہے۔ اگر پاکستان نے اسرائیل کے ساتھ دوستی کر لی تو ہم مذاکرات کے قابل بھی نہ رہیں گے۔ اس ملاقات کے اگلے دن میں نے ڈیووس میں اسرائیلی وزیر خارجہ شمعون پیریز کا انٹرویو کیا جس میں انہوں نے پاکستان کے ساتھ دوستی کی خواہش ظاہر کی لیکن بے نظیر حکومت نے اس معاملے پر بریک لگا دی۔

اسرائیل کے ساتھ دوستی کی کھلم کھلا کوششوں کا آغاز جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوا۔ اگر ایسی کوشش نواز شریف یا محترمہ بے نظیر بھٹو کرتے تو واجب القتل قرار پاتے۔ مشرف حکومت کی طرف سے اسرائیلی حکومت کے ساتھ سرعام رابطوں پر پاکستان کی پارلیمنٹ میں تو شور ہوا لیکن غداری اور کفر کے سرٹیفکیٹ بانٹنے والے خاموش رہے۔ واضح رہے کہ عمران خان سمیت وہ تمام پاکستانی جو اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے مخالف ہیں، یہودیوں کے ساتھ تعلقات کے مخالف نہیں۔ یہودیوں کے ساتھ تعلقات اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں فرق ہے۔ بہت سے یہودی بھی اسرائیل کی فلسطین دشمن پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔ جس طرح بھارت کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا اسرائیل نے فلسطین پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مسلسل خلاف ورزی کی ہے۔

اسرائیل نے 2017 میں تل ابیب کے بجائے یروشلم (بیت المقدس) کو اپنا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ امریکہ نے تو یروشلم میں اپنا سفارتخانہ منتقل کرنے کا اعلان کر دیا، کیا پاکستان یروشلم میں اپنا سفارتخانہ قائم کر سکتا ہے؟ پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد کشمیر پر پاکستان کا موقف مضبوط ہو گا یا کمزور؟ 23 مارچ کو ہم یوم پاکستان مناتے ہیں۔ 23 مارچ 1940 کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ نے فلسطینی مسلمانوں کے حق میں بھی ایک قرار داد منظور کی تھی۔ 1945 میں قائد اعظمؒ نے بمبئی کے ایک جلسے میں امریکی صدر ٹرومین کے خلاف شیم شیم کے نعرے لگوائے اور کہا کہ وہ دس لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کے بجائے امریکہ میں آباد کیوں نہیں کر لیتا ؟ 1947 میں اسرائیل کے وزیراعظم ڈیوڈ بن گورین نے قائداعظمؒ کو ٹیلی گرام بھیجا کہ اسرائیل کو تسلیم کر لیں لیکن پاکستان نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کی مخالفت کی۔

جن مسلم ممالک نے رائے عامہ کو نظر انداز کر کے اسرائیل کو تسلیم کیا وہاں انتہاء پسندی نے جنم لیا۔ مصر ایک مثال ہے۔ ترکی نے 1949 میں اسرائیل سے تعلقات قائم کئے لیکن آج دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو صرف بھارت کے ساتھ اس کے اتحاد کی نظر سے نہیں بلکہ مسئلہ فلسطین پر قائداعظمؒ کے موقف کی روشنی میں دیکھا جانا چاہئے۔ فلسطین اور کشمیر کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر عمران خان کا دل نہیں مانتا لیکن فیصلہ عمران خان نے نہیں پارلیمنٹ نے کرنا ہے۔ اس معاملے پر بند کمروں میں نہیں پارلیمنٹ کے کھلے اجلاس میں بحث ہونی چاہئے۔ ہمیں دھوکے میں نہیں رہنا چاہئے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے بعد بھی پاکستان کے خلاف سازشیں ختم نہیں ہوں گی۔ اصل نشانہ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام ہے۔ اسرائیل صرف نیو کلیئر فری پاکستان کا دوست بن سکتا ہے۔

حامد میر

چوہدری شجاعت نے کیا کچھ دیکھا ؟

یہ ایک سرپرائز ہے۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ چوہدری شجاعت حسین اتنا سچ بول سکیں گے لیکن پاور پالیٹکس کے اس دور میں چوہدری صاحب نے کافی شجاعت دکھا دی ہے اور اپنی کتاب میں کچھ ایسی باتیں لکھ ڈالی ہیں جو صرف نواز شریف نہیں بلکہ پرویز مشرف کے دل میں بھی کانٹا بن کر پیوست رہیں گی۔ چوہدری شجاعت حسین کی آپ بیتی ’’سچ تو یہ ہے !‘‘غالب کے اس شعر سے شروع ہوتی ہے؎

صادق ہوں اپنے قول کا، غالب خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے

یہ شعر پڑھ کر میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور میں سوچنے لگا کہ الیکشن قریب ہیں اور سیاسی کھینچا تانی میں اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے اس صورتحال میں بھلا چوہدری صاحب کیا سچ بولیں گے لیکن چوہدری صاحب نے صرف دوسروں کے بارے میں نہیں اپنے بارے میں بھی سچ سے کتاب کی ابتداء کی۔ انہوں نے لکھا کہ جب دریائے چناب کے کنارے آباد ان کا گائوں ’’نت وڑائچ‘‘ دریا برد ہو گیا اور سب ختم ہو گیا تو ان کے والد چوہدری ظہور الٰہی نے پولیس میں نوکری کر لی بعد ازاں انکے والد نے اپنے بھائی چوہدری منظور الٰہی کیساتھ ملکر چند پاور لومز بنائیں اور لِیلن (بریزے) پاکستان میں متعارف کروائی۔

پھر پولیس کا ایک سابق سپاہی الیکشن لڑ کر قومی اسمبلی میں پہنچا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ان کے والد پر بھینس چوری سمیت سو سے زائد مقدمات بنائے گئے لیکن انہوں نے آگے چل کر ذوالفقار علی بھٹو اور اس وقت کی پارلیمنٹ کو بھی خراج تحسین پیش کیا جس نے مسئلہ قادیانیت کو ہمیشہ کیلئے طے کر کے امت مسلمہ پر ایک احسان کیا۔ اس کتاب میں چوہدری صاحب نے خان عبدالغفار خان ( باچا خان) کی اپنے والد سے دوستی کی تفصیل بیان کرنے کے بعد یہ بھی لکھ ڈالا کہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں اپوزیشن کے جلسے پر فائرنگ کے بعد اجمل خٹک اتنے دل گرفتہ ہوئے کہ انہوں نے میرے والد کے سامنے ولی خان سے کہا کہ اب میں پاکستان میں نہیں رہوں گا میں افغانستان جا رہا ہوں۔ پھر چوہدری ظہور الٰہی نے اپنے پرائیویٹ سیکرٹری سیٹھ اشرف کو ہدایت کی کہ اجمل خٹک کو بارڈر کراس کروا دیں اور اگلے دن اجمل خٹک کو طورخم کے راستے افغانستان پہنچا دیا گیا۔

جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب’’ان دی لائن آف فائر‘‘ میں بڑے فخر سے لکھا تھا کہ مسلم لیگ (ق) انہوں نے بنائی تھی۔ چوہدری صاحب کی کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) جنرل ضیاءالحق نے بنوائی تھی۔ جنرل ضیاء اپنے ہی لائے ہوئے وزیر اعظم محمد خان جونیجو سے ناراض تھے۔ ایک دن جنرل ضیاء نے چوہدری شجاعت حسین کو بلا کر بتایا کہ آپ کا وزیراعظم بھی عجیب آدمی ہے، میرے گھر میں تیس سال سے ایک مالی کام کر رہا ہے میں نے اس کی ایکسٹینشن کا کیس ان کو بھیجا تو انہوں نے فائل پر ’’نو‘‘ لکھ کر واپس بھیج دی ہے ۔ محمدخان جونیجو کی حکومت برطرف ہوئی تو نواز شریف نے جنرل ضیاءالحق کا ساتھ دیا جبکہ چوہدری شجاعت حسین برطرف وزیر اعظم کے ساتھ کھڑے رہے اور گجرات میں ان کیلئے جلسے کا اہتمام بھی کیا۔

شہباز شریف کو چوہدری شجاعت حسین کے پاس بھیجا گیا کہ آپ جونیجو کا ساتھ چھوڑ دیں لیکن چوہدری صاحب نے انکار کر دیا۔ نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے وہ ناراض ہو گئے انہوں نے چوہدری وجاہت حسین اور چوہدری شفاعت حسین پر جھوٹے مقدمات بنوائے لیکن اس کے باوجود 1988ء کے الیکشن میں چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کامیاب ہو گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو مرکز میں اکثریت حاصل تھی انہوں نے فاروق لغاری کے ذریعے چوہدری شجاعت حسین سے رابطہ کیا اور چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کی پیشکش کی۔ یہ وہ موقع تھا جب میاں محمد شریف مرحوم درمیان میں آ گئے اور انہوں نے وعدہ کیا کہ اس دفعہ آپ نواز شریف کو وزیر اعلیٰ بننے دیں جب نواز شریف وزیر اعظم بن جائیں گے تو ان کا وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی ہو گا۔

چوہدری برادران نے میاں محمد شریف کی بات مان لی اور پیپلز پارٹی کی پیشکش مسترد کر دی۔ چوہدری صاحب لکھتے ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے وزیر اعظم بنتے ہی جنرل ضیاءالحق کے خاندان کو آرمی ہائوس خالی کرنے کا حکم دیا بیگم شفیقہ ضیاء الحق نے نواز شریف سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ کسی کرائے کے گھر میں چلے جائیں۔ پھر بیگم شفیقہ ضیاء نے بیگم چوہدری ظہور الٰہی سے رابطہ کیا تو انہوں نے چوہدری شجاعت کو حکم دیا کہ آپ اپنا گھر جنرل ضیاء کے خاندان کو دیدیں اور خود کرائے کے گھر میں چلے جائیں۔ جب تک بیگم شفیقہ ضیاء کا مکان تعمیر نہ ہوا وہ چوہدری شجاعت حسین کے گھر میں مقیم رہیں۔ 1990ءکے انتخابات کے بعد نواز شریف وزیر اعظم بنے تو پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کی جگہ غلام حیدر وائین وزیر اعلیٰ بن گئے۔ 1997ء میں نواز شریف دوسری دفعہ وزیر اعظم بنے تو ایک دفعہ پھر چوہدری پرویز الٰہی کو نظرانداز کر کے شہباز شریف کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ 1997ء میں چوہدری شجاعت حسین کو وزیر داخلہ بنایا گیا ۔

ایک دن انہیں پتہ چلا کہ سپریم کورٹ پر حملے کیلئے لاہور سے کچھ لوگ لائے گئے ہیں۔ چوہدری صاحب لکھتے ہیں کہ انہوں نے اسلام آباد پولیس کو ہدایت کی کہ لاہور سے آنے والوں کو گوجرخان میں روک لیں لیکن یہ سب شہباز شریف کی نگرانی میں ہوا اور انہوں نے پنجاب ہائوس میں حملے کیلئے آنیوالوں کو قیمے والے نان کھلائے۔ چوہدری صاحب نے لکھا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کسی نہ کسی طریقے سے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو گرفتار کرنا چاہتے تھے ۔ اس زمانے میں سینیٹر سیف الرحمان نے اینٹی نارکوٹکس فورس کے ساتھ مل کر آصف زرداری پر منشیات اسمگلنگ کا جھوٹا مقدمہ بنانے کی کوشش کی۔ اے این ایف نے لکھ کر دیدیا کہ یہ مقدمہ کمزور ہے لیکن سیف الرحمان روزانہ وزیر اعظم کے پی ایس او کیساتھ آ کر مجھ سے کہتے کہ یہ کیس بنانا ہے لیکن چوہدری شجاعت حسین نے فائل پر ’’نو‘‘ لکھ دیا ۔ چوہدری صاحب نے اس کتاب میں ایک ایسا سچ لکھ دیا ہے جو شاید کسی عدالت میں ثابت نہ ہو سکے لیکن یہ سچ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ چوہدری صاحب لکھتے ہیں کہ مشرف دور کے ڈی جی ملٹری انٹیلی جینس میجر جنرل ندیم اعجاز کا لب ولہجہ اکبر بگٹی کے بارے میں بڑا سخت ہوتا تھا ۔ ایک دن چوہدری صاحب اور مشاہد حسین دونوں ندیم اعجاز کے گھر گئے اور انہیں کہا کہ اکبر بگٹی ہمیشہ وفاق کے حامی رہے ہیں لہٰذا انہیں مارنا نہیں گرفتار کر لینا۔ اگلے ہی روز اکبر بگٹی کو شہید کر دیا گیا۔

چوہدری شجاعت حسین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے لال مسجد کا مسئلہ حل کر چکے تھے۔ انہوں نے ان مذاکرات کے سلسلے میں میرے کردار کا بھی ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ مذاکرات کی بحالی میں حامد میر کا کیا کردار رہا ۔ عبدالرشید غازی اور چوہدری صاحب کے درمیان ایک صلح نامہ بھی طے پا گیا تھا لیکن مشرف نے یہ صلح نامہ مسترد کر دیا ۔ چوہدری صاحب نے اپنی کتاب میں مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کا ایک دستخط شدہ بیان شامل کر دیا ہے۔ مفتی صاحب ان مذاکرات کا حصہ تھے اور انہوں نے مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار مشرف کو قرار دیا ہے۔

چوہدری صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ 2008ء کے انتخابات میں مشرف نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا۔ ابھی پولنگ جاری تھی کہ شام چار بجے مشرف نے فون پر چوہدری صاحب سے کہا کہ آپ کو پینتیس چالیس نشستیں ملیں گی آپ نتائج تسلیم کر لیں کوئی اعتراض نہ کیجئے گا ۔ ابھی گنتی شروع نہ ہوئی تھی اور مشرف نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ پھر مشرف نے چوہدری صاحب کو مسلم لیگ (ق) کی صدارت سے ہٹانے کی کوشش کی لیکن فاروق لغاری اور فیصل صالح حیات نے کوشش ناکام بنا دی۔ چوہدری صاحب کی یہ کتاب ان سب کو ضرور پڑھنی چاہئے جو نادیدہ قوتوں کیساتھ مل کر نئی نئی پارٹیاں بنا رہے ہیں۔ یہ نادیدہ قوتیں قابل اعتبار نہیں ہوتیں قابل اعتبار صرف اللہ اور عوام ہیں ۔ چوہدری صاحب نے تمام دھوکوں کے باوجود اپنا سیاسی وجود برقرار رکھا ۔ ان کی سیاسی بقاء اور ان کی کتاب دونوں ہی سرپرائز سے کم نہیں ۔

حامد میر