اسلام کو امریکا و یورپ کی پسند کے مطابق ڈھالنے کی کوششیں

اب تو اسلام کی وہ شکل دیئے جانے کی کوششیں ہو رہی ہیں جو امریکا و یورپ کو پسند ہو۔ اس کے لیے اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ایسے ’’اسلامی اسکالرز‘‘ کو بھی آگے لایا جا رہا ہے جو روشن خیال ہوں، لبرل ہوں۔ ہمارے ہاں بھی چند ایک ایسے ’’اسلامی اسکالرز‘‘ موجود ہیں جو عورت کے پردے کو نہیں مانتے، جنہیں پاکستان کے آئین کی اسلامی دفعات بلخصوص قرارداد مقاصد پر اعتراضات ہیں، جو مغرب زدہ لبرلز اور سیکولرز کے پسندیدہ ہیں اور جنہیں فحاشی و عریانیت پھیلانے والے ہمارے چینلز بہت پسند کرتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے سرعام پھانسی دیئے جانے کے مسئلہ پر میٹنگ کے بعد جو پریس ریلیز جاری ہوئی وہ کافی confusing تھی۔ مجھے پڑھ کر محسوس ایسا ہوا جیسے اس پریس ریلیز کو جاری کرنے کا مقصد مغرب، مغرب زدہ این جی اوز اور پاکستان کی روشن خیال سوسائٹی اور میڈٖیا کو خوش کرنا تھا۔ اگرچہ اصل مسئلہ (سرعام پھانسی) پر پریس ریلیز خاموش تھی لیکن اُس میں یہ بیان کیا گیا کہ سزائوں کی شدت اور سنگینی کی بجائے سزا کی یقینیت کا اہتمام ہونا چاہیے۔ یہ پڑھ کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا سزائوں کی شدت سے کیا مراد اور پھر یہ بات پریس ریلیز میں بیان کرنے کی کیوں ضرورت محسوس ہوئی۔

میں نے کونسل کے کچھ اراکین سے بات کی جو خود حیران تھے کہ یہ کیا ہو گیا کیوں کہ سب کو معلو م ہے کہ اسلامی سزائوں کے بارے میں مغرب اور مغرب زدہ طبقہ کیا کہتا ہے۔ دوسری دن چند اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ کونسل نے سرعام پھانسی کی مخالفت کر دی۔ لیکن جب میری چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل سے بات ہوئی تو انہوں نے ان خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے بتایا کہ کونسل کو تو سینیٹ کی طرف سے صرف یہ پوچھا گیا تھا کہ کیا سرعام پھانسی دینے کے لیے موجودہ قوانین میں تبدیلی کی ضرورت ہے جس پر کونسل کا جواب یہ ہے کہ موجودہ قوانین کے مطابق سر عام پھانسی دی جا سکتی ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہاں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ سپریم کورٹ کا ایک پرانا فیصلہ ہے جس میں سرعام پھانسی پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ میں نے چیئرمین صاحب سے کونسل کی متنازع پریس ریلیز پر بھی بات کی اور امید ظاہر کی کہ اسلامی نظریاتی کونسل صرف اور صرف اسلام کی بات کرے گی۔ مجھے چیئرمین صاحب نے اس بات کا بھی یقین دلایا کہ اُن کی طرف سے جو جواب سینیٹ کو جائے گا وہ بلکہ واضع اور صاف ہو گا۔

انصار عباسی

سزائے موت کے مجرم کے ‘ آخری 72 گھنٹے‘

آج سینٹرل جیل میں 4 افراد کو پھانسی دے دی گئی‘
اِس طرح کی کئی خبریں ہم نہ جانے کتنی مرتبہ پڑھ اور سن چکے ہیں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ اِس خبر نے ہمیں کبھی پریشان نہیں کیا، اور ایسی خبریں ہمیں پریشان کرے بھی تو کیوں کہ اِس سزا سے ہماری ذات کو کوئی نقصان تھوڑی ہو رہا ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ کیا کبھی ہم نے اُن لوگوں کے بارے میں سوچا ہے، جن کو موت کی سزا سنا دی جاتی ہے، اور جن کو پہلے سے ہی یہ بتا دیا جاتا ہے کہ فلاں دن آپ کی زندگی کا آخری دن ہو گا ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم شاید ایسا سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ ایسا سوچنے سے ہی ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک مجرم کی کہانی بتانے جا رہے ہیں جسے تین دن پہلے بتا دیا گیا ہے کہ اگلے 72 گھنٹے بعد اُس کی زندگی کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے۔ اُس فرد پر اور اُس کے اہلخانہ پر اب کیا گزر رہی ہے آئیے اُن کے بارے میں جانتے ہیں۔ چونکہ یہ ایک کہانی ہے اِس لیے ہم آپ کو پہلے کرداروں کے بارے میں بتاتے ہیں تاکہ کہانی پڑھنے میں آسانی ہو۔

کردار:
مجرم
پہلا قیدی
دوسرا قیدی
بیوی
بیٹا / بیٹی
پولیس
مدعی
(پھانسی میں 72 گھنٹے باقی ہیں)
تو اِس طرح شروع ہوتا ہے، پھانسی گھاٹ کی طرف سفر

مجرم: سب ختم ہو گیا ہے، اب میں کیا کروں، اب تو کوئی اپیل بھی باقی نہیں رہی اور وارنٹ بھی آ گیا ہے۔ سنا ہے بہت تکلیف ہوتی ہے، آنکھیں باہر نکل آتی ہیں، شکل پہچانی تک نہیں جاتی اور اگر، اگر پھندا ٹھیک سے نہ لگے تو گردن بھی کٹ جاتی ہے۔

پہلا قیدی: دیکھ پریشان نہ ہو، سب ٹھیک ہو جائے گا، بہت سے لوگوں کو معافی ملتے دیکھا ہے، بس رب جس پر کرم کر دے۔

مجرم: مجھے لگتا ہے سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے، اِسی طرح ہی جھوٹی تسلیاں دیتے ہیں، میں بھی تو سب کو یونہی جھوٹے دلاسے دیتا رہا ہوں.

(پھانسی میں 48 گھنٹے باقی)
پولیس اہلکار: چلو بھائی، سیل بدلنا ہے تیرا، چلو۔

پہلا قیدی: تیرے گھر والوں نے رحم کی نئی اپیل کی ہے صدر سے

دوسرا قیدی: تیرے وارث کوشش کر رہے ہیں اور رب نے چاہا تو صلح ہو جائے گی.

(پھانسی میں 24 گھنٹے باقی)

بیوی روتے ہوئے: جس دن سے خبر آئی ہے، ہماری تو زندگی ہی ختم ہو گئی ہے، پتہ نہیں ہمارے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے، گھر کی فکر مت کرنا، ہم سب تمہارے لیے دعا کر رہے ہیں۔

بیٹا: ہم سب آپ کو بہت یاد کرتے ہیں۔

پولیس اہلکار: او چلو بھائی، ملاقات کا ٹائم ختم ہو گیا ہے، چلو جلدی کرو۔
(پھانسی میں 2 گھنٹے باقی)

پولیس اہلکار: اوئے کپڑے بدلو اِس کے اور ہتھکڑی لگاؤ ۔۔۔۔ جلدی کرو، مجسٹریٹ صاحب اور سپرنٹنڈنٹ صاحب پہنچ گئے ہیں۔ دھیان سے ذرا، کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے۔

مجرم: مجھے معافی دلادو، مجھے نہیں مرنا، مجھ سے غلطی ہو گئی۔

پولیس اہلکار مدعی سے: ابھی بھی وقت ہے، ایک بار پھر اچھی طرح سوچ لیں، اگر آپ چاہیں تو ابھی بھی اسے معاف کر سکتے ہیں۔

مدعی: نہیں

بس یہ ’نہیں‘ کہنے کی دیر تھی اور یوں ایک جیتے جاگتے انسان کی زندگی تمام ہوگئی۔

(پاکستان پریزن مینوئل میں درج اصولوں کے مطابق، ﭘﮭﺎﻧﺴﯽ ﭘﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﮐﻮ 30 ﻣﻨﭧ ﺗﮏ ﻟﭩﮑﺎﺋﮯ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، جبکہ تختہ دار پر لٹکنے کے بعد صرف 3 منٹ کے اندر ہی موت واقع ہو جاتی ہے۔)

پھانسی پر پابندی ختم ہونے کے بعد دسمبر 2014 سے اگست 2017 تک 475 افراد کو پھانسی پر لٹکایا جا چکا ہے۔ آج پھانسی کی سزا پانے والوں کی تعداد 8000 کے لگ بھگ ہے، جنہیں پھانسی پر لٹکایا جانا ہے۔ قیدیوں اور اُن کے گھر والوں کو سزا کے بارے میں صرف 72 گھنٹے قبل ہی اطلاع دی جاتی ہے۔ زندگی کے حق کو تحفظ دینے میں مدد کرنی چاہیے، کیونکہ حیات سے بڑھ کر انسان کے لیے کوئی اور انعام اور خوشی ہو نہیں سکتی۔

ایاز احمد لغاری
لکھاری ڈان ڈاٹ کام کے اسٹاف ممبر ہیں۔
بشکریہ روزنامہ ڈان اردو