مولانا طارق جمیل پر غصہ کیوں؟

قدرت راستوں کا تعین کرتی ہے، انسانوں کے بس میں یہ بھی نہیں۔ طارق جمیل کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ جب والد نے سینٹرل ماڈل اسکول لاہور میں داخل کرایا تو اس وقت طارق جمیل زمینداروں کا ایک بچہ تھا، میاں چنوں کے پاس ان کا آبائی علاقہ تلمبہ زمینداروں کی وجہ سے نہیں، اہل طرب کی وجہ سے مشہور ہے مگر اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وہاں کے بڑے زمیندار سہو ہیں، طارق جمیل، چوہان راجپوتوں کے قبیلے سہو سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا خاندان شیر شاہ سوری کے دور میں تلمبہ کا حکمران تھا، تلمبہ کے آس پاس زمینیں اسی خاندان نے تقسیم کیں۔ میٹرک کے بعد طارق جمیل نے گورنمنٹ کالج لاہور پہنچ کر راوین بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ 1969ء میں گورنمنٹ کالج کے اقبال ہوسٹل میں عزیز اللہ نیازی اور طارق جمیل روم میٹ تھے، دونوں ہاکی کے کھلاڑی تھے، طارق جمیل شاندار گلوکار بھی تھا۔

ایک دن عزیز اللہ نیازی، طارق جمیل کو رائے ونڈ لے گیا، اقبال ہاسٹل سے ایک اور طالب علم ارشد اولکھ بھی رائے ونڈ گیا۔ عزیز اللہ نیازی خود تو واپس آ گیا مگر طارق جمیل کا وہاں دل لگ گیا۔ ایف ایس سی کے بعد کنگ ایڈورڈ میں داخلہ ہوا مگر وہ میڈیکل کے بجائے دین کی طرف راغب ہو گیا۔ وہ ڈاکٹر تو نہ بن سکا البتہ مولانا بن گیا۔ بظاہر ڈاکٹر نہ بن سکنے والے نے بے شمار انسانوں کا علاج کیا، لاکھوں انسانوں کی روحوں کو سکون بخشنے والے طور طریقے بتائے۔ رب لم یزل نے اسے شہرت سے بہت نوازا۔ اس مسیحائی کی اسے کئی مرتبہ قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔ والد نے یہ کہہ کر گھر سے نکال دیا کہ ’’تمہیں لاہور ڈاکٹر بننے کے لئے بھیجا تھا، مولوی نہیں، کیا ہم زمینداروں کے بچے مولوی بنیں گے؟‘‘ ایک قیمت چند دن پہلے بھی ادا کرنا پڑی، ان کی باتوں پر میڈیا کے چند لوگ غصے میں آ گئے، وہ غصے میں کیوں آئے، اس پہ بعد میں بات کرتے ہیں، پہلے معاشرے کی تصویر کا ایک رخ دیکھ لیجئے۔

تبلیغی مرکز سے تعلق کی وجہ سے ہم انہیں ایک مخصوص فرقے کا نمائندہ سمجھتے تھے مگر یہ پرانی بات ہے جیسے جیسے پاکستان میں میڈیا اور سوشل میڈیا بڑھا تو پتا چلا کہ طارق جمیل تو فرقہ پرستی کے خلاف ہے بلکہ وہ تو اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ تفرقوں میں نہ پڑو۔ پھر طارق جمیل نے ’’گلدستۂ اہل بیت‘‘ لکھ کر شکوک و شبہات کے سارے قصے ختم کر دیے۔ میرے مرشد کا علامہ اقبالؒ سے کیا تعلق تھا، یہ متعدد بار لکھ چکا ہوں۔ مرشد نے وقتِ رخصت ایک بات سمجھائی تھی کہ ’’دونوں جہانوں میں اہل بیت سے محبت کرنا، اس دنیا میں بھی اہل بیت کا گھرانا اور اگلے جہان میں بھی اہل بیت کا گھرانا ہے، اس گھرانے سے محبت نہ چھوڑنا‘‘۔ خواتین و حضرات! ٹی وی اینکرز نے کیوں برا منایا؟ ان سے متعلق وزیراعظم عمران خان نے بہت کچھ کہا مگر وہ چپ رہے، آصف زرداری انہیں سیاسی اداکار کہتے تھے۔ 

رانا ثناء اللہ نے تو اینکرز کے بارے میں ایسی بات کہی کہ میں وہ شرمناک بات لکھ بھی نہیں سکتا، اس کے علاوہ بھی کئی لوگوں نے بہت کچھ کہا مگر یہ سب چپ رہے اور خوشیاں منانے والے یہ بھول گئے کہ فلسفۂ آزادیٔ اظہار کیا کہتا ہے؟ مولانا طارق جمیل کو اللہ تعالیٰ نے خطابت کے جوہر سے نواز رکھا ہے، فرقہ واریت سے کہیں دور، محبت گھولتی ہوئی گفتگو مولانا طارق جمیل کا خاصہ ہے۔ لوگ ان کی گفتگو بھرپور توجہ سے سنتے ہیں۔ انہوں نے پیارے رسولؐ کی حدیث کی روشنی میں معاشرے کی جو عکاسی کی وہ بالکل درست ہے۔ ذرا سوچئے، کیا ہمارے معاشرے میں جھوٹ، دھوکا اور بے حیائی نہیں؟ کیا یہاں رشوت کے بازار گرم نہیں؟ کیا ملاوٹ اور بددیانتی نہیں؟ کیا یہاں گراں فروشی نہیں؟ کیا ہمارے ملک میں لوگوں کی جائیدادوں پر قبضے نہیں ہوتے؟ کیا ملک میں زکوٰۃ کا نظام درست ہے؟ کیا یہاں پولیس ظالم کے ساتھ کھڑی نہیں ہوتی؟ کیا یہاں مافیاز بددیانتی کا مظاہرہ نہیں کرتے؟ کیا یہاں کا ہر طبقہ بے ایمانی نہیں کرتا؟

کیا یہاں نہری پانی چوری نہیں ہوتا؟ کیا ہمارے تاجر نے بددیانتی اور سود چھوڑ دیا ہے؟ کیا ہمارے معاشرے میں لاشوں کی بے حرمتی نہیں کی گئی؟ کیا تم قصور کی زینب کو بھول گئے ہو؟ مجھ سمیت میڈیا کے بہت سے لوگ اقرار کر رہے ہیں کہ اس شعبے میں بہت سے لوگ جھوٹ بولتے ہیں، بہت سے منافقت کرتے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جو تکبر کرتے ہیں، کچھ کی زندگیوں کا مشن محض دولت کا حصول ہے۔ مولانا نے بحیثیت مجموعی بات کی، انہو ں نے تو نظامِ عدل پر بھی تنقید کی۔ اگر انہوں نے یہ کہہ دیا کہ عمران خان کو اجڑا ہوا چمن ملا ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟ جھوٹ جہاں غالب ہو وہاں اتنا کڑوا سچ واقعی جرم ہے۔ جہاں جھوٹ کا بسیرا ہو وہاں سچ بولنا خطا سے کم نہیں۔ کس طرح ایک سیاسی جماعت کے ہرکارے، کچھ سیاسی اداکار اور نام نہاد لبرلز ایک عالم دین کے پیچھے پڑ گئے۔ جس کا قصور یہ تھا کہ اس نے معاشرے سے اپیل کی کہ برائیاں چھوڑ کر اللہ کو راضی کرو۔ خواتین و حضرات۔ حالیہ صورتحال پر تو ڈاکٹر خورشید رضوی کا شعر یاد آ رہا ہے کہ؎

ہر جبر سے خاموش گزر آئے کہ افسوس
جاں بھی ہمیں درکار تھی عزت کے علاوہ

مظہر بر لاس

بشکریہ روزنامہ جنگ

قانون نہیں کرتوت کالے ہیں

قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ فرماتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 62-63 کالا قانون ہے جبکہ حقیقت میں آرٹیکل 62-63 کالا قانون نہیں بلکہ کالے تو وہ کرتوت ہیں جن کی درستگی کی بجائے ہمارے سیاستدان اور پارلیمنٹیرین اُنہیں نہ صرف برقرار رکھنا چاہتے ہیں بلکہ اُن کا آئینی و قانونی تحفظ بھی چاہتے ہیں تاکہ وہ لوٹیں کھسوٹیں، کیسی ہی بد کرداری کریں، جھوٹ بولیں، فراڈ کریں اُنہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ ساری دنیا میں حکمرانوں کے لیے سچا اور ایماندار ہونا لازم شرط ہوتی ہے لیکن ہمارا آئین اگر یہ شرط لگائے تو اس سے خورشید شاہ ، اُن کی پارٹی اور دوسرے کئی سیاستدانوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔

بجائے اس کے کہ کوشش کریں کہ کس طرح سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ خود آرٹیکل 62-63 کے نفاذ کو یقینی بنائیں تاکہ معاشرہ کے بہترین اور اچھے کردار کے مالک افراد ہی پارلیمنٹ اور ایوان اقتدار میں داخل ہو سکیں۔ لیکن اگر ایسا ہو گیا تو خورشید شاہ کی جماعت سمیت دوسری اور کئی سیاسی پارٹیاں اپنے اکثر رہنمائوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی۔ اپنی خرابیوں اور نااہلیوں پر پردہ ڈالنے اور ان آئینی شرائط کو ختم کرنے کے لیے بہانہ مرحوم ضیاء الحق کا استعمال کیا جاتا ہے کہ چونکہ یہ آرٹیکل جنرل ضیاء نے آئین میں شامل کیے تھے اس لیے ان کو نکالا جانا چاہیے۔ ورنہ یہ آرٹیکل جو شرائط لاگو کرتے ہیں اُن پر اگر عمل درآمد ہو تو صرف وہی لوگ الیکشن لڑ سکتے ہیں جو اپنے کردار کے لحاظ سے بہترین ہوں۔

آرٹیکل 62-63 کی جن شرائط سے سیاستدانوں میں بہت سوں کو بہت تکلیف ہے وہ کیا کہتے ہیں زرا سن لیجیے:

آرٹیکل 62 (1) کوئی شخص پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے یا چنے جانے کا اہل نہیں ہو گا اگر ……’’(d) وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور ہو۔ (e) وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم نہ رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو۔ (f) وہ سمجھدار پارسا نہ ہو اور فاسق ہو اور ایماندار اور امین نہ ہو، عدالت نے اس کے برعکس قرار نہ دیا ہو۔ (g) اس نے قیام پاکستان کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام کیا ہو یا نظریہ پاکستان کی مخالفت کی ہو۔‘‘

درج بالا شرائط میں کوئی ایک خرابی تو بتائیں۔ ان شرائط کے مطابق تو صرف وہی رکن اسمبلی بننے کا اہل ہو سکتا ہے جو اچھے کردار کا مالک اور احکام اسلام کے انحراف میں مشہور نہ ہو، اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو اور کبیرہ گناہوں یعنی شراب نوشی، زنا، سود وغیرہ سے اجتناب کرتا ہو، فاسق نہ ہو، ایماندار ہو، سچا ہو اور اسلامی نظریہ پاکستان کا مخالف نہ ہو۔ اگر ان شرائط پر عمل کیا جائے تو ہماری پارلیمنٹ اور ایوان اقتدار میں کوئی چور ڈاکو، شرابی، زانی، جھوٹا فراڈیا داخل نہیں ہو سکتا۔

مسئلہ نیت کا ہے۔ جب نیت ہی خراب ہو اور سیاسی جماعتیں یہ چاہتی ہی نہ ہوں کہ حق حکمرانی صرف اور صرف اپنے کردار کے لحاظ سے بہترین لوگوں کو ہی حاصل ہے، تو پھر ان آئینی شرائط کی مخالفت تو ہو گی۔ مخالفت نہ کی تو اپنی سیاست ہی ختم ہو جائے گی۔ اسی لیے باوجود اس کے کہ آرٹیکل 62-63 کو آئین میں شامل ہوئے 30 سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا لیکن ان آئینی شرائط پر عمل درآمد کرنے کے لیے آج تک نہ کوئی طریقہ وضع کیا گیا اور نہ ہی ان آئینی شقوں پرعمل درآمد کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی۔

ماضی قریب میں سپریم کورٹ میں کچھ پٹیشنزکے نتیجے میں میاں نواز شریف، جہانگیر ترین اور خواجہ آصف کو آرٹیکل 62 (1) (f) کے تحت زندگی بھر کے لیے نا اہل قرار دیا جس کے بعد پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ ن لیگ نے بھی آرٹیکل 62-63 کو ہی بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ حلانکہ خرابی آئین میں نہیں بلکہ کمی اس بات میں ہے کہ پارلیمنٹ نے آج تک ان آئینی شقوں کے اطلاق کے لیے کوئی طریقہ کار ہی طے نہیں کیا اور نہ ہی آرٹیکل 62 (1)(f) کے تحت غلطی یا جرم کی سنگینی کے لحاظ سے یہ وضاحت کی کہ کس نوعیت کے جرم پر کتنی مدت کے لیے نا اہلی ہو گی۔ پیپلز پارٹی تو ان شقوں سے کبھی خوش نہ تھی اب ن لیگ بھی ان کے خاتمہ کی باتیں کر رہی ہے۔ ہو سکتا ہے میاں نواز شریف کہیں یہ نہ کہہ دیں کہ ان شقوں کو اٹھارویں ترمیم کے ذریعے نہ نکالنا اُن کی غلطی تھی۔ لیکن اگر کوئی سوچے اور سمجھے تو غلطی دراصل ان شقوں کو نکالنا ہو گا جبکہ ان پر سنجیدگی سے ایک طریقہ کار کے ذریعے عمل کرنے سے سیاست گندگی سے پاک ہو گی۔

انصار عباسی

معاملہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ سے آگے بڑھ گیا

 کچھ عرصہ قبل مغربی ثقافت اور سوچ کو یہاں پھیلانے کے لیے کام کرنے والی کچھ این جی اوز نے پاکستان کے چند اہم شہروں میں خواتین کے حقوق اور اُن کی آزادی کے نام پر ایک مظاہرہ کا انعقاد کیا۔ اس مظاہرہ کے ذریعے پیغام دیا گیا کہ عورت مکمل آزاد ہے اور وہ اپنے فیصلوں کے لیے کسی مرد چاہے وہ باپ ہو، بھائی یا شوہر کسی کے زیر اثر نہیں۔ اس مظاہرہ کا اہم نعرہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ تھا۔ اس نعرہ نے سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سے لوگوں کی توجہ حاصل کی اور بڑی تعداد میں پاکستانیوں نے اپنے غم و غصہ کے ساتھ ساتھ تعجب کا اظہار کیا کہ یہ کون سی تعلیم دی جا رہی ہے اور یہ کیسے حقوق کی بات کی جا رہی ہے جن کا نشانہ شرم و حیا کے ساتھ ساتھ ہماری اسلامی و معاشرتی اقدار ہیں تاکہ مغرب کی طرح پاکستان میں بھی بے راہ روی کو پھیلا کر اس کو فری سیکس سوسائٹی بنایا جائے۔

اس مظاہرہ کے انعقاد کے ایک دو ہفتوں کے بعد پاکستان کے ایک انگریزی اخبار نے ایک خبر شائع کی جسے پڑھ کر محسوس ہوا کہ کس طرح پاکستان میں بے شرمی اور بے غیرتی کو بڑھانے کے لیے انتہائی منظم انداز میں کام ہو رہا ہے اور ہم بے فکر ہو کر بیٹھے ہیں۔ خبر بہت خطرناک تھی لیکن اس کو بھی عمومی طور پر نظر انداز کیا گیا۔ خبر کے مطابق رضامندی سے زنا کو جائز قرار دینے کے لیے اقوام متحدہ کی ایک تنظیم کی سفارشات کو پاکستان نے رد کرنے کی بجائے ’’Noted‘‘ لکھا جس کا (خبر کے مطابق) مطلب یہ ہے کہ پاکستان ان سفارشات پر غور کرے گا۔ ان سفارشات میں یہ لکھا ہے کہ ایسے قوانین جو بغیر شادی کیے نا محرم عورت اور مرد کے جسمانی تعلق یعنی زنا پر پابندی لگاتے ہیں اور اُنہیں غیر قانونی تصور کرتے ہیں ، اُنہیں ختم کر دیا جائے تاکہ زنا کو قانونی تحفظ حاصل ہو جائے۔

خبر میں وزارت خارجہ کے ذرائع کے حوالہ سے لکھا گیا کہ انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی پاکستان نے ان سفارشات جن کا حوالہ (The UPR Recommendations- 2017) ہے، کے بارے میں اقوام متحدہ میں اپنا ردعمل “noted” کر کے دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان ان سفارشات پر غور کرے گا۔ خبر کے مطابق ماضی میں بھی پہلے 2008 اور پھر 2012 میں اسی تنظیم نے کچھ دوسری متنازع سفارشات کے ساتھ ساتھ رضا مندی سے زنا کے عمل کو جائز قرار دینے کی تجاویز دیں تھیں لیکن دونوں مرتبہ پاکستان نے ان سفارشات کو صاف صاف مسترد کیا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ ہم ان تجاویز پر غور بھی نہیں کریں گے۔ لیکن اس بار ایسا کیا اور کیوں ہوا کہ پاکستان نے ایسے غیر اسلامی اور غیر اخلاقی عمل کو رد کرنے کی بجائے اس پر غور کرنے کا وعدہ کر لیا؟؟ اس بارے میں دفتر خارجہ میں بیٹھے افراد بھی حیران ہیں۔

ذرائع کے حوالے سے خبر میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ عمل ممکنہ طور پر پاکستان کو بدنام کرنے کی بھی سازش ہو سکتی ہے۔ اس خبر کی سنگینی کے باوجود اس پر ابھی تک کوئی ایکشن کہیں سے بھی نہیں لیا گیا اور نہ ہی کسی انکوائری کا حکم سامنے آیا ہے۔ چلیں ٹی وی چینلز سے تو کوئی کیا توقع رکھے کہ اس معاملہ کو اٹھائیں تاکہ ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور یہ بھی پتا لگایا جائے کہ آخر اس عمل میں کون کون شریک ہے اور اُن کا مقصد کیا تھا، لیکن حیرانگی اس امر پر ہے کہ ایک انگریزی اخبار میں اس خبر کے شائع ہونے کے باوجود حکومت کے کان میں جوں تک نہیں رینگی۔

جس روز یہ خبر شائع ہوئی اُسی روز میں نے اُسے سوشل میڈیا میں ٹیوٹر کے ذریعے بھی شیئر کیا اور خصوصی طور پر وزیر خارجہ خواجہ آصف، مریم نواز اوراحسن اقبال کی توجہ کے لیے اُن کے ٹیوٹر ہینڈل کو بھی لنک کیا لیکن کسی نے اس بارے میں کوئی ردعمل نہیں دیا۔ اس معاملہ کو اس کالم کے ذریعے اٹھانے کا مقصد ریاستی ذمہ داروں کی توجہ حاصل کرنا ہے تاکہ اس سازش کو بے نقاب کیا جا سکے اور یہ بھی پتا لگایا جا سکے کہ کون کون سی این جی اوز اس قسم کے ایجنڈے پر یہاں کام کر رہے ہیں اور اُن کے خلاف حکومت کارروائی کرنے سے کیوں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔

انصار عباسی

اسلام کو امریکا و یورپ کی پسند کے مطابق ڈھالنے کی کوششیں

اب تو اسلام کی وہ شکل دیئے جانے کی کوششیں ہو رہی ہیں جو امریکا و یورپ کو پسند ہو۔ اس کے لیے اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ایسے ’’اسلامی اسکالرز‘‘ کو بھی آگے لایا جا رہا ہے جو روشن خیال ہوں، لبرل ہوں۔ ہمارے ہاں بھی چند ایک ایسے ’’اسلامی اسکالرز‘‘ موجود ہیں جو عورت کے پردے کو نہیں مانتے، جنہیں پاکستان کے آئین کی اسلامی دفعات بلخصوص قرارداد مقاصد پر اعتراضات ہیں، جو مغرب زدہ لبرلز اور سیکولرز کے پسندیدہ ہیں اور جنہیں فحاشی و عریانیت پھیلانے والے ہمارے چینلز بہت پسند کرتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے سرعام پھانسی دیئے جانے کے مسئلہ پر میٹنگ کے بعد جو پریس ریلیز جاری ہوئی وہ کافی confusing تھی۔ مجھے پڑھ کر محسوس ایسا ہوا جیسے اس پریس ریلیز کو جاری کرنے کا مقصد مغرب، مغرب زدہ این جی اوز اور پاکستان کی روشن خیال سوسائٹی اور میڈٖیا کو خوش کرنا تھا۔ اگرچہ اصل مسئلہ (سرعام پھانسی) پر پریس ریلیز خاموش تھی لیکن اُس میں یہ بیان کیا گیا کہ سزائوں کی شدت اور سنگینی کی بجائے سزا کی یقینیت کا اہتمام ہونا چاہیے۔ یہ پڑھ کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا سزائوں کی شدت سے کیا مراد اور پھر یہ بات پریس ریلیز میں بیان کرنے کی کیوں ضرورت محسوس ہوئی۔

میں نے کونسل کے کچھ اراکین سے بات کی جو خود حیران تھے کہ یہ کیا ہو گیا کیوں کہ سب کو معلو م ہے کہ اسلامی سزائوں کے بارے میں مغرب اور مغرب زدہ طبقہ کیا کہتا ہے۔ دوسری دن چند اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ کونسل نے سرعام پھانسی کی مخالفت کر دی۔ لیکن جب میری چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل سے بات ہوئی تو انہوں نے ان خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے بتایا کہ کونسل کو تو سینیٹ کی طرف سے صرف یہ پوچھا گیا تھا کہ کیا سرعام پھانسی دینے کے لیے موجودہ قوانین میں تبدیلی کی ضرورت ہے جس پر کونسل کا جواب یہ ہے کہ موجودہ قوانین کے مطابق سر عام پھانسی دی جا سکتی ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہاں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ سپریم کورٹ کا ایک پرانا فیصلہ ہے جس میں سرعام پھانسی پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ میں نے چیئرمین صاحب سے کونسل کی متنازع پریس ریلیز پر بھی بات کی اور امید ظاہر کی کہ اسلامی نظریاتی کونسل صرف اور صرف اسلام کی بات کرے گی۔ مجھے چیئرمین صاحب نے اس بات کا بھی یقین دلایا کہ اُن کی طرف سے جو جواب سینیٹ کو جائے گا وہ بلکہ واضع اور صاف ہو گا۔

انصار عباسی