اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے دو سال بعد، چین افغانستان میں سب سے بااثرملک کے طور پر ابھرا ہے۔ چین واشنگٹن کے افغانستان سے نکلنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے سفارتی اور سٹریٹجک اثررسوخ کو بڑھا رہا ہے۔ چین خطے میں ایک نجات دہندہ اور علاقائی شراکت دار کے طور پر اپنی اہمیت اجاگر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ چین کا موجودہ نقطہ نظر بنیادی طور پر نایاب زمینی معدنیات کی تلاش، یوریشیا کے ساتھ علاقائی روابط کے کوششیں اور سلامتی کے خدشات کے گرد گھومنے والے اس کے معاشی مفادات پر مبنی ہے۔ سفارتی سطح پر بیجنگ اور کابل دونوں نے ایک دوسرے کے ممالک میں اپنے سفیر تعینات کیے ہیں۔ دنیا میں چین پہلا ملک ہے جس نے طالبان کے نامزد سفیر کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ کابل میں اپنا سفیر بھی مقرر کیا ہے۔ تاہم بیجنگ نے احتیاط برتتے ہوئے طالبان کی حکومت کو سفارتی طور پر تسلیم نہیں کیا۔ چین طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات کو اس سطح تک مضبوط کرنے کا سوچ رہا ہے جہاں سب پہلے اقتصادی، معدنی اور قدرتی وسائل تک رسائی کے ساتھ مغربی ممالک کی موجودگی بہت کم ہو۔
Category Archives: Taliban
اٹھائیس دن میں سب نکل جائیں گے؟
حکم نامہ جاری ہوا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطنوں 28 دن کے اندر اندر پاکستان چھوڑ دو، ورنہ۔۔۔ اگر بچے سکول میں پڑھتے ہیں تو سکول والوں کو بتا دو، اگر اتنے غریب ہو کہ بچے کسی ورکشاپ، کسی دکان میں کام کرتے ہیں تو آخری ہفتے کی تنخواہ وصول کر لو، اگر بہت ہی زیادہ غریب ہو اور بچے کچرا اٹھاتے ہیں تو کسی کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں، کچرا اٹھانے والے کچھ اور بھی آ جائیں گے۔
اگر خود کہیں نوکری کرتے ہو تو نوٹس دے دو، اگر اتنے خوش قسمت ہو کہ اپنا گھر بنا لیا تھا تو کسی پراپرٹی ڈیلر کے ہاتھ چابیاں دو اور اونے پونے پیسے پکڑ لو، اگر کرائے کے گھر میں رہتے ہو یا کسی کچی بستی میں بسیرا ہے تو اپنی آخری جمع پونجی کسی پک اپ، کسی ٹرک والے کو دو، سامان لادو اور یہاں سے نکل جاؤ۔ اگر پلے کوئی پیسہ نہیں تو شاید بیگم یا کسی بچی کے پاس بالیاں ہوں گی وہ بیچو، موٹرسائیکل یا سائیکل کا بھی کچھ نہ کچھ مل ہی جائے گا۔ اگر سب کچھ بیچ کر بھی واپسی کا سفر نہیں کر سکتے تو بھی جیب میں کچھ پیسے رکھو۔
پولیس والے، سکیورٹی ایجنسیوں والے اور اب نادرا والے بھی تمھاری تلاش میں ہیں، جب وہ تمھاری جھونپڑی تک پہنچیں تو وہ پیسے اُن کی جیب میں منتقل کرنا، پیروں کو ہاتھ لگانا، پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانا، اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کا واسطہ دینا، ہو سکتا ہے اُن کے دل میں رحم آ جائے اور وہ تمھاری جھونپڑی چھوڑ کر تمہارے ہمسائے اور اس کے بچوں کو اٹھا کر لے جائیں۔ کبھی یہ نہ کہنا کہ میں تو پیدا ہی اِسی دھرتی پر ہوا تھا، جس ملک میں تم مجھے واپس بھیج رہے ہو اسے تو میں نے کبھی دیکھا ہی نہیں، صرف ماں باپ سے اس ملک کی کہانیاں سنی ہیں اور ان میں سے بھی زیادہ تر ڈراؤنی ہیں۔ سُنا تھا اس ملک میں ایک قانون بھی موجود ہے کہ اگر آپ یہاں پیدا ہوئے ہیں تو آپ کے پاس یہاں رہنے کا قانونی حق موجود ہے۔ جب سرکاری ہرکارے تمہیں اس مملکت خداداد سے بے دخل کرنے آئیں تو پرانے قصے لے کر نہ بیٹھ جانا۔ یہ نہ یاد دلانا کہ ہمارے باپ دادا کا تو تم نے کُھلے بازوؤں کے ساتھ استقبال کیا تھا۔ کیا ہم نے تمھارے ساتھ مل کر سوویت یونین کو پاش پاش نہیں کیا تھا؟ کیا ہمارے افغان آباؤ و اجداد کو تم نے امت مسلمہ کا ہراول دستہ نہیں کہا تھا؟
یہ مت یاد کروانا کہ حکمنامے میں تو صرف غیر قانونی تارکین وطن لکھا گیا ہے لیکن اس بار نشانہ صرف افغان مہاجر اور ان کی وہ نسلیں ہیں جنھوں نے کابل قندھار صرف کہانیوں میں سُنا ہے اور وہ خالصتاً پاکستان کی ’جم پل‘ ہیں۔ یہ بھی مت کہنا کہ اس ملک میں لاکھوں بنگلہ دیشی بھی ہیں، جو بنگلہ دیش بننے سے بہت پہلے سے پاکستان میں موجود ہیں، انھوں نے نہ کبھی ملک سے غداری کی، نہ دہشت گردی کی، نہ کوئی مذہبی جتھہ بنایا لیکن پھر بھی ان کی تیسری نسل کچی بستیوں میں بغیر شناختی کارڈوں کے ریاست کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہو رہی ہے۔ ہاتھ باندھ کر یاد دلانا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہو گا کہ کب سے پاکستان میں رہنے والے سارے افغان دہشت گرد، منشیات فروش اور جرائم پیشہ ہو گئے۔ دہشت گرد اپنی کارروائی سے پہلے شناختی کارڈ نہیں لیتے، نہ ہی انھیں پاسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ یاد مت کرانا کہ جو طالبان رہنما پاکستان کی سرحدوں کے اندر مقیم تھے انھیں پاسپورٹ کہاں سے جاری ہوئے تھے۔
کیا سویت یونین کے بعد ہم نے افغانستان میں ایک دوسری سپر پاور امریکہ کو آپ کی مدد سے شکست نہیں دی۔ کیا ہم نے غلامی کی زنجیریں نہیں توڑیں، کیا آپ نے ہمارے لیے ’نصر من اللہ و فتح قریب‘ کی دعائیں نہیں دیں۔ کیا پاکستان کے طاقتور ترین جنرل اس فتح کا جشن منانے کابل کے انٹرکانٹینینٹل ہوٹل نہیں پہنچے اور کیمروں کے سامنے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ نہیں کہا کہ اب سب ٹھیک ہو جائے گا؟ ہمیں یہ مت یاد دلانا کہ ہم افغانستان سے اپنے گھروں، کھیتوں، شہروں، دیہاتوں کو چھوڑ کر اس لیے بھاگے تھے کہ آپ کے چہیتے طالبان ہمیں مارتے تھے، دھندہ نہیں کرنے دیتے تھے، بچیوں کو سکول نہیں جانے دیتے تھے۔ ہم نے بھاگ کر اپنے آباؤ و اجداد کی طرح یہاں پناہ ڈھونڈی اب طالبان آپ کی بات نہیں سنتے (کیونکہ وہ غلامی کی زنجیریں توڑ چکے) تو آپ پاکستان میں ہمارے ساتھ وہی کریں گے جو طالبان نے ہمارے ساتھ افغانستان میں کیا تھا۔ حکمنامہ جاری ہو چکا کہ 28 دن میں پاکستان چھوڑ دو ورنہ۔۔۔ ایسے حکمناموں کا جواب ہم نے پہلے بھی سُن رکھا ہے: ’اگر نہ چھوڑیں تو۔۔۔‘
محمد حنیف
بشکریہ بی بی سی اردو
سقوط کابل
دنیا نے حیرانی سے سقوط کابل کو دیکھا اور اشرف غنی کی ازبکستان فرار کی بزدلی کو بھی دیکھا۔ ’بیس سال بعد جنگ ختم ہو گئی ہے۔‘ یہ وہ پیغام تھا جو گزشتہ اتوار کو طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان نے میڈیا کو دیا۔ ہیلی کاپٹرز کے ذریعے امریکی عملے کے انخلا نے، اگرچہ یہ زیادہ منظم تھا، کئی عشرے قبل سائیگون سے جلد بازی اور منظم امریکی رخصتی کی یاد دلا دی۔ کابل کے صدارتی محل میں آرام سے بیٹھ کر تصاویر بنوانے والے طالبان نے وہی پیغام دیا جو ویت کانگ نے دیا تھا۔ طالبان نے ایک ماہ سے کم عرصے میں یکے بعد دیگرے شہر قبضہ کیے اور وہ بھی کسی معمولی مزاحمت کے بغیر۔ اس کے لیے تیاریاں دیہی علاقوں میں کئی برسوں سے جاری تھیں، جہاں غنی حکومت کی طاقت اور اس کے لیے ہمدردی بالکل موجود نہ تھی۔ حتیٰ کہ مزار شریف اور ہرات میں، جہاں سے توقع کی جا سکتی تھی، مقامی جنگجوؤں کی جانب سے مزاحمت بہت کم اور بہت تاخیر سے ہوئی۔
غنی مزار شریف بھاگا، تو ترکی سے حال ہی میں مقامی جنگجوؤں کو قائل کرنے کے لیے آنے والے ازبک جنگجو دوستم ان کے ساتھ ہو لیا، لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ ایک انتہائی سنجیدہ پالیسی پر عمل پیرا ہونے کے لیے طالبان کی تعریف ہونی چاہیے۔ وہ اہم سرحدی پوائنٹس کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں، انھوں نے ہر ایک کو یقین دلایا کہ وہ کسی بھی حال میں سرحدیں پار کر کے غیر ملکی علاقے میں داخل نہیں ہوں گے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ طالبان وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ وسطی ایشیائی ممالک میں داخل نہیں ہوں گے۔ یہی یقین ایران، پاکستان اور چین کو بھی دلایا جا چکا ہے۔ چناںچہ طالبان کے خلاف افغان جنگجوؤں کوپروان چڑھانے کی ان کے پاس کوئی وجہ نہیں ہے، جنھوں نے جنگجوؤں کو غیر مؤثر بنا کر افغانستان کو ایک اور ممکنہ خانہ جنگی سے فی الوقت بچا لیا ہے۔ مغرب کے لیے یہ ایک اسرار ہے کہ جس افغان آرمی کو انھوں نے پیسا دیا اور کئی برس تک اس کی تربیت کی، کیسے اور کیوں جنگ کے لیے اتنی ناکارہ نکلی۔
غنی کی حکومت نے جس کرپشن کو فروغ دیا، اس کا نتیجہ دفاعی بجٹ میں خردبرد کی صورت میں نکلا، دبئی میں رئیل اسٹیٹ بھی خریدی گئی۔ پام آئی لینڈ کے بڑے حصے کی ملکیت کس کے پاس ہے؟ فوجیوں کو شاذ و نادر ہی پوری تنخواہ مل پاتی ہے، کیوں کہ افسران سارا پیسا ہتھیا لیتے ہیں، جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کیوں فوج چھوڑنے کی شرح اتنی زیادہ ہے (سالانہ 35 ہزار فوجی)۔ یہ اکثر امریکا کے دیے ہوئے ہتھیار بلیک مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں تاکہ گزارا کر سکیں۔ ان کے پاس مغرب کی حمایت یافتہ کرپٹ حکومت کے لیے اور طالبان کے خلاف لڑنے کرنے کے لیے کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔ دوحہ امن منصوبے کی ناکامی، جس پر امریکا اور طالبان میں اتفاق ہو گیا تھا، پہلے سے طے شدہ نہیں تھی۔ امریکا جو اپنے نقصانات کم کرانا چاہتا تھا، اور اسے ایک ہاری ہوئی جنگ سے محفوظ پسپائی درکار تھی، طالبان نے اس میں اپنے اس ہدف تک رسائی کو دیکھا، جس کے لیے وہ برسوں سے لڑتے آرہے تھے، یعنی غیر ملکی قبضے کا خاتمہ۔
شروع ہی سے یہ بات بالکل واضح تھی کہ طالبان مستقبل میں کسی امریکی کٹھ پتلی حکومت کو برداشت نہیں کریں گے۔ طالبان کی اقدار میں سے ایک یہ بھی ہے کہ معاہدوں کی پاس داری ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ علاقائی طاقتیں طالبان کی یقین دہانیوں پر اعتبار کر سکتی ہیں کہ بین الاقوامی سرحدوں کا احترام کیا جائے گا۔ آج کے طالبان کا رویہ 2001 سے قبل کے طالبان جیسا نہیں ہے۔ یہ ان کے الفاظ اور کابل میں ان کے عمل سے واضح ہو چکا ہے، بلکہ اس سے قبل دیگر تمام شہروں اور قصبات کی فتح میں بھی یہ سامنے آ چکا ہے۔ افغان فوج کو پیغام بہت واضح تھا، کہ اپنے ہتھیار ڈال دو اور بغیر کوئی سزا پائے چلے جاؤ، اس طرح انھوں نے کابل تک آسانی سے راستہ بنا لیا۔ اس رویے کی وجہ سے فوج کے پگھلنے میں تیزی آئی۔ وہ اچھے خاصے تبدیل ہو چکے ہیں، اور ایک مرکزی قوت کے بغیر مقامی کمانڈرز کی متعدد آرمیز پر مشتمل ایک اڑیل تحریک کے بجائے آج طالبان کہیں زیادہ متحد اور منظم ہیں، ورنہ وسیع پیمانے پر قتل عام اور لوٹ مار سے بچنا ممکن ہی نہ ہوتا۔ وہ غیر منظم طاقت اب نہیں رہی، طالبان کی زمینی قوت کی قیادت اور اقدار کے ساتھ وابستگی کے مضبوط عزم سے ان کا نظم و ضبط مضبوط ہوا ہے۔
دوسری بات، طالبان کو ایک پشتون قوت کے طور پر بنایا گیا تھا، اس لیے اس نے پشتونوں کو افغانستان میں موجود دوسری نسلوں کے خلاف کھڑا کیا، آج طالبان میں تاجکوں اور ازبکوں کا ایک مضبوط طبقہ شامل ہے، جس کی وجہ سے ان کی نسلی تقسیم اگر مکمل طور پر ختم نہ بھی ہوئی ہو تو کم ضرور ہو گئی ہے۔ نسلی امتیاز سے بچنے سے یقینی طور پر طالبان کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک جامع حکومت پر ان کے اصرار کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ میں شرط لگا سکتا ہوں کہ عبداللہ عبداللہ براہ راست یا بالواسطہ نئے سیٹ اپ کا حصہ ہوں گے (افغانستان پر میرے 29 ستمبر 2020 اور 2 اپریل 2021 کے مضامین پڑھیں)۔ طالبان رہنما کہہ چکے ہیں کہ انھوں نے خواتین کے کردار کے حوالے سے ماضی کی غلطیوں سے سیکھا ہے۔ اگر یہ سچ ہے اور خواتین کو اسکول جانے، نوکری کرنے اور گھومنے پھرنے کی اجازت ہو گی، تو اس سے یقینی طور پر ان کی قبولیت کو استحکام ملے گا، بالخصوص شہروں میں۔
اور آخری بات یہ کہ طالبان کا شیعہ مخالف پہلو بظاہر لگتا ہے کہ نرم پڑ گیا ہے۔ اگر ایسا برقرار رہا تو اس سے ایک متحد افغانستان میں امن کو فروغ ملے گا۔ طالبان کا یہ اعلان کہ جنگ ختم ہو چکی ہے، مستقبل قریب کے لیے ایک اچھی علامت ہے۔ افغانستان بھر کو اپنے قبضے میں کرنے کے دوران طالبان نے شہریوں کو یقین دلایا کہ کوئی انتقام نہیں لیا جائے گا اور نہ لوٹ مار کی جائے گی۔ اس پر سختی سے عمل کیا گیا۔ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ افغانوں نے طالبان کو شہروں میں داخل ہونے کی اجازت دی اور فوج نے ہتھیار ڈالے یا انھوں نے راستہ دیا۔ افغانستان کے ارد گرد کی علاقائی طاقتیں جو جاری جنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں، اب امن قائم رکھنے اور افغان ملک اور معیشت کی تعمیر نو میں مدد کرنے کے لیے تعاون کریں۔
اکرام سہگل
بشکریہ ایکسپریس نیوز
افغانستان : امریکہ کی طویل ترین جنگ کی مالی و جانی قیمت کتنی؟
افغانستان میں امریکہ کی 2001 میں شروع ہونے والی طویل ترین جنگ 20 سالوں کے بعد اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ یہ جنگ نہ تو عام امریکی شہریوں کی توجہ کا مرکز رہی اور نہ ہی امریکی کانگریس نے افغانستان میں حکومتی کارروائیوں کی اس انداز میں نگرانی کی جس طرح سے ویتنام جنگ کی گئی تھی۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکی حکومت کی جانب سے افغانستان میں جنگ کے دوران خرچ ہونے والی رقم کا بیشتر حصہ قرض لے کر لگایا گیا تھا، جس کا بوجھ امریکیوں کو نسلوں تک اٹھانا پڑے گا۔ امریکہ نے اگرچہ افغانستان میں اپنا فوجی مشن 31 اگست تک ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے تاہم اس طویل جنگ کے دوران خرچ ہونے والی رقم کا جائزہ لیا جائے تو ان 20 برسوں میں کھربوں ڈالر خرچ ہو چکے ہیں، جب کہ کئی قیمتی جانیں بھی حملوں کا نشانہ بنے۔
امریکی یونیورسٹی ہارورڈ کے کینیڈی سکول اور براؤن یونیورسٹی کے منصوبے ’جنگ کی قیمت‘ سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں 2 ہزار 448 امریکی فوجی جبکہ تین ہزار 846 امریکی کنٹریکٹر ہلاک ہوئے، جبکہ دیگر نیٹو ممالک کے ایک ہزار 144 اہلکار ہلاک ہوئے۔ علاوہ ازیں افغان فوج اور پولیس کے 66 ہزار اہلکار ہلاک ہوئے، جبکہ جنگ کے دوران ہلاک ہونے والے افغان شہریوں کی تعداد 42 ہزار 245 ہے۔ 51 ہزار 191 طالبان اور دیگر حکومت مخالف جنگجو ہلاک ہوئے۔ انہی 20 برسوں میں 444 امدادی کارکن اور 72 صحافی بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ امریکہ کے افغانستان پر قبضے اور طالبان کا تختہ الٹنے کے بعد نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں پچاس فیصد تک کمی واقع ہوئی۔ جبکہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں نوجوان بچیوں کے پڑھ سکنے کی شرح بہتر ہو کر 37 فیصد ہو گئی ہے۔