اعلیٰ تعلیم خطرے میں

وطن عزیز میں اعلیٰ تعلیم کا مستقبل ایک بار پھر خطرے کی زد میں ہے۔ ٹیکنالوجی کے پھیلائو کے اس دور میں جب دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور ترقی کی خواہش رکھنے والے ممالک اعلیٰ تعلیم کے میدان میں سرمایہ کاری بڑھا کر بہتر امکانات و نتائج پر خاص توجہ دے رہے ہیں، یہ بات کسی طور مناسب نہیں کہ رواں مالی سال 2024-25ء کے جاری بجٹ میں بڑی کٹوتی کر کے ایک طرف اسے 65 ارب روپے سے گھٹا کر 25 ارب روپے کی نچلی سطح پر رکھ دیا گیا۔ دوسری جانب اسے صرف وفاقی جامعات تک محدود کر دیا گیا۔ اس حوالے سے وزارت خزانہ کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو خط بھی لکھ دیا گیا ہے جس نے ملک کی 160 سے زائد سرکاری جامعات کیلئے 126 ارب روپے کی درخواست کر رکھی تھی۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ایک اور گھائو یہ لگا کہ منصوبہ بندی کمیشن نے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا ترقیاتی بجٹ 59 ارب روپے سے کم کر کے 21 ارب روپے کر دیا ہے۔ 

اعلیٰ تعلیم کے ادارے علم و آگہی کے ایسے جزیرے ہیں جہاں سے مختلف شعبوں میں فارغ التحصیل ہونیوالے نوجوان معیشت، صنعت، طب، زراعت اور کارپوریٹ سیکٹر سمیت ہر شعبے کو نئے رجحانات سے آشکارا کرتے اور ترقی و امکانات کے مواقع پیدا کرتے ہیں۔ ان اداروں کے اعلیٰ تعلیمی معیار اور تحقیقی کام پر سمجھوتے سے گریز کرتے ہوئے انہیں مالی اعتبار سے پیروں پر کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں اشرافیہ کیلئے بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے سارے مواقع دستیاب ہیں، کم وسائل کے حامل لائق نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور خود ملکی ترقی وخوشحالی کیلئے اندرون ملک قائم اعلیٰ تعلیم کے ادارے غنیمت ہیں جن کے تعلیمی و تحقیق معیار اور ترقیاتی ضروریات سے کسی طور صرف نظر نہیں کیا جانا چاہئے۔ دوسری طرف ہمیں دوست ملکوں سے تعلیمی نظام سمیت کئی شعبوں میں اصلاح و بہتری کیلئے معاونت کے حصول میں کوئی عار نہیں ہونا چاہئے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

اعلیٰ تعلیمی ادارے تباہی کے دہانے پر

پاکستان میں متوسط طبقہ کے لیے مہنگائی کے بعد اب تعلیم کا حصول بھی بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ پاکستانی طلبہ کی اکثریت جنھیں سرکاری تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر تھے، اب پہلے جیسے نہیں رہے اور حالات مزید تنزلی کی طرف جا رہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم سے متعلق ایک عرصے سے کوئی واضح اور مستقل تعلیمی پالیسی نظر نہیں آ رہی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملکی سیاسی منظر نامے کے تبدیل ہوتے ہی اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اہم عہدیدار بھی تبدیل ہوتے ہیں اور اس تبدیلی کے ساتھ ہی تعلیمی پالیسیاں بھی تبدیل ہونے لگتی ہیں۔ حال ہی کی ایک خبر کے مطابق ایک سابق وزیراعظم کی قریبی عزیزہ اعلیٰ تعلیمی ادارے کے اہم ترین عہدے سے فارغ۔ ظاہر ہے جس ملک میں تعلیمی پالیسیاں بھی کسی کرکٹ میچ کی صورتحال کی طرح تبدیل ہوں وہاں تعلیمی معیار کیونکر عالمی سطح کا ہو سکتا ہے؟ غیر ملکی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل جب ملکی تعلیمی پالیسیوں میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں تو انھیں اس ملک اور اس کے طلبہ کی ضروریات اور حالات کا قطعی علم اور احساس نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ تعلیمی پالیسیوں کو مرتب کرتے وقت متعلقہ ’’اسٹیک ہولڈرز‘‘سے مشورہ لیتے ہیں، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ تقریباً دو دہائیوں سے یہی طے نہ ہو سکا کہ جامعات میں آنرز اور ماسٹر کی ڈگریاں ہی اس ملک کے طلبہ کے مستقبل کا ضامن ہیں یا ’ بی ایس‘ کی؟

یہی کچھ حال کالجز اور پرائیویٹ اداروں کی ڈگریوں کے معاملات کا ہے، بات صرف یہی تک محدود نہیں ہے بلکہ حساس ترین اور اہم بات یہ ہے کہ اب سرکاری اعلیٰ تعلیمی اداروں کو کسی صنعتی ادارے یا فیکٹری کی طرح چلانے کا راستہ اختیار کر لیا گیا ہے اور تعلیمی اداروں کو پروڈکشن تیار کرنے یعنی مال کمانے والے ادارے کے طور پر چلانے کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہے اور جامعات کی خودمختاری کو ختم کرتے ہوئے یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ جامعات کا کام صرف پیسہ کمانا ہے فنڈز طلب کرنا نہیں۔ با الفاظ دیگر حکمرانوں کی جانب سے تعلیمی فنڈز فراہم کرنے کے بجائے ہاتھ کھڑے کر لیے گئے ہیں کہ جامعات کے اخراجات کے لیے حکومت کی طرف مت دیکھو، خود بندوبست کرو۔ سوال یہ ہے کہ جامعات تعلیم فراہم کرنے کا ادارہ ہوتی ہیں یا کسی فیکٹری کی طرح مال تیار کر کے، اسے فروخت کر کے پیسہ کماتی ہیں؟ حالیہ ایک خبر کے مطابق سندھ کے سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کے اجلاس میں جامعات سے کہا گیا کہ وہ اپنے اخراجات کو کم کریں اور ریسورس جنریشن کے دیگر ذرایع تلاش کیے جائیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ جامعات میں ملازمین کی ضرورت سے زائد تعداد جامعات کے وسائل پر بوجھ ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ تمام سرکاری اداروں میں تقرریاں سیاسی دباؤ کے تحت ہوتی ہیں جو ظاہر ہے کہ حکمرانوں کی جانب سے ہی ہوتا ہے تو اس کو ختم کرنا بھی حکومت کی ہی ذمے داری بنتی ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ آیندہ تقرریاں بغیر پنشن کی بنیاد پر دی جائیں۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ ایک استاد کو گھر چلانے کے لیے مناسب مشاہرہ اور مراعات جو دیگر سرکاری اداروں کے ملازمین کو بھی دی جاتی ہیں، اس سے محروم کر دیں گے تو اس سے ایک اچھی کارکردگی کی توقع کیسے رکھیں گے؟ کیا ایک استاد مہنگائی کے اس دور میں اپنے گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے دیگر جگہوں پر کام نہیں کرے گا؟ ایسے میں وہ طلبہ کوزیادہ وقت نہیں دے سکے گا اور نہ توجہ۔ اس ملک میں ایک طبقے کو تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مراعات دی جائیں اور ایک استاد جو پوری قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرتا ہے اس سے پنشن کا حق بھی چھین لیا جائے؟ بات یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں بھی جامعات کے اساتذہ کو وہ حقوق نہیں مل رہے جو قانونی طور پر ان کا حق ہے، مثلاًبیشتر جامعات میں پنشن بند ہے، کچھ میں تنخواہیں پوری نہیں مل رہی ہیں اور اساتذہ پروموشن کے بغیر ریٹائر ہو رہے ہیں۔ 

ملک کی سب سے بڑی جامعہ کراچی ہی میں تین اساتذہ بغیر پروموشن کے ریٹائر ہو گئے، پروموشن ان کا حق تھا وہ اس معیار پر بھی پورے اتر تے تھے اور عدالت کی طرف سے اس ضمن میں ہدایات بھی تھیں، تب بھی ان اساتذہ کو پروموشن جو ان کا حق تھا نہیں مل سکا اور اب پنشن بھی نہیں مل رہی۔ اب پنشن کے بغیر تقرری کی بات کی جا رہی ہے جب کہ جامعات کے اساتذہ کو تو اس وقت بھی پروموشن کا حق حاصل نہیں کیونکہ عرف عام میں ہم جب پروموشن کا لفظ استعمال کرتے ہیں توعملاً اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر جامعہ نئی تقرری کا اشتہار دیتی ہے تو یہاں پہلے سے مستقل بنیادوں پر کام کرنے والا ایک استاد دوبارہ سے ایک نئے امیدوار کی حیثیت سے درخواست جمع کرائے اور اس تمام مراحل سے گزرے جس سے ایک باہر سے آکر درخواست دینے والا امیدوار گزرے۔ گویا جامعات کا کوئی استاد اگر زندگی میں بھی نئی آسامی (پوسٹ یا عہدے) کے لیے درخواست جمع نہیں کرائے گا تو ایسے ہی ریٹائر ہو جائے گا، اس کا کوئی پروموشن نہیں ہو گا خواہ اس کی بیس، پچیس سال کی سروس ہو۔ دوسری طرف ایک عام سرکاری ملازم کو پانچ سال بعد سنیارٹی کے پرموشن بھی ملتا ہے اور آفیسر گریڈ کے ملازم کو گاڑی، ڈرائیور بھی جب کہ جامعہ کے گریڈ انیس اور بیس کے پروفیسر کو نہیں ملتا۔

یہ صورتحال اعلیٰ سرکاری تعلیمی اداروں کو بہت تیزی کے ساتھ تباہی کی طرف لے جا رہی ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان اس ملک کے مڈل کلاس طبقے کو ہو رہا ہے۔ جامعات ان حالات میں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے مسلسل فیسوں میں اضافہ کر رہی ہیں جو ظاہر ہے کہ مڈل کلاس طبقے کے لیے مشکلات کا باعث ہے۔ پہلے ہی اس ملک میں سرکاری اسکولوں کی تباہی ہو چکی ہے جس کی وجہ سے وہ خاندان جو پرائیویٹ اسکولوں کی فیس ادا نہیں کر سکتے، ان کی ایک بڑی تعداد مدرسوں کا رخ کر رہی ہے جہاں وہ مڈل یا میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد دوبارہ سرکاری تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں تاکہ انھیں کوئی اچھا ذریعہ معاش مل سکے۔ اب بہت سے دینی مدارس نے بی بی اے، ایم بی اے اور میڈیا سائنسز میں بھی ڈگری کورسسز شروع کر دیے ہیں اور مڈل کلاس کی ایک تعداد اس طرف بھی جا رہی ہے، لیکن ایسے اداروں کی تعداد زیادہ نہیں ہے چنانچہ اگر ریاست کی طرف سے تعلیمی معاملات اور پالیسیوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ مڈل کلاس پر آیندہ اعلیٰ تعلیم کے دروازے تقریباً بند ہو جائیں گے جو ملکی ترقی اور مستقبل کے لیے بھی ایک خطرناک مرحلہ ہو گا۔

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

وکی پیڈیا، جدید دورہ کا انسائیکلوپیڈیا

وقت کے ساتھ ساتھ جس طرح ہر شعبہ زندگی کی رسائی انسانی ہاتھوں سے نکل کر بذریعہ ٹیکنالوجی جدید مشینوں پر منتقل ہوتی جا رہی ہے اسی طرح انسائیکلوپیڈیا بھی اب کتابوں سے نکل کر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے چند انچ کی ایک چھوٹی سی سکرین پر منتقل ہو چکا ہے۔ ذرا غور کریں کہاں موٹی موٹی ضخیم اور بھاری بھر کم کتابوں پر مشتمل معلومات کا ذخیرہ اور کہاں چند انچ کی سکرین جہاں چند سیکنڈ کے اندر اندر دنیا بھر کی معلومات کا خزانہ آپ کی انکھوں کے سامنے آپ کے کمپیوٹر یا موبائل فون کی سکرین پر نظر آ رہا ہوتا ہے۔ اس جدید دور کا یہ انسائیکلو پیڈیا ”وکی پیڈیا ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے وکی پیڈیا ایک ڈیجیٹل انسائیکلو پیڈیا ہے جو انٹر نیٹ سے منسلک ہے۔

یوں کہیں کہ یہ انسائیکلو پیڈیا کی ایک جدید شکل ہے۔ جس پر دنیا بھر کے انٹرنیٹ صارفین باہمی خیالات اور نظریات کا تبادلہ کرتے رہتے ہیں۔ یہ انسائیکلو پیڈیا جسے ” وکی میڈیا فاؤنڈیشن ‘‘ کے نام سے ایک غیر منعفتی تنظیم نے شروع کیا۔ وکی پیڈیا دراصل ”نیو پیڈیا‘‘ کی ابتدائی شکل ہے ۔ یہ 9 مارچ 2000 میں ایک ویب پورٹل کمپنی ”بومس‘‘ کی نگرانی میں شروع کی گئی۔ اس کمپنی کے بانی اور چیف ایگزیکٹو جمی ویلز تھے اور ایڈیٹر انچیف لیری سینگر تھے۔ جنہوں نے 15 جنوری 2001 کو مل کر وکی پیڈیا کا آغاز کیا۔ انسائیکلو پیڈیا کے بنیادی تصور کی توسیع کے نظرئیے کے تحت اس کا نام ”وکی پیڈیا ” تجویز کیا گیا اور یہی حتمی قرار پایا۔ ابتدا میں وکی پیڈیا صرف انگریزی زبان تک محدود تھا لیکن رفتہ رفتہ اس کی مقبولیت اور افادیت کے باعث یہ دوسری زبانوں تک پھیلتا چلا گیا۔ اردو وکی پیڈیا کا اجراء 27 جنوری 2004 کو کیا گیا تھا۔

یکم ستمبر 2021 سے اردو وکی پیڈیا میں ایک لاکھ 65 ہزار سے زائد مضامین شائع کئے گئے جبکہ 11 ہزار پانچ سو کے لگ بھگ فائلیں لوڈ کی گئیں۔ اب وکی پیڈیا پر 130 سے بھی زائد زبانوں کے 30 لاکھ سے زیادہ موضوعات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ وکی پیڈیا ویب پر مبنی ایک کثیرالاستعمال انسائیکلوپیڈیا کا نعم البدل ہے۔جو پوری دنیا میں ہر لمحے کروڑوں انسانوں کے زیر استعمال رہتا ہے۔ اس کی خاص اور منفرد بات یہ ہے کہ اس کے مواد کی ہر خاص وعام کو ترمیم کی اجازت ہوتی ہے۔ یہ انٹرنیٹ کی دنیا کی مقبول ترین اور مشہور ترین ویب سائٹ ہے جس پر ہر لمحے لاکھوں لوگ معلومات شیئر کر رہے ہوتے ہیں۔

خاور نیازی

بشکریہ دنیا نیوز

آپ نوکری کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟

مجھے بچپن میں میرے ایک استاد نے بتایا تھا ’’انسان زندگی میں کوئی چیز سیکھنا چاہتا ہو اور اگر اسے سیکھنے میں مشکل پیش آ رہی ہو تو وہ پڑھانا شروع کر دے‘ اسے وہ چیز‘ وہ سبجیکٹ سمجھ آ جائے گا‘‘ مجھے یہ نقطہ اس وقت سمجھ نہیں آیا تھا لیکن میں نے جب لائف اور بزنس کوچنگ شروع کی تو دوسروں کو فائدہ ہوا یا نہیں مگر زندگی کے بارے میں میرے اپنے کانسیپٹ کلیئر ہوتے چلے گئے۔ میں نے زندگی کو پہلے سے بہتر سمجھنا شروع کر دیا‘ میرے کلائنٹ اب مجھ سے پوچھتے ہیں آپ نے خود کبھی کوئی فیکٹری نہیں چلائی‘ آپ خود طلاق یافتہ بھی نہیں ہیں آپ کو ان تکلیفوں کا کیسے اندازہ ہو جاتا ہے؟ میں ہنس کر عرض کرتا ہوں ’’دل کا ڈاکٹر بننے کے لیے ہارٹ اٹیک ضروری نہیں ہوتا‘‘ یہ بھی ہنس پڑتے ہیں تو میں ان سے عرض کرتا ہوں ’’میں نے یہ سب کچھ آپ لوگوں سے سیکھا‘ آپ لوگ آتے گئے‘ میں آپ کی کہانیاں سنتا گیا‘ ایک کا کامیاب ماڈل دوسرے اور دوسرے کا ماڈل پہلے کو دیتا گیا اور میرا ’’نالج بیس‘‘ بڑا ہوتا گیا اور بس‘ یہ ہے فارمولا‘ ڈاکٹر مریضوں سے سیکھتا ہے، آپ بھی یقین کریں میں نے زندگی اور بزنس کے زیادہ تر مسائل کے حل لوگوں کو پڑھا پڑھا اور سمجھا سمجھا کر سیکھے ہیں‘‘۔

لوگ میری بات پر یقین نہیں کرتے‘ یہ سمجھتے ہیں میں مذاق کر رہا ہوں لیکن میں سچ کہہ رہا ہوں‘ دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی زمانہ ہے اور اس کے سب سے بڑے پروفیسر لوگ ہیں‘ آپ وقت کے کلاس رومز میں بیٹھتے رہیں اور لوگوں سے ان کے تجربات سنتے رہیں‘ آپ کے دائیں بائیں علم کا ڈھیر لگ جائے گا‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ بھی کر کے دیکھ لیں‘ آپ بھی مان جائیں گے۔ کراچی میں میرے ایک کلائنٹ ہیں‘ یہ ماشاء اللہ اس وقت ارب پتی ہیں‘ کنسٹرکشن کے کاروبار سے وابستہ ہیں‘ بڑی بڑی ہائوسنگ اسکیموں میں ڈویلپمنٹ کا کام کرتے ہیں‘ سڑکیں بناتے ہیں‘ پل اور سیوریج کا سسٹم بنا کر دیتے ہیں اور ٹائون پلاننگ کرتے ہیں‘ یہ فیملی ایشوز میں پھنس گئے تھے اور یہ دو تین ماہ میرے پاس تشریف لاتے رہے‘ مجھے انھوں نے ایک بار اپنی زندگی کی کہانی سنائی اور میں نے اس کہانی سے روزگار‘ نوکری اور کاروبار کا ماڈل بنا لیا‘ یہ ماڈل اب تک درجنوں لوگوں کو خوش حال بنا چکا ہے۔

یہ صاحب اندرون سندھ کسی چھوٹے سے گائوں میں انتہائی غریب خاندان میں پیدا ہوئے تھے‘ مدرسے میں تعلیم حاصل کی تھی‘ بورڈ سے وظیفہ لیا اور بی اے کرنے میں کام یاب ہو گئے‘ یہ اس کے بعد جاب کے لیے کراچی آ گئے اور روز صاف ستھرے کپڑے پہن کر مختلف دفتروں کے چکر لگانے لگے لیکن انھیں کام یابی نہیں ہو رہی تھی‘ انھوں نے چپڑاسی تک کی جاب کی کوشش کی مگر یہ جاب بھی ان کے نصیب میں نہیں تھی‘ ان کا کمرہ کرائے کا تھا‘ ادھار کھانا کھاتے تھے اور رشتے داروں سے پیسے مانگ کر بسوں اور رکشوں کا کرایہ دیتے تھے۔ یہ سارے سورس بھی ایک دن ختم ہو گئے‘ رشتے داروں نے مزید ادھار دینا بند کر دیا‘ کمرے کا کرایہ بھی چڑھ گیا اور یہ پورا پورا دن بھوکے رہنے لگے‘ یہ ایک روز انتہائی پریشانی میں گھر سے پیدل نکل کھڑے ہوئے‘ راستے میں ایک مکان بن رہا تھا‘ گلی میں اینٹوں کا ڈھیر لگا تھا اور مزدور یہ اینٹیں اٹھا اٹھا کر ترتیب سے لگا رہے تھے‘ مستری لوگ اس ترتیب کو اپنی زبان میں اڈہ یا ٹھپہ کہتے ہیں‘ سومرو صاحب نے یہ دیکھا‘ رکے اور ان کے ذہن میں ایک دل چسپ آئیڈیا آیا‘ انھوں نے اپنی فائل سائیڈ پر رکھی‘ شرٹ کے کف فولڈ کیے اور مزدوروں کے ساتھ اینٹیں اٹھا کر اڈہ لگانا شروع کر دیا۔

مزدوروں نے انھیں روکا لیکن ان کا کہنا تھا‘ میں آپ لوگوں کی مفت مدد کر رہا ہوں‘ مجھے اس کے بدلے آپ سے کچھ نہیں چاہیے‘ مزدور حیرت سے انھیں دیکھتے رہے‘ یہ بہرحال اینٹیں اٹھاتے اور اڈہ لگاتے رہے‘ ٹھیکے دار دور بیٹھا تھا‘ وہ انھیں غور سے دیکھتا رہا‘ ان کا کام ختم ہو گیا تو انھوں نے فائل اٹھائی اور چپ چاپ چل پڑے‘ ٹھیکے دار نے دیکھا تو وہ دوڑ کر ان کے پاس آیا اور انھیں تھوڑے سے پیسے پکڑانے کی کوشش کی‘ انھوں نے مسکرا کر انکار کر دیا اور کہا میں نے یہ کام کسی معاوضے کے لالچ میں نہیں کیا‘ گرمی تھی‘ میں نے دیکھا مزدور بیچارے دھوپ میں کام کر رہے ہیں‘ میں نے ان کی ہیلپ کرنا شروع کر دی۔ ٹھیکے دار نے کہا ’’لیکن آپ کو یہ معاوضہ ہر صورت لینا پڑے گا‘‘ سومرو صاحب نے وہ پیسے لے لیے لیکن وہ پیسے لینے کے بعد گھر نہیں گئے‘ وہ سیدھے سامنے دکان پر گئے‘وہاں سے دودھ سوڈا بنوایا‘ واپس آئے اور ٹھیکے دار اور مزدوروں سب کو وہ دودھ سوڈا پلا دیا‘ ٹھیکے دار اور مزدور ان کے ساتھ فری ہو گئے اور ان سے ان کا بیک گرائونڈ پوچھنے لگے‘ انھوں نے اپنی ساری کہانی سنا دی‘ ٹھیکے دار نے انھیں آفر کی آپ دن کو نوکری تلاش کریں لیکن شام کو آ کر میرا حساب ٹھیک کر دیا کریں‘ میں آپ کو ہزار روپے مہینہ دے دیا کروں گا‘ یہ فوراً مان گئے‘ یہ اب سارا دن نوکری تلاش کرتے تھے اور شام کو ٹھیکے دار کا حساب ٹھیک کر دیتے تھے۔

یہ سلسلہ ایک مہینے تک چلا‘ اس دوران انھوں نے محسوس کیا اینٹیں‘ بجری‘ ریت اور سیمنٹ کے سپلائرز تعداد اور مقدار میں ڈنڈی مارتے ہیں‘ یہ ٹھیکے دار سے رقم بھی زیادہ لے لیتے ہیں اور مٹیریل بھی کم دیتے ہیں‘ یہ ایک دن ٹھیکے دار کے پاس گئے اور اس کو پیش کش کی ’’میں آپ کی لیکج بھی روکوں گا اور مارکیٹ سے سستا مٹیریل بھی لے کر دوں گا‘ کیا یہ آپ کو منظور ہے؟‘‘۔ ٹھیکے دار نے ہاں کر دی‘ انھوں نے کہا ’’لیکن میری ایک شرط ہے‘‘ ٹھیکے دار نے پوچھا ’’کیا‘‘ یہ بولے ’’میں جتنی لیکج روکوں گا اور آپ کو وینڈرز سے جتنی رعایت لے کر دوں گا وہ ہم آپس میں آدھی آدھی کیا کریں گے‘‘ ٹھیکے دار فوراً مان گیا‘ یہ اس کے بعد ایک طرف اینٹوں والوں سے پوری اینٹیں اور مٹیریل سپلائی کرنے والے سے بجری‘ ریت اور سیمنٹ پورا لینے لگے اور دوسری طرف یہ فیکٹریوں سے ڈائریکٹ بات کر کے ان سے مارجن لینے لگے‘ اس سے انھیں اور ٹھیکے دار دونوں کو فائدہ ہونے لگا۔

یہ آہستہ آہستہ اپنا کام بڑھاتے رہے اور چھ ماہ بعد انھوں نے ٹھیکے دار کو سپلائی شروع کر دی اور تین سال بعد یہ خود بہت بڑے ٹھیکے دار تھے اور یہ آج ارب پتی ہیں‘ ان کا دعویٰ تھا یہ ساری اچیومنٹ انھوں نے تین گھنٹے مفت کام کر کے حاصل کی تھی‘ یہ اگر اس دن اینٹیں نہ اٹھاتے تو یہ آج بھی نوکری تلاش کر رہے ہوتے ‘ ان کا کہنا تھا‘ ہمارے نوجوان جتنا وقت نوکری تلاش کرنے میں ضایع کرتے ہیں یہ اگر اس کا صرف دس فیصد کسی کمپنی‘ ادارے یا دکان پر مفت کام کر لیں تو یہ دنوں میں برسرروزگار ہو جائیں گے۔ مجھے یہ آئیڈیا پسند آیا‘ میں نے اس آئیڈئیے پر جاب فارمولا بنایا اور یہ بے روزگار نوجوانوں کو دینا شروع کر دیا‘ آپ یقین کریں نتائج نے حیران کر دیا‘ آپ بھی اگر نوجوان ہیں اور بے روزگار ہیں تو آپ بھی یہ ٹرائی کر سکتے ہیں‘ آپ کو چند دنوں میں نوکری بھی مل جائے گی اور زندگی میں ترقی کرنے کا گُر بھی‘یہ فارمولا بہت آسان ہے‘ آپ سب سے پہلے یہ فیصلہ کریں آپ نے نوکری کرنی ہے یا اپنا کاروبار‘اگر نوکری کرنی ہے تو کس شعبے میں؟

آپ شعبہ منتخب کر نے کے بعد اس شعبے کی دوتین کمپنیاں سلیکٹ کریں اور کل سے ان کے دفتر یا ادارے میں جانا شروع کر دیں‘ آپ ان سے ہرگز ہرگز نوکری نہ مانگیں‘آپ انھیں مفت کام کی پیشکش کریں‘ آپ ان سے کہیں‘ میں آپ کے دفتر میں ٹی بوائے کا کام بھی کر سکتا ہوں اور باتھ روم بھی صاف کر سکتا ہوں اور کچن میں بھی ہیلپ کر سکتا ہوں‘ وہ لوگ اگر آپ کو اندر نہیں گھسنے دیتے تو آپ ان کے دفتر کے باہر بیٹھ جائیں اور اندر کام کرنے والوں کی گاڑیاں صاف کرنا شروع کر دیں لیکن واپس نہ جائیں۔ آپ یقین کریں آپ کے لیے اس دفتر میں جگہ بھی پیدا ہو جائے گی اور آپ اس کی چوٹی تک بھی پہنچ جائیں گے۔ آپ یہ یاد رکھیں پیسہ اور عہدہ یہ دونوں کام کی ’’بائی پراڈکٹ‘‘ ہیں‘ آپ کام کریں گے تو ہی امیر ہو سکیں گے یا کسی بڑے عہدے پر پہنچ سکیں گے‘ لفظ کام یاب میں کام پہلے آتا ہے اور یاب بعد میں‘ یہ لفظ ’’یاب کام‘‘ نہیں ’’کام یاب ‘‘ ہے‘ اس کا مطلب ہے آپ کو کام پہلے تلاش کرنا ہو گا اور یاب آپ کو بعد میں ملے گا لیکن ہم کام سے پہلے ’’یابی‘‘ تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یوں ہمارا بے تحاشا وقت اور توانائی ضایع ہو جاتی ہے لہٰذا میرا مشورہ ہے آپ تعلیم کے دوران یہ فیصلہ کر لیں آپ نے کام کیا کرنا ہے اور آپ کی تعلیم جوںہی ختم ہو جائے آپ اگلے دن کام پر پہنچ جائیں۔

یہ عین ممکن ہے آپ کو شروع میں دفتر میں مرضی کا کام نہ ملے مگر آپ پرواہ نہ کریں‘ آپ بس کسی نہ کسی طرح ٹرین میں سوار ہو جائیں‘ خواہ آپ کو پائیدان پر پائوں ٹکانے کی جگہ ہی کیوں نہ مل جائے‘ آپ بس ٹرین کے ساتھ لٹک جائیں‘ آپ یقین کریں ان شاء اللہ‘ ان شاء اللہ آپ کو ڈبے میں داخل ہونے کا موقع بھی ملے گا اور آپ کی مرضی کی سیٹ بھی اور دوسری بات پیسہ کام کے بعد ملتا ہے‘ آپ جتنا اچھا کام کریں گے، اتنا پیسہ ضرور ملے گا‘ دیر ضرور ہو سکتی ہے لیکن قدرت کے کارخانے میں اندھیر نہیں ہوتی آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آزما کر دیکھ لیں‘ نتائج آپ کو بھی حیران کر دیں گے۔

جاوید چوہدری

بشکریہ ایکسپریس نیوز