کیا پاکستان میں کچھ عناصر احتساب سے بالا تر ہیں ؟

پاکستانی سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی طرف سے جنرل کیانی کے خلاف درج کی گئی ایک پٹیشن کو اعتراضات لگا کر واپس کرنے کے بعد ایک بار پھر یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ ریاست کے ’طاقتور افراد‘ احتساب سے بالا تر ہوتے جا رہے ہیں۔
کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی طرف سے دائر کردہ اس پٹیشن میں الزام لگایا گیا تھا کہ آرمی کے ایک سابق جنرل نے فوج کے زیرِ اتنظام اسپتالوں کو غیر معیاری دوائیں فراہم کیں۔ درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ اس معاملے کی تحقیق غیر جانبدار اداروں کے ذریعے کرائی جائے اور اس میں ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

اس پٹیشن کی تفصیلات بتاتے ہوئے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’فوج کے اسپتالوں کو ایک منظم طریقے سے دوائیاں فراہم کی جاتی تھیں اور یہ ہسپتال براہ راست ادویات نہیں خرید سکتے تھے۔ لیکن ایک کورکمانڈر صاحب نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی ایک دوائی بنانے کی فیکڑ ی لگا لی اور انہوں نے غیر معیاری دوائیں بنانا شروع کر دیں۔ پنجاب ڈرگ اتھارٹی نے ایک رپورٹ میں ان ادویات کو جعلی اور مضرِ صحت قرار دیا۔ کیونکہ یہ ریٹائرڈ کور کمانڈر صاحب فوج میں ایک انتہائی سینیئر افسر کے دوست تھے۔ اس لئے فوج کے ہسپتالوں کو ایک جعلی خط لکھ کر یہ کہا گیا کہ وہ اس کمپنی سے ادویات خرید سکتے ہیں۔ میں نے اس معاملے کی پوری تحقیق کے لئے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی، جسے رجسٹرار نے اعترضات لگا کر واپس کر دیا ہے۔ اب میں اس کے خلاف اپیل کروں گا۔‘‘

پاکستان میں کئی مبصرین کا خیال ہے کہ اس پٹیشن کو اس لئے منظور نہیں کیا گیا ہے کیونکہ اس میں ایسے آرمی افسران کے نام ہیں، جو انتہائی اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں اور ابھی کچھ ہی برس پہلے وہ ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ اس سے یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ ملک میں احتساب صرف سیاست دانوں کا ہو سکتا ہے۔ فوج کے جرنیلوں کا احتساب کرنے کے لئے کوئی ادارہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے معروف تجزیہ نگار مطیع اللہ جان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس پٹیشن کو کیسے منظور کر لیا جاتا۔ اس میں کچھ ایسے افسران کے نام ہیں، جو ابھی کچھ ہی برسوں پہلے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ اگر ان کی تحقیق کی تو ہو سکتا ہے کہ حاضر سروس افراد کے نام بھی آجائیں۔

 مسئلہ یہ ہے کہ یہاں نیب نے بھی ریڈ لائن کھینچی ہوئی ہے۔ وہ سیاست دانوں کے پیچھے تو پڑی ہوئی ہے لیکن اس میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ جرنیلوں کا احتساب کر سکے۔ مشرف سمیت جن جرنیلوں کے خلاف ابھی انکوائری کھولی گئی ہے، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ یہ صرف اس لئے کھولی گئی ہے تاکہ عوام کی نظروں میں نیب کا امیج بہتر ہو سکے۔‘‘ سیاسی مبصر ڈاکڑ توصیف احمد خان مطیع اللہ جان کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ اس مسئلے پر ڈی ڈبلیو کو اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے کہا،’’کیا ایوب کا کوئی احتساب ہوا ؟ کیا جنرل یحیٰی خان ، جس نے ملک کے دو ٹکڑے کئے، اس کو کوئی احتساب ہوا۔ کیا جنرل ضیاء جس نے آئین توڑا، اس کا کوئی احتساب ہوا۔ تو اس ملک میں جنرلوں کا توکبھی بھی احتساب نہیں ہوا اور نہ ہی اس کا کوئی امکان ہے۔ تاہم سیاست دان ہمیشہ اس کا شکار رہے ہیں۔‘‘

لیکن پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے تجزیہ نگار اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں کہ جنرلوں کا احتساب نہیں ہوتا۔ معروف سیاسی مبصر جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے خیال میں در حقیقت اس ملک میں سیاست دانوں کا آج تک صحیح معنوں میں احتساب نہیں ہوا ہے،’’یہ بات صحیح ہے کہ سیاست دانوں کے نیب میں مقدمے ہیں لیکن مجھے آپ کسی ایک سیاست دان کا نام بتا دیں ، جسے سزا ہوئی ہو۔ لوگ آرمی کے احتساب کی بات کرتے ہیں۔ آرمی کا اپنا اندورنی احتساب کا نظام انتہائی مضبوط ہے اور وہاں افسران کا کڑا احتساب ہوتا ہے۔ جہاں تک اس پٹیشن کی بات ہے، اس میں لگائے گئے الزامات بالکل بے بنیاد ہیں۔ آرمی کے ہسپتالوں کو ادویات فراہم کرنے کا جو طریقہ اپنایا گیا ہے وہ بالکل میرٹ کی بنیاد پر ہے اور آپ کسی بھی آرمی ہسپتال میں چلے جائیں، وہاں آپ کو تما م ادویات ملیں گی اور یہ الزام بالکل غلط ہے کہ ان ادویات کا معیار بہتر نہیں ہیں یا یہ جعلی ہیں۔

فوجی ہسپتالوں کی اپنی لیبارٹریز ہیں، جہاں ادویات کو ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے الزامات بالکل بے بنیاد ہیں۔‘‘ ناقدین کا کہنا ہے کہ ماضی میں جنرل حمید گل، جنرل درانی، جنرل اسلم بیگ، جنرل جاوید اشرف قاضی سمیت کئی فوجی عہدیداروں کے نام مختلف مقدمات اور الزامات میں آئے لیکن ابھی تک ان کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہوئی۔ تاہم انعام الرحیم کا خیال ہے کہ اب عدالتوں کو جنرلوں کے خلاف کارروائی کرنی پڑے گی ورنہ ان کی غیر جانب داری پر بہت بڑا سوالیہ نشان آئے گا۔

بشکریہ DW اردو

سیاسی جماعتیں بلا امتیاز احتساب کےعزم سے کیوں پیچھے ہٹ گئیں

پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ نے 2015 میں ججوں اور جرنیلوں سمیت سب کو ملا کر احتساب کے حوالے سے رپورٹ کی منظوری دی تھی لیکن اب تقریباً تمام سیاسی جماعتیں، جنہوں نے پہلے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا، وہ ہمت ہار گئیں اور اب اس ایشو پر عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کرنے سے گریز کیا ہے۔ سینیٹ نے ستمبر 2015 میں متفقہ طورپر ایک کمیٹی رپورٹ کی توثیق کی تھی۔ جس میں نئے احتسابی نظام کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ جس میں ہر کسی کا بلا تخصیص احتساب ہو سکے۔ تاہم نیا احتسابی نظام تجویز کرنے کے لئے دونوں ایوانوں میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندہ ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی۔ آخر کار اس کمیٹی نے ججوں اور جرنیلوں کو نئے احتسابی نظام کے دائرہ کار میں لانے کے خیال کو ترک کر دیا۔ جس پر کمیٹی غور کرتی رہی۔

موجودہ پارلیمانی کمیٹی میں اکثر اس سے قبل بلا امتیاز احتساب کے نظام پر آمادہ تھے لیکن اب ملک کی تمام صف اول کی سیاسی جماعتیں ردعمل سے بچنے کے لئے اپنے مطالبے سے دستبردار ہو گئیں۔ ستمبر 2015 میں سینیٹ نے مجلس قائمہ برائے قانون و انصاف کی رپورٹ کی منظوری دی۔ سینیٹ کمیٹی نے موجودہ احتسابی نظام پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا اور یہ بات نوٹ کی گئی تھی کہ نیب جسے تحقیقات اور کرپشن کے خاتمے کی ذمہ داری تفویض کی گئی تھی، وہ ’’بلا امتیاز احتساب‘‘ کے اصول پر پوری نہیں اتر سکی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ نیب پراسیکیوشن کی شفافیت پر سوالات اٹھنے لگے۔

سینیٹ کمیٹی کی رپورٹ جو ایوان بالا نے متفقہ طورپر منظور کی تھی، اس میں زور دیا گیا کہ اکا دکا کیسز میں نیب کے تحقیقاتی طریقہ کار کو قومی ذرائع ابلاغ نے معیاری انسانی حقوق اقدار کی خلاف ورزی قرار دیا۔ یہ تاثرات درست کرنے کی ضرورت تھی تاکہ احتسابی عمل کو اعتبار اور شفافیت پر مبنی بنایا جائے۔ سینیٹر ایم جاوید عباسی کی سربراہی میں سینیٹرز راجا ظفر الحق، اعتزاز احسن، زاہد خان، فروغ نسیم، سعید غنی، بابر اعوان، فاروق ایچ نائیک اور دیگر پر مشتمل کمیٹی نے مذکورہ رپورٹ تیار کی تھی۔

وفاقی حکومتی محکموں میں کرپشن کا ایشو اٹھایا گیا تھا اور اسے مئی 2015 میں کمیٹی کے حوالے کیا گیا تھا۔ جس نے کئی اجلاس کے بعد اپنی رپورٹ ترتیب دی۔ جس کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں: نیب اور ایف آئی اے کے حدود کار ایک دوسرے سے متجاوز ہیں۔ نیب آرڈیننس 1999 اور نہ ہی ایف آئی اے ایکٹ 1974 میں ان کے مینڈیٹ اور دائرہ کار میں فرق کو واضح کیا گیا۔ لہٰذا ابہام دور کرنے کے لئے ان دونوں اداروں کے قوانین کا ترجیحی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے۔ دونوں اداروں کی مربوط کارکردگی کے لئے سہل طریقہ کار کو یقینی بنایا جا سکے۔ وفاقی سطح پر ایک انٹی کرپشن ادارہ بنایا جانا چاہئے جسے انتظامی امور اور مالی خود مختاری حاصل ہو۔

تمام کے لئے ایسا احتسابی نظام ہونا چاہئے جس میں احتسابی ادارے کو اعلیٰ ترین سطح کے سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے خلاف تحقیقات کی آزادی ہو۔ اس نظام کو اپنے اختیارات انسانی حقوق کی بین الاقوامی اقدار اور ریاست کے احتسابی قوانین کے مطابق استعمال کرنے چاہئے۔ نیب کسی حد تک اس معیار پر پورا نہیں اترا۔ نیب پراسیکیوشن کی شفافیت پر سوال اٹھتے رہے۔ احتسابی عمل کو اعتبار بخشنے کے لئے ان تاثرات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ مخبری اور رائٹ ٹو انفارمیشن پر مناسب دستور سازی کی ضرورت ہے تاکہ شفافیت اوراحتساب کے حوالے سے قوانین پر وسیع تر اتفاق رائے پیدا ہو۔ تمام وفاقی محکموں میں عام آدمی کی آسانی اور شفاف خدمات کی فراہمی کے لئے آئی ٹی بنیادں پر ون ونڈو آپریشن سسٹم قائم کیا جانا چاہئے۔

کرپشن کے خلاف عام آگہی کے لئے بڑے پیمانے پر میڈیا مہم چلائی جائے۔ سرکاری دستاویزات کو ضرورت سے زیادہ خفیہ رکھنے کے رجحان کا تدارک کرنے کے لئے فیصلے کئے جائیں اور پالیسی مرتب کی جائے۔ سرکاری محکموں کے لئے عوامی خدمات کی فراہمی کی خاطر وقت کی حد مقرر کئے جانے کا طریقہ کار متعارف کرایا جائے سرکاری اداروں کے اندر ہی نگراں یونٹ قائم کئے جائیں ۔کابینہ سیکرٹریٹ، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور فنانس ڈویژن کو ترغیبی بہتر کارکردگی اور پروفیشنل سول سروس کے لئے جامع سول سروس اصلاحات متعارف کرانی چاہئے۔

انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ