نجی یونیورسٹی کے سربراہ کی ہتھکڑی لگی لاش کا ذمہ دار کون؟

سوشل میڈیا پر ایک نجی یونیورسٹی کے سربراہ کی لاش کی ہتھکڑیاں لگی تصاویر وائرل ہونے کے بعد پنجاب حکومت اور قومی احتساب بیورو (نیب) کو سوشل میڈیا پر آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے جب کہ کئی سیاست دانوں نے بھی اس واقعے کی سخت مذمت کی ہے۔ سرگودھا یونیورسٹی کے لاہور کیمپس کے چیف ایگزیکٹو افسر میاں جاوید کو کچھ عرصہ قبل نیب نے حراست میں لیا تھا جس کے بعد انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر کیمپ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔ میاں جاوید کو پولیس کی حراست میں دل کا دورہ پڑا تھا جس پر انہیں ہتھکڑیاں باندھ کو لاہور کے ایک اسپتال لایا گیا تھا۔ ان کے انتقال کے بعد بھی ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں بندھی رہی تھیں جس کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھیں۔ ایک یونیورسٹی کے سربراہ کے ساتھ اس سلوک پر نیب اور پولیس کو سوشل میڈیا پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک صارف نے لکھا کہ “اگر آج فرعون زندہ ہوتا تو نیب لاہور کے ہاتھ پر بیعت کر لیتا۔”

سینئر صحافی سید طلعت حسین نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا، “احتساب کے نام پر وائس چانسلر کو قتل کرنے والوں کو شرم آنی چاہیے۔ اِس معاشرے کو بھی شرم آنی چاہیے جس میں توازن ختم ہو گیا ہے۔”

ایک اور سینئر صحافی حامد میر نے لکھا ہے کہ “یونیورسٹی کا پروفیسر گناہ گار تھا یا بے گناہ، پتا نہیں۔ لیکن کیمپ جیل لاہور میں مرنے کے بعد ہتھکڑی نہ کھولنا سنگ دلی ہے اور سنگدلی اللہ کو پسند نہیں۔”

تاہم بعض سوشل میڈیا صارفین نے اس عمل کا دفاع بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر کوئی عام ملزم پولیس کسٹڈی میں انتقال کرتا تو اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا۔
ملزم ملزم ھوتا ھے وہ چاہے میاں جاوید ھو یا میاں نواز ھو موت برحق ھے وہ جاوید کو آئی ھے تو مجھے بھی آنی ھے اور نواز شریف کو بھی آنی اور آپکو بھی آنی ھے اور اپنے وقت پر آنی ھے قوم کا سر اسوقت شرم سے جھکتا ھے جب بیگناہ افراد کے منہ میں بندوق رکھ کر گولی ماری جاتی ھے.

میاں جاوید کی ہلاکت پر سیاسی حلقوں نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سربراہ اور پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفٰی نواز کھوکھر نے اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ “یہ کیسا احتساب ہے جو سیاست دانوں اور اساتذہ سے آگے نہیں بڑھ رہا؟”

قومی احتساب بیورو لاہور کے ترجمان نے کیمپ جیل میں میاں جاوید کی موت پر جاری کردہ اعلامیے میں وضاحت کی ہے کہ احتساب عدالت نے میاں جاوید کو رواں برس اکتوبر میں ہی جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔ ترجمان کے بقول جب انہیں کیمپ جیل لاہور کے حکام کے حوالے کیا گیا تھا تو ملزم کو تحویل میں لیتے وقت ان کی صحت کے حوالے سے باقاعدہ تصدیق کی گئی تھی۔ نیب حکام کا کہنا ہے کہ سرگودھا یونیورسٹی لاہور کیمپس کے چیف ایگزیکٹو افسر میاں جاوید پروفیسر نہیں تھے بلکہ ایڈمن افسر تھے جن پر الزام تھا کہ انہوں نے سرگودھا یونیورسٹی کی منظوری کے بغیر لاہور میں غیر قانونی کیمپس کھولا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ ان کی سربراہی میں لاہور کیمپس کی انتظامیہ نے یونیورسٹی میں مطلوبہ تعداد سے زیادہ داخلے دیے اور طلبہ کے مبینہ جعلی رزلٹ کارڈز اور رجسٹریشن کارڈز جاری کیے۔

اطلاعات کے مطابق میاں جاوید کو دل کا دورہ پڑنے پر متعلقہ حکام کو آگاہ کیا گیا تھا لیکن جیل انتظامیہ کی جانب سے فوری ایکشن نہ لینے کے باعث میاں جاوید کی حالت غیر ہو گئی۔ بعد ازاں متعلقہ انتظامیہ نے میاں جاوید کو اسپتال منتقل کیا لیکن وہ راستے میں ہی دم توڑ گئے۔ سوشل میڈیا پر شور شرابے کے بعد پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار نے آئی جی جیل خانہ جات سے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ اسپتال انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ میاں جاوید کے انتقال کے بعد ان کے ورثا نے پولیس سے درخواست کی تھی کہ ان کی ہتھکڑیاں اتار دی جائیں.

لیکن لاہور پولیس کے اہلکاروں نے ہتھکڑیاں اتارنے سے انکار کر دیا اور مجسٹریٹ کے آنے کے بعد ہی میاں جاوید کے ہاتھوں سے ہتھکڑیاں اتاریں گئیں۔کچھ عرصہ قبل جامعۂ پنجاب کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران سمیت بعض دیگر اساتذہ کو نیب حکام نے ایک مقدمے میں ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا تھا جس پر خاصی لے دے ہوئی تھی۔ بعد ازاں ضمانت پر رہائی کے بعد ڈاکٹر مجاہد کامران نے دورانِ حراست نیب حکام کی جانب سے ناروا سلوک کی شکایت کی تھی اور نیب پر اپنی حراست میں موجود ملزمان پر نفسیاتی تشدد کرنے کا الزام بھی عائد کیا تھا۔

ضیاء الرحمن

بشکریہ وائس آف امریکہ

Leave a comment