سمارٹ فون : نقصانات سے بچنے کے طریقے

سمارٹ فون عام ہو چکا ہے۔ اگرچہ یہ چوکور سی شے اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ جیب میں آ جاتی ہے لیکن اس کی وجہ سے دوسروں سے گفتگو اور رابطہ کرنے کے طریقوں میں انقلابی تبدیلی آئی ہے۔ سمارٹ فون کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً اس سے دوستوں کے ساتھ تصویریں لی جا سکتا ہیں اور فیس بک کی وسیع ’’سیاحت‘‘ کی جا سکتی ہے۔ سننے اور پڑھنے میں آتا ہے کہ سمارٹ فون نے نئی نسل کو تباہ کر دیا یا سوشل میڈیا نے معاشرے کو تقسیم کر دیا ہے۔ لیکن اس بارے میں تحقیقات کیا کہتی ہیں؟ دراصل سمارٹ فون جیسی الیکٹرونک ڈیوائسز استعمال کرنے والوں میں ڈپریشن یا یاسیت اور برے موڈ کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

سمارٹ فون سے تعلقات میں خرابی پیدا ہو سکتی ہے۔ تو آپ سمارٹ فون سے کس طرح باہمی تعلقات کو خراب ہونے سے بچا سکتے ہیں؟ ذیل میں اس بارے میں کچھ مشورے دیے گئے ہیں جو آپ کے تعلقات کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ ۱۔ بالمشافہ ملاقات: سمارٹ فون کے آنے کے بعد ہمارے الیکٹرونک رابطے بڑھ گئے ہیں۔ ہمارے پاس وقت محدود ہوتا ہے۔ اس لیے سمارٹ فون کی مصروفیت کی وجہ سے دوسروں کے لیے وقت نہیں نکل پاتا۔ اس سے ہماری زندگی پر منفی اثرات ہوتے ہیں۔ کیسے؟ ایک تحقیق کے مطابق ذہنی و جسمانی صحت کے لیے سب سے اچھی شے مضبوط سماجی یا باہمی رشتوں کا قیام ہے۔ اور ایسے رشتے روبرو ملاقات سے قائم ہوتے ہیں۔

بالمشافہ تعامل سے آپ کا موڈ بہتر ہوتا ہے اور ڈپریشن میں کمی آتی ہے۔ ویسے ہی جیسے دوسری سرگرمیاں جیسا کہ مذہبی عبادت گاہ جانا، ورزش کرنا یا کھیلنا ہماری ذہنی صحت کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ ان کے بغیر ہماری ذہنی صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔ سمارٹ فون کی وجہ سے بامعنی تعلق اور تعامل نہیں ہو پاتا۔ ہم دوستوں سے براہ راست ان کا حال احوال پوچھنے کی بجائے ان کے فیس بک پیجز دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم دوستوں کے ساتھ کسی تھیٹر یا سینما میں جانے کی بجائے انٹرنیٹ پر ڈرامے اور فلمیں دیکھتے ہیں۔ لیکن ذہنی صحت کے لیے لازمی ہے کہ جب بھی موقع ملے ہم اکٹھے ہوں۔

۲۔ دوسروں کے ساتھ : اگر آپ کچھ دوستوں کے ساتھ ہیں اور وہ سمارٹ فون استعمال کر رہے ہیں تو باہمی گفتگو کا معیار گر جائے گا۔ آپ نے خود بھی اس کا اندازہ لگایا ہو گا۔ اس سے گفتگو کا ربط بھی ٹوٹ جاتا ہے اور آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی بات کو سنا نہیں جا رہا۔ زیادہ تر لوگوں کا ماننا ہے کہ کسی محفل میں سمارٹ فون کو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ ایک تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ 82 فیصد افراد کے خیال میں کسی محفل میں سمارٹ فون باہمی گفتگو کو متاثر کرتا ہے۔ بہرحال یہ جانتے ہوئے بھی ہم اپنے سمارٹ فون کو استعمال کرتے رہتے ہیں۔ امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق 89 فیصد شرکا نے کہا کہ انہوں نے جس حالیہ محفل میں شرکت کی تھی اس میں وہ سمارٹ فون استعمال کرتے رہے۔

جب ہم سماجی میل جول کے دوران سمارٹ فون استعمال کرتے ہیں تو اس سے ہماری اپنی شمولیت بھی متاثر ہوتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ باہر دوستوں کے ساتھ رات کے کھانے پر سمارٹ فون استعمال کرتے ہیں وہ دوسروں کی نسبت کم انجوائے کرتے ہیں اور زیادہ بور ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم نے جان بوجھ کر اس حقیقت پر آنکھیں بند کر لی ہیں۔ پس جب کسی محفل میں آپ جیب سے سمارٹ فون نکالنے لگیں تو یہ ضرور سوچیں کہ جب دوسرا ایسا کرنے لگتا ہے تو آپ کے احساسات کیا ہوتے ہیں۔ ۳۔ نظروں سے اوجھل: بعض اوقات سمارٹ فون کے استعمال سے محض احتراز کافی نہیں ہوتا۔ ایک تحقیق کے مطابق سمارٹ فون سے توجہ تقسیم ہوتی ہے۔

نصف سے زائد امریکیوں کا خیال ہے کہ سمارٹ فون کی وجہ سے دوسروں کی جانب ان کی توجہ بٹ جاتی ہے۔ بعض تحقیقات کے مطابق سمارٹ فون کی میز پر موجودگی تک بامعنی گفتگو مشکل بنا دیتی ہے۔ تصور کریں کہ آپ کسی سے دل کی بات کہہ رہے ہیں، وہ سن یا سمجھ نہیں رہا یا پھر جواب نہیں دے رہا اور اس کی نظریں وقتاً فوقتاً اپنے فون پر پڑتی ہیں جو ساتھ ہی پڑا ہے۔ دوسروں کے ساتھ بھروسے اور یقین کا رشتہ استوار کرنے کے لیے توجہ سے سننا کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اگر ہم ایسا نہیں کر تے تو ہم اپنے تعلقات کو خراب کرتے ہیں۔ اگلی بار دوسروں سے بامعنی گفتگو کرتے وقت اس امر کا خیال رکھیں۔ ۴۔ اجنبیوں سے بات: بہت سی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ اجنبیوں سے گفتگو، مثلاً کسی دکاندار، رکشے والے یا کیشیئر سے ہلکی پھلکی بات چیت ہمیں سماجی طور پر جڑے ہوئے ہونے کا احساس دلاتی ہے۔

لیکن سمارٹ فون اس پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟ جی ہاں جب ہم اپنے سمارٹ فون میں مصروف ہوتے ہیں یا جب اس پر انحصار کرتے ہیں، تو ایسا ہوتا ہے۔ مثلاً ہم اجنبی لوگوں سے راستہ پوچھتے ہیں۔ لیکن ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگر ہاتھ میں سمارٹ فون ہو تو لوگ دوسروں سے راستہ پوچھنے کی بجائے سمارٹ فون کی مدد سے راستہ تلاش کرتے ہیں۔ ان جانے لوگوں سے کسی قسم کا تعلق ختم کر دینے سے بیگانگی جنم لیتی ہے اور یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ وہ معاشرے سے کٹے ہوئے ہیں۔ عموماً کہا جاتا ہے کہ اجنبیوں سے بات مت کرو۔ ان سے بات کرتے ہوئے ہچکچاہٹ بھی ہوتی ہے۔ لیکن متعدد بار صورت حال ایسی ہوتی ہے جس میں دوسرے انسانوں سے گفتگو کرنی چاہیے اور ایسا کرنا ہمارے اور دوسرے پر خوش کن اثر ڈالتا ہے۔ ۵۔ بامقصد آن لائن : ہمارا خیال ہے، یا ہمیں بتایا گیا ہے کہ فیس بک اور ٹویٹر جیسے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ایک دوسرے کو جوڑتے ہیں۔

لیکن معلوم یہ ہوا ہے کہ سماجی رابطوں کے لیے سمارٹ فون جیسے الیکٹرونک آلات کا استعمال اتنا بھی اچھا نہیں۔ ہمارے موڈ اور احسات پر آن لائن گفتگو کا اثر متعدد بار ایسا ہوتا ہے جیسے ہم نے بات ہی نہ کی ہو۔ دوسرے الفاظ میں یہ بے معنی سا ہوتا ہے۔ تعلق قائم کرنا انسانی فطرت ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا یا آئن لائن ہو کر ادھر ادھر لوگوں کو ٹٹولتے رہنے سے بہتر ہے کہ اپنے دوست یا جاننے والے سے بھرپور چیٹ کر لی جائے۔ اس سے احساس زیاں نہیں ہوتا۔ ۶۔ حالِ دل : اگرچہ زیادہ تر تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ آپ کو الیکٹرونک آلات کی بجائے آمنے سامنے گفتگو کو ترجیح دینی چاہیے، لیکن ہر وقت ایسا ممکن نہیں ہوتا۔

جب والدین کسی کام سے سفر کر رہے ہوں یا کوئی قریبی دوست کسی دوسرے شہر چلا گیا ہو، تو آپ کیا کریں گے؟ انہیں افراد کو آپ حال دل سناتے ہیں۔ اس صورت میں سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ بآسانی ہو سکتا ہے۔ تعلقات کی برقراری کے لیے اسے استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں رابطہ یا تعلق منقطع ہو سکتا ہے۔ پس سمارٹ فون اور اس میں موجود اپلی کیشنز ترک کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ ہمارے تعلقات پر اثرانداز نہ ہو سکے۔

ترجمہ و تلخیص: رضوان عطا

قانون نہیں کرتوت کالے ہیں

قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ فرماتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 62-63 کالا قانون ہے جبکہ حقیقت میں آرٹیکل 62-63 کالا قانون نہیں بلکہ کالے تو وہ کرتوت ہیں جن کی درستگی کی بجائے ہمارے سیاستدان اور پارلیمنٹیرین اُنہیں نہ صرف برقرار رکھنا چاہتے ہیں بلکہ اُن کا آئینی و قانونی تحفظ بھی چاہتے ہیں تاکہ وہ لوٹیں کھسوٹیں، کیسی ہی بد کرداری کریں، جھوٹ بولیں، فراڈ کریں اُنہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ ساری دنیا میں حکمرانوں کے لیے سچا اور ایماندار ہونا لازم شرط ہوتی ہے لیکن ہمارا آئین اگر یہ شرط لگائے تو اس سے خورشید شاہ ، اُن کی پارٹی اور دوسرے کئی سیاستدانوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔

بجائے اس کے کہ کوشش کریں کہ کس طرح سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ خود آرٹیکل 62-63 کے نفاذ کو یقینی بنائیں تاکہ معاشرہ کے بہترین اور اچھے کردار کے مالک افراد ہی پارلیمنٹ اور ایوان اقتدار میں داخل ہو سکیں۔ لیکن اگر ایسا ہو گیا تو خورشید شاہ کی جماعت سمیت دوسری اور کئی سیاسی پارٹیاں اپنے اکثر رہنمائوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی۔ اپنی خرابیوں اور نااہلیوں پر پردہ ڈالنے اور ان آئینی شرائط کو ختم کرنے کے لیے بہانہ مرحوم ضیاء الحق کا استعمال کیا جاتا ہے کہ چونکہ یہ آرٹیکل جنرل ضیاء نے آئین میں شامل کیے تھے اس لیے ان کو نکالا جانا چاہیے۔ ورنہ یہ آرٹیکل جو شرائط لاگو کرتے ہیں اُن پر اگر عمل درآمد ہو تو صرف وہی لوگ الیکشن لڑ سکتے ہیں جو اپنے کردار کے لحاظ سے بہترین ہوں۔

آرٹیکل 62-63 کی جن شرائط سے سیاستدانوں میں بہت سوں کو بہت تکلیف ہے وہ کیا کہتے ہیں زرا سن لیجیے:

آرٹیکل 62 (1) کوئی شخص پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے یا چنے جانے کا اہل نہیں ہو گا اگر ……’’(d) وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور ہو۔ (e) وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم نہ رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو۔ (f) وہ سمجھدار پارسا نہ ہو اور فاسق ہو اور ایماندار اور امین نہ ہو، عدالت نے اس کے برعکس قرار نہ دیا ہو۔ (g) اس نے قیام پاکستان کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام کیا ہو یا نظریہ پاکستان کی مخالفت کی ہو۔‘‘

درج بالا شرائط میں کوئی ایک خرابی تو بتائیں۔ ان شرائط کے مطابق تو صرف وہی رکن اسمبلی بننے کا اہل ہو سکتا ہے جو اچھے کردار کا مالک اور احکام اسلام کے انحراف میں مشہور نہ ہو، اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو اور کبیرہ گناہوں یعنی شراب نوشی، زنا، سود وغیرہ سے اجتناب کرتا ہو، فاسق نہ ہو، ایماندار ہو، سچا ہو اور اسلامی نظریہ پاکستان کا مخالف نہ ہو۔ اگر ان شرائط پر عمل کیا جائے تو ہماری پارلیمنٹ اور ایوان اقتدار میں کوئی چور ڈاکو، شرابی، زانی، جھوٹا فراڈیا داخل نہیں ہو سکتا۔

مسئلہ نیت کا ہے۔ جب نیت ہی خراب ہو اور سیاسی جماعتیں یہ چاہتی ہی نہ ہوں کہ حق حکمرانی صرف اور صرف اپنے کردار کے لحاظ سے بہترین لوگوں کو ہی حاصل ہے، تو پھر ان آئینی شرائط کی مخالفت تو ہو گی۔ مخالفت نہ کی تو اپنی سیاست ہی ختم ہو جائے گی۔ اسی لیے باوجود اس کے کہ آرٹیکل 62-63 کو آئین میں شامل ہوئے 30 سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا لیکن ان آئینی شرائط پر عمل درآمد کرنے کے لیے آج تک نہ کوئی طریقہ وضع کیا گیا اور نہ ہی ان آئینی شقوں پرعمل درآمد کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی۔

ماضی قریب میں سپریم کورٹ میں کچھ پٹیشنزکے نتیجے میں میاں نواز شریف، جہانگیر ترین اور خواجہ آصف کو آرٹیکل 62 (1) (f) کے تحت زندگی بھر کے لیے نا اہل قرار دیا جس کے بعد پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ ن لیگ نے بھی آرٹیکل 62-63 کو ہی بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ حلانکہ خرابی آئین میں نہیں بلکہ کمی اس بات میں ہے کہ پارلیمنٹ نے آج تک ان آئینی شقوں کے اطلاق کے لیے کوئی طریقہ کار ہی طے نہیں کیا اور نہ ہی آرٹیکل 62 (1)(f) کے تحت غلطی یا جرم کی سنگینی کے لحاظ سے یہ وضاحت کی کہ کس نوعیت کے جرم پر کتنی مدت کے لیے نا اہلی ہو گی۔ پیپلز پارٹی تو ان شقوں سے کبھی خوش نہ تھی اب ن لیگ بھی ان کے خاتمہ کی باتیں کر رہی ہے۔ ہو سکتا ہے میاں نواز شریف کہیں یہ نہ کہہ دیں کہ ان شقوں کو اٹھارویں ترمیم کے ذریعے نہ نکالنا اُن کی غلطی تھی۔ لیکن اگر کوئی سوچے اور سمجھے تو غلطی دراصل ان شقوں کو نکالنا ہو گا جبکہ ان پر سنجیدگی سے ایک طریقہ کار کے ذریعے عمل کرنے سے سیاست گندگی سے پاک ہو گی۔

انصار عباسی