اینٹی بایوٹک ادویہ کے استعمال میں پاکستان تیسرے نمبر پر

پاکستان میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ڈاکٹر بیماریوں سے نمٹنے کے لیے نہ صرف بے پروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ امراض کی تشخیص کیے بغیر ہی ایسے ڈاکٹری نسخے تجویز کر دیتے ہیں۔ عالمی ماہرین ادویات و صحت نے عالمی سطح پر اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال کے رجحان کے بارے میں حال ہی میں شائع ہونے والی اہم تحقیق میں کہا ہے کہ عالمی سطح پر اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں سن 2000 اور 2015 کے درمیانی عرصے میں 65 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ پیش رفت لوگوں کی صحت پر منفی اثرات کے حوالے سے انتہائی تشویش ناک ہے۔

دنیا کے 70 سے زائد ممالک میں ہونے والی اس نئی تحقیق میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں اضافے کے حوالے سے پاکستان کو چین اور بھارت کے بعد تیسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ امریکہ کی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی اس نئی تحقیق میں محققین نے خبردار کیا ہے کہ ان ادویات کے غیر محتاط استعمال میں اضافے سے بیماریوں کے خلاف ان ادویات کا اثر کم ہو رہا ہے جبکہ پاکستان میں مختلف بیماریوں کے خلاف اینٹی بائیوٹک ادویات غیر مؤثر ہو رہی ہیں۔ یہ تحقیق حال ہی میں امریکہ کی اکیڈمی آف سائنسز کے پروسیڈنگس میں شائع ہوئی ہے۔

عالمی سطح پر اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں اس تشویش ناک حد تک اضافے کی وجہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، مراکش، فلپائن، ویتنام، مصر اور تیونس سمیت کم آمدنی والے ممالک میں ان ادویات کے استعمال میں تیز رفتار اور غیر محتاط طریقے سے ہونے والا اضافہ ہے۔ اس تحقیق پر کام کرنے والے ماہرینِ صحت نے کہا ہے کہ سن 2000 سے 2015 کے درمیان پاکستان میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں 65 فیصد تک کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ تحقیق کے مطابق سن 2000 میں اینٹی بائیوٹک ادویات کا سالانہ استعمال 80 کروڑ تھا، جو اب بڑھ کر 130 کروڑ سالانہ تک پہنچ چکا ہے۔ اس تحقیق پر کام کرنے والے سات محققین کی ایک ٹیم کی سربراہی جانس ہاپکنس سکول آف میڈیسنز کے اسسٹنٹ پروفیسر ایلی وائی کلائین نے کی ہے۔

ای میل کے ذریعے بھیجے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) کو بتایا ‘‘تیسری دنیا کے ممالک، خاص کر پاکستان اور بھارت میں ڈاکٹروں کی جانب سے امراض کی تشخیص کیے بغیر مریض کو ادویات تجویز کر دی جاتی ہیں، ڈاکٹروں کی جانب سے بیماریوں سے نمٹنے میں بے پروائی کا مظاہرہ کرنا، پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی، نکاسی آب کی بہتر سہولیات میں کمی اور بے ہنگم اربنائیزیشن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ملیریا، ڈینگی ملیریا، دست، خسرہ، ہیپاٹائٹس، آنتوں، پیٹ، سانس، جلد اور خون کی مختلف بیماریاں اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں تشویش ناک اضافے کی اہم وجوہات ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جیسے جیسے مریض ان اینٹی بائیوٹک ادویات کا استعمال کرتا جاتا ہے، یہ ادویات غیر مؤثر ہوتی جاتی ہیں، ‘‘اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ماہرین مریضوں کو مزید اینٹی بائیوٹک ادویات کے نسخے تجویز کرتے رہتے ہیں، جس سے ملکی سطح پر ان ادویات کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔’’ انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ مریض کی جانب سے اینٹی بائیوٹک ادویات کا ڈاکٹری نسخوں کے بغیر استعمال بھی ان کے استعمال میں اضافے کی ایک اہم وجہ ہے۔

پاکستان جیسے دیگر ایشیائی ممالک میں اینٹی بائیوٹک ادویات کو ڈاکٹر کی اجازت کے بغیر بھی خریدا جا سکتا ہے۔ اس تحقیق پر کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اینٹی بائیوٹک کے استعمال میں مسلسل اضافے پر قابو پانے کے لیے ان بیماریوں کے اسباب پر قابو پانا ناگزیر ہے اور اس کے لیے پینے کے صاف پانی اور نکاسی آب کے انفر اسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے مالی و تکنیکی اقدامات  کرنے ہوں گے۔ تحقیقی ٹیم کے سربراہ اسسٹنٹ پروفیسر ایلی وائی کلائین نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، غیر پائیدار اور بے ہنگم اربنائیزیشن کو ماحول دوست بنا کر صحت کی مختلف وبائی و غیر وبائی بیماریوں سے لوگوں کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے ان بیماریوں کے خلاف لوگوں میں استعمال ہونے والی اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں بڑی حد تک کمی کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے صحت پر کام کرنے والے ذیلی ادارے ڈبلیو ایچ او کے جنیوا میں واقع سربراہ دفتر میں اینٹی بائیوٹک ادویات کی مختلف بیماریوں کے خلاف مزاحمتی اثرات پر تحقیق کرنے کے حوالے سے قائم اہم شعبے میں ڈاکٹر سارہ    پاؤلن ٹیکنیکل افسر ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اقوامِ متحدہ کے عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) اور ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) اور ایک بین الاقوامی تنظیم برائے اینیمل ہیلتھ کے ساتھ مل کر ایک اہم فریم ورک کی تیاری کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس سے اینٹی بائیوٹک ادویات کے بیماریوں کے خلاف غیر مؤثر ہونے والے عمل پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مستقبل قریب میں عالمی سطح پر روشناس ہونے والے اس عالمی فریم ورک برائے اینٹی بائیوٹک ریز سٹنٹ کا خاص مقصد ان ادویات کے اثر کو برقرار رکھنا ہے۔

ایک ای میل کے جواب میں ورلڈ ہیلتھ آرگنا ئزیشن کی ٹیکنیکل افسر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، پاکستان، بھارت، فلپائن، تھائی لینڈ، ویتنام اور انڈونیشا سمیت مختلف نچلی اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو اینٹی بائیوٹک ادویات کے تجویز کردہ ڈاکٹری نسخوں کے عمل کو قانون سازی کے ذریعے درست کرنا ہو گا۔ امراض کے اسباب، خاص کر صاف پانی اور صفائی کی بہتر سہولیات کی فراہمی کے لیے لازمی اقدامات کر نے ہوں گے۔ اس کے علاوہ اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال اور ان کے منفی اثرات کے حوالے سے بڑے پیمانے پر عوامی آگاہی پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

بشکریہ DW اردو

Leave a comment