پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدم پیشی پر اٹارنی جنرل پر جرمانہ

پاکستان کے چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو عدالت میں پیش نہ ہونے پر اُن پر 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ یہ جرمانہ اپنی جیب سے ادا کریں گے۔ ملکی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ عدالت میں پیش نہ ہونے پر اٹارنی جنرل کے عہدے پر تعینات کسی شخص کو جرمانہ کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے متعدد وکلا کو عدم پیشی پر جرمانے کیے گئے ہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ارکان پارلیمان کی ہونے والی نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔

بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل  نے عدالت میں اٹارنی جنرل کے تحریر کردہ دلائل پیش کیے جس پر بینچ کے سربراہ نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کہاں ہیں۔ وقار رانا نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل اس وقت لاہور میں ہیں اس لیے وہ عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔ عدالت نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اُنھیں دس ہزار روپے کا جرمانہ کر دیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی طرف سے اپنے فیصلے میں نظرثانی کی درخواست پر چیف جسٹس نے اپنا یہ حکم واپس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل کو شام چار بجے تک عدالت میں پیش ہوکر دلائل دینے کا حکم دیا۔ مقررہ وقت پر بھی اشتر اوصاف سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے پیش نہ ہوئے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اشتر اوصاف لاہور میں مصروفیت کی وجہ سے عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے چیف جسٹس نے اس پر اٹارنی جنرل پر 20 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کر دیا اور کہا کہ وہ یہ جرمانہ اپنی جیب سے ادا کریں گے۔ بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اگر اٹارنی جنرل آئندہ سماعت پر دلائل نہیں دیں گے تو پھر عدالت اپنے فیصلے میں لکھ دے گی کہ اٹارنی جنرل نے اس معاملے میں عدالت کی کوئی معاونت نہیں کی۔ عدالت پہلے ہی یہ واضح کر چکی ہے کہ اٹارنی جنرل کے دلائل کے بعد کسی اور کو نہیں سنا جائے گا۔

اسلام کو امریکا و یورپ کی پسند کے مطابق ڈھالنے کی کوششیں

اب تو اسلام کی وہ شکل دیئے جانے کی کوششیں ہو رہی ہیں جو امریکا و یورپ کو پسند ہو۔ اس کے لیے اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ایسے ’’اسلامی اسکالرز‘‘ کو بھی آگے لایا جا رہا ہے جو روشن خیال ہوں، لبرل ہوں۔ ہمارے ہاں بھی چند ایک ایسے ’’اسلامی اسکالرز‘‘ موجود ہیں جو عورت کے پردے کو نہیں مانتے، جنہیں پاکستان کے آئین کی اسلامی دفعات بلخصوص قرارداد مقاصد پر اعتراضات ہیں، جو مغرب زدہ لبرلز اور سیکولرز کے پسندیدہ ہیں اور جنہیں فحاشی و عریانیت پھیلانے والے ہمارے چینلز بہت پسند کرتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے سرعام پھانسی دیئے جانے کے مسئلہ پر میٹنگ کے بعد جو پریس ریلیز جاری ہوئی وہ کافی confusing تھی۔ مجھے پڑھ کر محسوس ایسا ہوا جیسے اس پریس ریلیز کو جاری کرنے کا مقصد مغرب، مغرب زدہ این جی اوز اور پاکستان کی روشن خیال سوسائٹی اور میڈٖیا کو خوش کرنا تھا۔ اگرچہ اصل مسئلہ (سرعام پھانسی) پر پریس ریلیز خاموش تھی لیکن اُس میں یہ بیان کیا گیا کہ سزائوں کی شدت اور سنگینی کی بجائے سزا کی یقینیت کا اہتمام ہونا چاہیے۔ یہ پڑھ کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا سزائوں کی شدت سے کیا مراد اور پھر یہ بات پریس ریلیز میں بیان کرنے کی کیوں ضرورت محسوس ہوئی۔

میں نے کونسل کے کچھ اراکین سے بات کی جو خود حیران تھے کہ یہ کیا ہو گیا کیوں کہ سب کو معلو م ہے کہ اسلامی سزائوں کے بارے میں مغرب اور مغرب زدہ طبقہ کیا کہتا ہے۔ دوسری دن چند اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ کونسل نے سرعام پھانسی کی مخالفت کر دی۔ لیکن جب میری چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل سے بات ہوئی تو انہوں نے ان خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے بتایا کہ کونسل کو تو سینیٹ کی طرف سے صرف یہ پوچھا گیا تھا کہ کیا سرعام پھانسی دینے کے لیے موجودہ قوانین میں تبدیلی کی ضرورت ہے جس پر کونسل کا جواب یہ ہے کہ موجودہ قوانین کے مطابق سر عام پھانسی دی جا سکتی ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہاں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ سپریم کورٹ کا ایک پرانا فیصلہ ہے جس میں سرعام پھانسی پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ میں نے چیئرمین صاحب سے کونسل کی متنازع پریس ریلیز پر بھی بات کی اور امید ظاہر کی کہ اسلامی نظریاتی کونسل صرف اور صرف اسلام کی بات کرے گی۔ مجھے چیئرمین صاحب نے اس بات کا بھی یقین دلایا کہ اُن کی طرف سے جو جواب سینیٹ کو جائے گا وہ بلکہ واضع اور صاف ہو گا۔

انصار عباسی