بہت قربانیاں دیں، مزید کسی کے لیے کچھ نہیں کر سکتے

پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ ملک میں دہشت گرد تنظیموں کے نیٹ ورک کو تباہ کر دیا گیا ہے اور اس حوالے سے امریکی اور افغان عہدیداروں کے الزامات میں صداقت نہیں ہے۔ اُنھوں نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ حال ہی دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے حوالے سے امریکہ کی طرف سے ’’دھمکی آمیز‘‘ بیان بھی سامنے آیا ہے۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاکستان نے بہت قربانیاں دی ہیں ’’ہم نے کافی کیا ہے اور ہم کسی کے لیے مزید کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘ اُن کا کہنا تھا کہ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور پاکستانی وزارت خارجہ اپنے ملک کا موقف امریکہ کے سامنے رکھ چکے ہیں۔

فوج کے ترجمان نے کہا کہ 2014 میں آپریشن ضرب عضب کے آغاز سے قبل حقانی نیٹ ورک کی موجودگی سے متعلق الزامات لگائے جا سکتے تھے لیکن شمالی وزیرستان میں آپریشن کے بعد تمام دہشت گردوں بشمول حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی گئی۔ فوج کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان امریکہ سے محاذ آرائی نہیں چاہتا لیکن اُنھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ملک کے مفادات مقدم ہیں جن کا دفاع کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ رواں ماہ افغانستان کے اپنے غیر اعلانیہ دورے کے موقع پر امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس نے بگرام کے ہوائی اڈے پر امریکی فوجیوں سے خطاب میں متنبہ کیا تھا کہ اگر پاکستان نے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کی پشت پناہی جاری رکھی تو وہ بہت کچھ کھو دے گا۔

پاکستانی وزارت خارجہ نے امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اتحادی ایک دوسرے کو تنبیہ یا نوٹس جاری نہیں کرتے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے نئی سیکیورٹی پالیسی میں بھی پاکستان سے کہا گیا تھا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کردار ادا کرے۔
اسلام آباد کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کے ساتھ طویل المدت تعلقات کے لیے مشترکہ راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور وزیر دفاع جم میٹس بھی پاکستان کے دورے کر چکے ہیں۔

محمد اشتیاق

پاکستان اسٹیل مل بحران کا حل کیا ہے ؟

پاکستان اسٹیل مل ایک قومی اثاثہ ہے جس کے قیام کیلئے 18 سال تک منصوبہ بندی کرنے کے بعد 1973ء میں اس پر کام شروع ہوا اور 1985ء میں اس نے پیداوار شروع کی۔ 2008 تک مل 28 ارب روپے کے منافع پر چل رہی تھی۔ 2006 میں شوکت عزیز کی حکومت نے اس کی پرائیویٹائزیشن کا فیصلہ کیا جس کی ملک بھر میں مخالفت ہوئی اور سپریم کورٹ نے یہ نجکاری روک دی لیکن مل خسارے کی طرف بڑھنے لگی۔ 2011 میں اسے وفاقی حکومت کی پرائیویٹ کمپنی سے نکال کر براہ راست سرکاری ملکیت میں لے لیا گیا۔ 2012 میں یوکرین نے اس کی بحالی کی پیشکش کی لیکن عدم توجہی سے حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ اس کی پیداوار نہ ہونے سے حکومت کو صرف ڈیڑھ سال کے عرصہ میں دو ارب ڈالر کا زرمبادلہ خرچ کر کے اسٹیل مصنوعات درآمد کرنا پڑیں۔

اسٹیل مل کی بحالی کیلئے اب تک کئی چیئرمین بھی تبدیل کئے گئے لیکن ہزار کوششوں کے باوجود یہ اپنے پیروں پر پھر سے کھڑی نہ ہو سکی۔ جس کے پیش نظر نیب نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ اسٹیل مل کی یہ بربادی کسی سازش کا نتیجہ تو نہیں یہ ایک بہتر سوچ بچار ہے۔ نیب نے مل کی بربادی ، قوم کے اربوں روپے کا ضیاع اور حکومت کی عدم توجہی کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام ذمہ داروں کا تعین کرنے کیلئے مکمل اور جامع انکوائری کا مستحسن فیصلہ کیا ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار نے بھی اس ضمن میں نوٹس لیتے ہوئے نیب کو کارروائی کی سفارش کر رکھی ہے اور اس انکوائری سے پہلے ماضی اور حال کے تمام ذمہ دار افسران کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا فیصلہ بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اسٹیل مل کو بنے 32 سال کا عرصہ ہو گیا ہے اس وقت سے اب تک ملک کی ضروریات کئی گنا بڑھ چکی ہیں اس لحاظ سے وطن عزیزمیں ایسی کئی ملیں موجود ہونا چاہئے تھیں۔ نیب نے اسٹیل مل کے حوالے سے تحقیقات کا جو بیڑہ اٹھایا ہے اسے جلد از جلد مکمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پتا چل سکے کہ قومی ادارے خسارے میں کیوں جا رہے ہیں اور ان کی بحالی کیونکر ممکن ہے ۔

اداریہ روزنامہ جنگ

پاکستان کی سلامتی کو خطرات کا معاملہ، کیا جنگ کا خدشہ ہے؟

سیاسی سازشی نظریات کی گونج کے ساتھ اب پاکستان میں یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ ملک کی سلامتی کو سنگین خطرات لا حق ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں ذرائع ابلاغ کے ایک حصے نے آج یہ دعویٰ کیا کہ ناصر جنجوعہ نے نواز شریف کو بتایا کہ ملکی سلامتی کو امریکہ اور بھارت کی طرف سے خطرہ ہے۔ روزنامہ ایکسپریس نے دعویٰ کیا کہ نواز شریف کو بتایا گیا ہے کہ اگلے چند ماہ پاکستان کے لئے اہم ہیں، جن میں پاکستان پر حملہ بھی ہو سکتا ہے۔  ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل غفور نے ایک بریفنگ کے دوران امریکی دھمکیوں کا تذکرہ کیا.

تجزیہ نگاروں کے خیال میں پاکستان کو خطرات لاحق ہیں۔ تاہم کسی جارحیت کا امکان نہیں۔ ان خطرات کے حوالے سے معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل (ریٹائرڈ) امجد شعیب نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تھا تو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کو بہانہ بنایا اور جھوٹ کی بنیاد پر اس عرب ملک پر حملہ کیا، اب امریکہ کی طرف سے پاکستان پر یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ یہاں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔‘‘ ایسا بھی تاثر ہے کہ بلوچستان کی سکیورٹی کو مزید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں.

جنرل (ریٹائرڈ) امجد شعیب مزید کہتے ہیں، ’’ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ، وزیر خارجہ ٹلرسن، امریکی وزیرِ دفاع جیمس میٹس اور افغانستان میں متعین جنرلز بھی پاکستان کو دھمکیاں دے رہے ہیں، ان بیانات سے خطرات تو پیدا ہوئے ہیں لیکن پاکستان پر کسی جارحیت کا امکان نہیں۔‘‘ امجد شعیب کا خیال ہے کہ سی پیک کے خلاف کام کیا جائے گا اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی مدد کر کے گوادر میں مسائل کھڑے کئے جائیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس مقصد کے لئے بھارت سرگرم ہے اور سی پیک کو نقصان پہنچانے کا مطلب ہو گا کہ پاکستان کی معیشت کو زبردست نقصان ہو۔

کراچی یونورسٹی کے شعبہٴ بین الاقوامی تعلقات کی سابق چیئر پرسن ڈاکڑ طلعت اے وزارت کے خیال میں یہ ممکن ہے کہ امریکہ اور بھارت ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے ذریعے ملک میں گڑ بڑ کرائیں۔ اُن کا کہنا ہے، ’’میرے خیال میں امریکہ کو پہلے ہی بہت سارے چیلنجوں کا سامنا ہے جیسے کہ شمالی کوریا اور ایران، تو کوئی جنگ تو نہیں ہو سکتی۔ تاہم معاشی عوامل کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘

تاہم سیاسی مبصر حسن عسکری کے خیا ل میں ٹرمپ شور زیادہ مچاتے ہیں لیکن کام کم کرتے ہیں،’’ میرا نہیں خیال کہ امریکہ کوئی حملہ کرے گا یا کوئی جنگ ہوگی ۔ ٹرمپ نے شمالی کوریا اور ایران کے حوالے سے بھی بہت شور کیا تھا لیکن ابھی تک کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا۔ امریکہ زیادہ سے زیادہ ڈرون حملوں کی تعداد بڑھا سکتا ہے۔‘‘ عسکری کے مطابق اگر اس نے پنجاب یا کہیں اور کوئی حملہ کیا تو پاکستان نیٹو کی سپلائی بند کر سکتا ہے۔

بشکریہ DW اردو