The Kalash People of Pakistan

کیلاش کوہ ہندوکش میں واقع ایک قبیلہ ہے جو کہ صوبہ خیبر پختون خواہ ضلع چترال میں آباد ہے۔ یہ قبیلہ کیلاش زبان بولتا ہے جو دری زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ زبان اس خطہ میں نہایت جداگانہ مشہور ہے۔ **** وجہ تسمیہ: لسانیات کے ماہر رچرڈ سٹرانڈ کے مطابق ضلع چترال میں آباد قبائل نے یہ نام قدیم کافرستان سے مستعار لیا ہے۔ کالاشہ یا کالاش قبائل نے وقت کے ساتھ چترال میں اپنا اثررسوخ بڑھایا۔ ایک حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کیلاش نام دراصل ‘‘کاسوو‘‘ جو کہ بعد میں ‘‘کاسیو‘‘ استعمال ہوتا تھا۔ یہ نام نورستان کے قبائل نے یہاں آباد قبائل کے لیے مخصوص کر رکھا تھا۔ بعد کے ادوار میں یہ کاسیو نام کالاسایو بنا اور رفتہ رفتہ کالاسہ اور پھر کالاشہ اور اب کیلاش بن گیا۔ ***** ثقافت: کیلاش قبائل کی ثقافت یہاں آباد قبائل میں سب سے جداگانہ خصوصیات کی حامل ہے۔ یہ قبائل مذہبی طور پر کئی خداؤں کو مانتے ہیں اور ان کی زندگیوں پر قدرت اور روحانی تعلیمات کا اثر رسوخ ہے۔ یہاں کے قبائل کی مذہبی روایات کے مطابق قربانی دینے کا رواج عام ہے جو ان کی تین وادیوں میں خوشحالی اور امن کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔کیلاش قبائل میں مشہور مختلف رواج اور کئی تاریخی حوالہ جات اور قصے عام طور پر روم قدیم روم کی ثقافت سے تشبیہ دیے جاتے ہیں۔تقریباً تین ہزار کیلاش اسلام قبول کر چکے ہیں یا پھر ان کی اولادیں مسلمان ہو چکی ہیں۔ یہ لوگ اب بھی وادی کیلاش کے علاقے میں رہائش پزیر ہیں اور اپنی زبان اور قدیم ثقافت کی پیروی کرتے ہیں۔ اب ان لوگوں کو ‘‘شیخ‘‘ کہا جاتا ہے اور کیلاش قبائل کی تقریباً نصف آبادی پر مشتمل یہ لوگ اپنا جداگانہ اثررسوخ رکھتے ہیں۔ کیلاش عورتیں لمبی اور کالی پوشاکیں پہنتی ہیں، جو سیپیوں اور موتیوں سے سجائی گئی ہوتی ہیں۔ کالے لباس کی وجہ سے یہ چترال میں سیاہ پوش کہلائے جاتے ہیں۔ کیلاش مردوں نے پاکستان میں عام استعمال کا لباس شلوار قمیص اپنا لی ہے اور بچوں میں بھی پاکستانی لباس عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔


Enhanced by Zemanta

توپ کاپی میوزیم

سچی بات یوں ہے کہ واپسی کے باوجود میں ابھی تک استنبول کے سحر سے پوری طرح نکل نہیں پایا ہوں۔ دس روز کے لیے وہاں رہ کر واپس آنا ہوا تو کوئی دس منٹ نہیں گزرتے کہ کسی بدخبری سے دل و نگاہ کو واسطہ نہ پڑتا ہو۔ خیر وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا‘ اچھے دن بھی آ جائیں گے اور جلد یا بدیر ضرور آئیں گے۔ انسان ہو یا ملک ہر عروج کو زوال اور خدا مہربان اور چلن اچھا ہو تو زوال کو عروج کا حصول ناممکنات میں نہیں۔ اس مشیت ایزدی کا مشاہدہ مجھے توپ کاپی میوزیم استنبول میں گھومنے کے دوران بھی کرنے کا موقع بخوبی اور وافر ملا۔

توپ کاپی یعنی Cannon Gate جو اس وقت دنیا کی قدیم اوروسیع ترین عمارتوں میں شمار ہوتا ہے اس کا رقبہ سات لاکھ مربع میٹر ہے اور ابتداء میں New Palace کے نام سے جانا جاتا تھا۔ 1479ء میں سلطان مہمت کے علاقہ فتح کرنے کے بعد تعمیر ہونا شروع ہوا اور اس کی تکمیل میں چودہ سال کا عرصہ لگا جس کے بعد سلطنت عثمانیہ کا یہ فرمانروا اس میں منتقل ہوا۔ عثمانیہ دور میں 36 بادشاہ گزرے اور سلطنت عثمانیہ کے 624 سالہ دور حکومت کے قریب ترین صرف رومن ایمپائر کا دور گزرا۔ اس وقت کے عثمانیہ فرمانرواؤں کے قدموں تلے تین براعظم تھے۔ ان کے پاس وقت کا طاقتو ر ترین بحری بیڑہ تھا۔ توپ کاپی عمارت 400 سال تک سلاطین عثمانیہ کے رہائشی محل کے طور پر زیراستعمال رہی۔

ہر سال بیس لاکھ کے لگ بھگ سیاح توپ کاپی میوزیم دیکھنے دنیا بھر کے ممالک سے استنبول کا رخ کرتے ہیں جہاں وہ پندرہویں صدی اور اس کے بعد مسلمانوں کے دور حکومت اور ان کے عروج ہی نہیں زوال کی تاریخ کا نظارہ کرتے ہیں جب کہ مسلمان سیاح عبرت پکڑتے ہوں گے کہ محلاتی سازشیں چھتیس بادشاہوں کے قتل پر منتج ہوئیں۔

یہ محل جو مصطفیٰ کمال اتاترک کے حکم پر 1924ء میں میوزیم بنا دیا گیا، ایک کمال کی عمارت ہے جس میں بے شمار نادر اشیاء اور سلاطین عثمانیہ کے زیراستعمال ہر وہ چیز جس کا تصور بعض کے نزدیک ممکن اور اکثریت کے تصورات سے بعید ہو گا، موجود تھی۔ اگر ان کی صرف تفصیل ہی لکھ دی جائے تو کئی کھرب پتی بھی چکرا کر رہ جائیں کہ انھوں نے ایسے ایسے قیمتی اور محیرالعقول نوادرات کو اپنی سوچ سے بھی ماورا پایا ہے اور ان کی تصاویر جمع کی جائیں تو کئی البم بھر جائیں اور دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیا جائیں۔

چونکہ توپ کاپی محل (اب میوزیم) میں صدیوں تک علاوہ مال غنیمت سلاطین کی جمع کردہ اور تحفے کے طور پر ملی اشیاء نوادرات کا درجہ ہی نہیں رکھتیں ان میں موجود سونا اور بیش قیمت ہیرے جواہرات کی مارکیٹ ویلیو ہی لگائی جائے تو بھی شاید دنیا کے امیرترین اشخاص تک کانوں کو ہاتھ لگا کر قوت خرید نہ ہونے کے باعث دستبردار ہو جائیں۔

اس میوزیم کی شہرت، عظمت، نوعیت، وسعت اور تاریخی اہمیت کی وجہ سے استنبول آنے والے سیاح سب سے پہلے اس کی متنوع غلام گردشوں، بادشاہی کمروں یا حجروں، چار Courtyards، حرم، بیرونی خزانہ، شاہی اصطبل، سروسز ونگ، مقدس تبرکات، شاہی کچن، شاہی اندرون خانہ غیرملکی سفیروں سے ملاقات کا کمرہ، سونے کا بنا جواہرات جڑا شاہی تخت، شاہی لائبریری، سلطان اور شاہی فیملی کی خوابگاہیں، سلطان کے تخلیے کا کمرہ، سلطان کی مسجد، نایاب پینٹنگز، فوارے، حرم کے خدمت گار خواجہ سراؤں کے کمرے، سیاہ فام ہجڑوں اور خدمت گار دوشیزاؤں کی رہائش گاہیں، مادر ملکہ کی خواب گاہ، حرم کا اسپتال، مادر ملکہ و سلطان کے حمام (باتھ روم)، سلطانی تخت گاہ، شہزادوں شہزادیوں اور ولی عہد کے کمرے، مقربین خاص کے کمرے، بادشاہی ہال کمرہ، سحر و افطار کے کمرے، طبیب اعلیٰ کا کمرہ ، چینی، جاپانی، جرمن، آسٹرین، فرنچ، یورپین، روسی اور ترکی مٹی، سونے، چاندی، پیتل اور شیشے سے بنے بیش قیمت اور اعلیٰ ڈیزائینوں کے ظروف سلاطین کے لیے بنائے گئے پارچات، پگڑیاں اور ٹوپیاں، کینڈل اسٹینڈ اور جڑاؤ بکس اور خنجر۔ یہ ان بے شمار نوادرات و اشیاء میں سے چند ہیں جو بے حد خوبصورت نقش و نگار سے مزین محل میں موجود ہیں جنھیں دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔

یہاں اس سونے اور ہیرے جواہرات سے جڑے توپ کاپی خنجر کا ذکر بھی ضروری ہے جو سلطان نے ایرانی حکمران نادر شاہ کو تحفے میں بھیجا لیکن اس کے قتل کے باعث واپس آ گیا لیکن اگلے شاہ ایران، مغل بادشاہ، زار روس کے بھیجے گئے ہیرے جواہرات سے سجے بیش قیمت ظروف، تلواریں اور خنجر یہاں موجود ہیں جو توپ کاپی میوزیم کی زینت او رسیاحوں کے لیے سامان حیرت ہیں۔

بغیر تحقیق و یقینی ثبوت توپ کاپی کے ایک حصے Holy Relics کے بارے میں ترک تحقیق ہی کو بنیاد بنانا مناسب ہو گا۔ میوزیم کے اس سیکشن میں حضورؐ کے نقش پا کا نمونہ دیکھ کر کئی سیاحوں کو گم سم عقیدت کی تصویر بنے وہاں کھڑے پایا۔ وہیں پر ریش مبارک کے کچھ بال بھی ایک شیشی میں ڈسپلے میں رکھے تھے جن کے بارے میں تحریر ہے کہ سولہویں صدی میں مصر کو فتح کرنے پر یہاں منتقل کیے گئے۔ ان کے علاوہ عثمانی سلاطین کو فخر تھا کہ ان کے محل میں اس عہد کا ہاتھ سے لکھا ہوا قرآن پاک کا مسودہ اور خانہ کعبہ کی چابیاں بھی ہیں۔ میوزیم کے اسی سیکشن میں کچھ تلواریں بھی ڈسپلے میں تھیں۔ ان پر حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ اور خالد بن ولیدؓ کے نام تحریر تھے۔

یہیں پر حضرت داؤدؑ کی تلوار، حضرت موسیٰؑ کی چھڑی، حضرت یوسفؑ کی پگڑی اور حضرت ابراہیمؑ سے منسوب ٹوپی بھی رکھی تھی۔ یہ سب کچھ توپ کاپی میوزیم ڈسپلے میں دیکھا۔ یہ عمارت جسے اب میوزیم کہتے ہیں چار سو سال تک عثمانیہ سلاطین کی رہائش گاہ رہی۔ اس کی تزئین و آرائش مستقل ہوتی رہی۔ اس میں موجود نوادرات سلاطین جمع کرتے رہے تاآنکہ جنگ عظیم اول میں عثمانیہ سلطنت کا سورج غروب ہوا اور مصطفیٰ کمال پاشا نے شکست خوردہ بکھرتے ہوئے ملک کو سنبھالا، غیرملکی حکمرانوں کو نکال باہر کیا اور ریپبلک آف ترکی کی بنیاد رکھی۔ وہ ملک کے پہلے صدر بنے اور 1934ء میں اتاترک یعنی ترکوں کے باپ کا خطاب پایا۔ موجودہ ترکی کئی جہتوں میں ایک قابل تقلید ملک ہے لیکن پاکستان کو اس کی سطح پر پہنچنے کے لیے ایک مصطفیٰ کمال جیسے مثالی، قابل اور پرعظم رہنما کی ضرورت ہے۔

حمید احمد سیٹھی   

 

Enhanced by Zemanta

یہ میرے ساتھ نہیں ہو سکتا

اصفہانی خاندان کا تعلق کلکتہ سے تھا‘ یہ لوگ کلکتہ کے انتہائی متمول خاندانوں میں شمار ہوتے تھے‘ ابو الحسن کا تعلق اسی اصفہانی خاندان سے تھا‘ یہ کیمبرج میں پڑھتے تھے‘ وہاں قائداعظم کی تقریر سنی‘ قائداعظم کے عاشق ہو ئے اور باقی زندگی قائداعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ کی خدمت میں گزار دی‘ مسلم لیگ کے ساتھ مختلف عہدوں پر کام کیا‘ پاکستان بنا تو ابو الحسن اصفہانی کروڑوں روپے کے اثاثوں کے ساتھ پاکستان شفٹ ہو گئے‘ ڈھاکہ اور کراچی دونوں ان کے کاروباری مرکز تھے‘ ان دونوں شہروں میں ان کے کارخانے‘ کوٹھیاں‘ پلازے ‘ فارم ہاؤسز اور زمینیں تھیں‘ امریکا میں سفیر کی تعیناتی کا مرحلہ آیا تو قائداعظم نے اصفہانی صاحب کوپہلا سفیر بنا کر امریکا بھجوا دیا‘ یہ وہاں پانچ سال سفیر رہے‘ پھر دو سال برطانیہ میں ہائی کمشنر رہے‘ پھر ایک سال صنعت اور تجارت کے وفاقی وزیر بنے‘ بھٹو صاحب کا دور آیا تو انھیں افغانستان میں سفیر بنا کر بھیج دیا گیا‘ یہ اصفہانی صاحب کا سفارتی اور سیاسی پروفائل تھا جب کہ دوسری طرف یہ معاشی اور تجارتی میدانوں میں بھی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتے رہے‘ یہ صدر ایوب خان دور میں ان 22 خاندانوں میں شامل تھے جو ملک کے زیادہ تر وسائل کے مالک تھے‘ اصفہانیوں کے بارے میں کہا جاتا تھا‘ آپ پاکستان کے کسی حصے سے کوئی چیز خریدیں منافع کا ایک حصہ کسی نہ کسی ذریعے سے ہوتا ہوا اصفہانی گروپ تک پہنچ جائے گا‘ ابوالحسن اصفہانی کے تین بچے تھے‘ سکندر اصفہانی ان کے بڑے صاحبزادے تھے‘ اصفہانی صاحب سفارت اور سیاست میں مصروف رہتے تھے چنانچہ کاروبار کی ذمے داری سکندر اصفہانی کے کندھوں پر تھی‘ یہ خاندان ایوب خان اور بھٹو کے زمانے میں کھرب پتی ہو گیا‘ بھٹو صاحب نے صنعتیں قوما لیں لیکن اس کے باوجود اصفہانی خاندان کے پاس کراچی میں اربوں روپے کی پراپرٹی تھی‘ سکندر اصفہانی نے دو شادیاں کیں‘ پہلی اہلیہ سے چار بچے ٗ دوسری اہلیہ بے اولاد ہیں ۔1990ء کی دہائی میں جائیداد کا جھگڑا شروع ہوا‘ عدالتوں اور کچہریوں کا معاملہ چلا تو نوبت یہاں تک آ گئی وہ کراچی شہر جو کبھی اصفہانی خاندان کا گھر کہلاتا تھا اس شہر میں سکندر اصفہانی کے رہنے کے لیے کوئی چھت نہ بچی‘ سکندر اصفہانی سندھ کلب میں شفٹ ہو گئے‘ یہ دو سال کلب میں رہے اور دسمبر 2013ء میں سندھ کلب میں انتقال کرگئے‘ کلب سے ان کا جنازہ اٹھا‘ جنازے میں چند لوگ شامل تھے اور ان لوگوں میں ان کے خاندان کا کوئی شخص شامل نہیں تھا‘ سکندر اصفہانی فرح ناز اصفہانی کے والد اور حسین حقانی کے سسر تھے۔

یہ دولت کی بے وفائی اور دنیا کی بے ثبانی کا ایک واقعہ ہے‘ آپ اب پاکستان کے پانچ بڑے صنعتی گروپوں میں شامل ایک دوسرے خاندان کی کہانی بھی ملاحظہ کیجیے سہگل خاندان ایوب خان دور کے 22 خاندانوں میں پہلے پانچ خاندانوں میں شمار ہوتا تھا‘ یہ لوگ چکوال کے رہنے والے تھے‘ یہ دوسری جنگ سے قبل کلکتہ گئے‘ وہاں چمڑے کا کاروبار شروع کیا اور اس کاروبار پر مناپلی قائم کرلی‘ یہ لوگ قیام پاکستان کے بعد کراچی آ گئے‘ سہگل خاندان نے پچاس کی دہائی میں کوہ نور ٹیکسٹائل کے نام سے فیصل آباد اور راولپنڈی میں دو کارخانے لگائے‘ یہ کارخانے اتنے بڑے اور کامیاب تھے کہ آج بھی ان علاقوں کو کوہ نور کہا جاتا ہے‘ ایوب خان کا دور سہگل خاندان کے عروج کازمانہ تھا ٗسہگلوں نے پاکستان کا تیسرا بڑا بینک بنایا تھا‘ یہ گھی کی صنعت میں آئے‘ ریان کپڑا شروع کیا‘ کیمیکل اور مشینری کے شعبے میں آئے اور عروج کو ہاتھوں میں تھام لیا‘ محمد یوسف سہگل اس خاندان کے سربراہ تھے‘ یہ 1993ء میں فوت ہوئے‘ ان کی تدفین سے قبل خاندان میں پھوٹ پڑ گئی‘ بچے دولت اور جائیداد کے لیے لڑنے لگے اور آج اس خاندان کا صرف نام بچا ہے۔ آپ اب لاہور کے ایک فلم ساز کی کہانی بھی سنیے‘ وہ پاکستان کے چوٹی کے فلم ساز تھے‘ یہ پشاور کے رہنے والے تھے‘ یہ 21 سال کی عمر میں فلمی لائین میں آئے‘ صوبہ سرحد میں فلموں کے ڈسٹری بیوٹر بنے‘ جگت ٹاکیز اس وقت ہندوستان کی سب سے بڑی فلم کمپنی تھی‘ وہ اس کمپنی کی فلمیں ریلیز کرنے لگے‘ ایک وقت آیا جب وہ فلمساز جگت ٹاکیز کی تمام فلمیں ریلیز کرنے لگے‘ انھوں نے صوبہ سرحد میں ذاتی سینما بنالیے‘ یہ قیام پاکستان کے بعد لاہور شفٹ ہوئے‘ انھوں نے 1950ء میں ’’مندری‘‘ فلم بنائی‘ فلم کامیاب ہو گئی تو انھوں نے ایک فلمی کمپنی بنا لی‘ یہ بعد ازاں پاکستان کے معروف فلم اسٹوڈیو میں تبدیل ہو گئی‘ اس اسٹوڈیو میں سیکڑوں فلمیں بنیں۔ ملک کے درجنوں سپرسٹارزنے اس اسٹوڈیو میں آنکھ کھولی‘ وہ فلمساز لاہور کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہونے لگے‘ گلبرگ میں ان کی کئی کنال کی کوٹھی تھی‘ یہ 1974ء میں بیمار ہوئے اور گھر تک محدود ہو گئے‘ نعیم بخاری صاحب نے ان دنوں نئی نئی پریکٹس شروع کی تھی‘ یہ ان فلمساز کے ایک صاحبزادے کے وکیل تھے‘ اسی صاحبزادے نے ایک دن نعیم بخاری کو ساتھ لیا اور والد کے گھر پہنچ گیا‘ اداکار محمد علی بھی وہاں موجود تھے‘ بیٹے نے باپ سے جائیداد کا مطالبہ کر دیا‘ وہ والد سے گلبرگ لاہور والی کوٹھی لینا چاہتا تھا‘ باپ نے بیٹے کی منت کی ’’ میں بیمار ہوں‘ میں اس حالت میں کہاں جاؤں گا‘ میں آپ کو یہ کوٹھی لکھ دیتا ہوں‘ آپ کاغذات اپنے پاس رکھ لو‘ میرے مرنے کے بعد کوٹھی کا قبضہ لے لینا‘‘ بیٹے نے انکار کر دیا‘ اس کا کہنا تھا ’’ابا جی آپ کو یہ گھر ابھی خالی کرنا ہوگا‘‘ فلمساز کی صورتحال پر محمد علی اور نعیم بخاری دونوں کو ترس آ گیا‘ محمد علی نے فلمساز کے صاحبزادے کو پیش کش کی‘ زیبا بیگم کے پاس ڈیڑھ کروڑ کے زیورات ہیں‘ آپ یہ زیورات اپنے پاس رکھ لیں لیکن فلمساز کو اس گھر میں رہنے دیں‘ آپ کو جب یہ گھر مل جائے گا تو آپ میرے زیورات مجھے واپس کر دینا مگرصاحبزادہ نہ مانا‘ یہ معاملہ طول پکڑ گیا تو صاحبزادے نے بریف کیس سے پستول نکال لیا اور والد پر تان دیا‘ والد کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ وہ اٹھ کر اندر گئے‘ چیک بک لے کر آئے‘ ساٹھ ستر لاکھ روپے کا چیک کاٹا‘ یہ چیک صاحبزادے کے حوالے کیا اور آنکھیں نیچے کر کے بولے‘ آپ یہ رقم لو اور مجھے اس کے بعد کبھی اپنی شکل نہ دکھانا‘ اس نے وہ چیک جیب میں ڈالا اور نعیم بخاری کے ساتھ واپس چلا گیا‘ وہ فلمساز 1983ء میں انتقال کر گئے‘ انتقال کے وقت ان کا کوئی اپنا وہاں موجودنہیں تھا‘ نعیم بخاری صاحب کے بقول ’’یہ منظر دیکھنے کے بعد میرے دل میں پوری زندگی کے لیے دولت کی خواہش ختم ہو گئی‘‘۔

یہ صرف تین واقعات ہیں‘ آپ اگر چند لمحوں کے لیے آنکھیں کھول کر دائیں بائیں دیکھیں تو آپ کو اپنے اردگرد سیکڑوں ایسی مثالیں ملیں گی‘ آپ نے بھی درجنوں لوگوں کے عروج کا سورج زوال کے اندھیرے غار میں اترتا دیکھا ہو گا‘ ہم سے زندگی میں صرف دس چیزیں بے وفائی کرتی ہیں‘ ہم اگر ان دس بیوفاؤں کی فہرست بنائیں تو عہدہ دولت اور اولاد پہلے تین نمبر پر آئے گی‘ ہم عہدے کے لیے ایمان‘ عزت‘ سیلف ریسپیکٹ‘ اخلاقیات‘ صحت اور خاندان تک قربان کر دیتے ہیں لیکن یہ عہدہ سب سے زیادہ بے وفا نکلتا ہے ‘ میں نے زندگی میں بے شمار لوگوں کو عہدے کے لیے دوسروں کے قدموں میں بیٹھے اپنے کرتے کے دامن سے دوسروں کی رال صاف کرتے‘ دوسروں کے کتوں کو نہلاتے اور اپنی پگڑی سے صاحب کی گاڑی کا شیشہ صاف کرتے دیکھا لیکن عہدہ اس کے باوجود ان کے نیچے سے نکل گیا‘ میں نے کرسی پر بیٹھے لوگوں کو فرعون اور نمرود بنتے بھی دیکھا اور ’’نسلیں ختم کردو‘‘ جیسے احکامات جاری کرتے بھی لیکن پھر جب عہدے نے بے وفائی کی تو میں نے اپنی آنکھوں سے محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف جیسے با اختیار لوگوں کو بھی عدالتوں کے باہر گندی اینٹوں اور قلعوں کی حبس زدہ کوٹھڑیوں میں محبوس دیکھا‘ میں نے بے شمار ارب اور کھرب پتی لوگوں کو پیسے پیسے کا محتاج ہوتے بھی دیکھا‘ میں روز اسلام آباد شہر میں نکلتا اور ساتھ ساتھ سوچتا ہوں آج جہاں مارکیٹیں‘ گراؤنڈز اور سڑکیں بنی ہیں وہاں آج سے چالیس سال قبل گاؤں ہوتے ہوں گے اور ان گاؤں کے چوہدری بھی ہوتے تھے اور ان چوہدریوں کی انا بھی بانس کے آخری سرے کو چھوتی ہو گی لیکن آج وہ چوہدری‘ ان کی زمینیں اور ان کے گاؤں کہاں ہیں؟ شاید سپر مارکیٹ کے نیچے دفن ہوں یا پھر مارگلہ روڈ کی گولائیوں میں گم ہوں اور یہ صرف چالیس سال پرانا قصہ ہے‘ چار دہائیوں میں زمین کی شکل ہی تبدیل ہوگئی؟؟دولت مند غریب ہو گئے‘ مالک ملازم بن گئے اور نمبردار وقت کے سیاہ صفحوں میں جذب ہو گئے چنانچہ پھر دولت سے بڑی بے وفا چیز کیا ہوگی اور رہ گئی اولاد! میں نے بے شمار لوگوں کو اپنی اولاد سے محبت کرتے دیکھا‘ یہ لوگ پوری زندگی اپنی اولاد کے سکھ کے لیے دکھوں کے بیلنے سے گزرتے رہے لیکن پھر کیا ہوا؟ وہ اولاد زمین جائیداد کے لیے اپنے والدین کے انتقال کا انتظار کرنے لگی‘ میں نے اپنے منہ سے بچوں کو یہ کہتے سنا ’’ اباجی بہت بیمار ہیں‘ دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کی مشکل آسان کر دے‘‘ اور یہ وہ باپ تھا جو بچوں کے نوالوں کے لیے اپنا ضمیر تک بیچ آتا تھا‘ میں نے ایسے مناظر بھی دیکھے‘ باباجی کے سارے بچے ملک سے باہر چلے گئے۔ بابا جی نے تنہائی کی چادر بُن بُن کر زندگی کے آخری دن گزارے‘ انتقال ہوا تو بچوں کو وقت پر سیٹ نہ مل سکی‘ چنانچہ تدفین کی ذمے داری ایدھی فاؤنڈیشن نے نبھائی یا پھر محلے داروں نے!‘ یہ ہے کُل زندگی! اولاد‘ دولت اور عہدے کی بے وفائی ان بے وفائیوں کے داغ اور آخر میں قبر کا اندھیرا ۔ یہ وہ حقیقت ہے جس سے ہر شخص واقف ہے لیکن اس کے باوجود انسان کا کمال ہے‘ یہ دیکھتا ہے لیکن اسے نظر نہیں آتا‘ یہ سنتا ہے لیکن اسے سنائی نہیں دیتا اور یہ سمجھتا ہے لیکن اسے سمجھایا نہیں جا سکتا‘ ہر روز لوگوں کو تباہ ہوتا، مرتا، ذلیل ہوتا دیکھتا ہے مگر یہ ہر بار خود کو یقین دلاتا ہے ’’ یہ میرے ساتھ نہیں ہوگا‘‘ کیوں؟ کیونکہ ’’میں دوسروں سے مختلف ہوں‘‘۔